"موم کی گڑیا "
وہ عورتیں جو ہم مردوں کی زندگی میں جیون ساتھی کے روپ میں آتی ہیں موم کی طرح ہوتی ہیں۔ ہم اُنہیں اپنی مرضی سے جس روپ میں چاہیں ڈھالتے اور استعمال کرتے ہیں۔دُنیا سے ملنے والے ہر سبق کو ان کے جسم اور روح کی کوری سلیٹ پر لکھتے ہیں۔اپنی مایوسیوں ،محرومیوں ،خواہشوں اور چاہتوں کی ساری کترنیں اُن کے وجود کے ڈسٹ بن میں اُتار دیتے ہیں۔کبھی کچھ نہ بھی کر سکیں تو باکسنگ پیڈ کی صورت اپنی بھڑاس تو نکال ہی لیتے ہیں۔نہ ختم ہونے والا اور نہ تھکنے والا یہ موم ہمارے ہاتھوں کے لمس سے اپنی شناخت بدلتا رہتا ہے یہاں تک کہ ہم اس موم کی آنچ سے پگھل کر خود بھی موم بن جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ہمیں بھی اسی طرح اپنے رنگ میں رنگ لے۔ لیکن یہ وہ وقت ہوتا ہے جب موم پتھر بن چکا ہوتا ہے۔بھربھری مٹی سے بنا پتھر کا مجسمہ جو آثارِ قدیمہ کی طرح نایاب تو ہوتا ہے۔ پُرکشش اور حسین تو دکھتا ہے لیکن قریب جانے سے چھونے سے ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔ ہم مرد کبھی نہیں جان سکتے کہ عورت کو صرف ذرا سی زمین ہی تو درکار ہوتی ہے قدم رکھنے کے لیے۔۔۔ اپنے آپ کو کسی پیکر میں ڈھالنے کے لیے۔ یہ زمین چاہے دُنیا جیسے کسی بارونق بازار میں ملے یا کہیں کسی دل کے ویران کونے میں ۔
!حرفِ آخر
یہ بندھن عجیب بندھن ہے اس میں کوئی حرف ِآخر نہیں کہ کب کون موم بن جائے اور کون پتھر۔یہ تقدیر کے فیصلے ہیں اور موم بننا یا موم کا گڈا بنانا اس رشتے میں بُری بات نہیں اگر ایک حد میں ہو۔ اپنی حدود پہچان لیں توزندگی آسان ہو جاتی ہے۔
وہ عورتیں جو ہم مردوں کی زندگی میں جیون ساتھی کے روپ میں آتی ہیں موم کی طرح ہوتی ہیں۔ ہم اُنہیں اپنی مرضی سے جس روپ میں چاہیں ڈھالتے اور استعمال کرتے ہیں۔دُنیا سے ملنے والے ہر سبق کو ان کے جسم اور روح کی کوری سلیٹ پر لکھتے ہیں۔اپنی مایوسیوں ،محرومیوں ،خواہشوں اور چاہتوں کی ساری کترنیں اُن کے وجود کے ڈسٹ بن میں اُتار دیتے ہیں۔کبھی کچھ نہ بھی کر سکیں تو باکسنگ پیڈ کی صورت اپنی بھڑاس تو نکال ہی لیتے ہیں۔نہ ختم ہونے والا اور نہ تھکنے والا یہ موم ہمارے ہاتھوں کے لمس سے اپنی شناخت بدلتا رہتا ہے یہاں تک کہ ہم اس موم کی آنچ سے پگھل کر خود بھی موم بن جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ہمیں بھی اسی طرح اپنے رنگ میں رنگ لے۔ لیکن یہ وہ وقت ہوتا ہے جب موم پتھر بن چکا ہوتا ہے۔بھربھری مٹی سے بنا پتھر کا مجسمہ جو آثارِ قدیمہ کی طرح نایاب تو ہوتا ہے۔ پُرکشش اور حسین تو دکھتا ہے لیکن قریب جانے سے چھونے سے ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتا ہے۔ ہم مرد کبھی نہیں جان سکتے کہ عورت کو صرف ذرا سی زمین ہی تو درکار ہوتی ہے قدم رکھنے کے لیے۔۔۔ اپنے آپ کو کسی پیکر میں ڈھالنے کے لیے۔ یہ زمین چاہے دُنیا جیسے کسی بارونق بازار میں ملے یا کہیں کسی دل کے ویران کونے میں ۔
!حرفِ آخر
یہ بندھن عجیب بندھن ہے اس میں کوئی حرف ِآخر نہیں کہ کب کون موم بن جائے اور کون پتھر۔یہ تقدیر کے فیصلے ہیں اور موم بننا یا موم کا گڈا بنانا اس رشتے میں بُری بات نہیں اگر ایک حد میں ہو۔ اپنی حدود پہچان لیں توزندگی آسان ہو جاتی ہے۔
میں آپ کی تحریر میں صرف اتنا اضافہ کروں گا عورت موم بن کے ڈھلتی بھی ہے اور قریب آنے والے کو موم کا پتلا بھی بنا سکتی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے حرفِ آخر کا مطلب یہی ہے
جواب دیںحذف کریںآپ بھی ایک عورت ہیں ۔۔۔کیا آپ موم کی گڑیا بننا پسند کریں گیں یا موم کا گُڈا بنائیں گیں؟ ۔۔ امید ہے جواب ضرور دیں گیں۔۔۔
جواب دیںحذف کریںظاہر حمید
یہ تقدیر کے فیصلے ہیں اور موم بننا یا موم کا گڈا بنانا اس رشتے میں بری بات نہیں اگر ایک حد میں ہو ۔ اپنی حدود پہچان لیں تو پھر زندگی آسان ہو جاتی ہے
حذف کریںآپ نے لکھا ہے کہ " اپنی حدود پہچان لیں تو زندگی آسان ہوجاتی ہے"۔۔ او بی بی۔۔ سارا جھگڑا ہی تو حدود کی پہچان کا ہے ۔۔حدود کا تعین کون کرے گا ؟
جواب دیںحذف کریںدوسرا یہ کہ آپ نے تقدیر کے فیصلے کی بات کی ہے تو عرض ہے کہ۔۔۔
تقدیر نے فیصلہ دیا کہ بانج عورت / بانج مرد (اصطلاحی معنی میں ) بچّوں سے محروم رہیں گے۔۔۔
لیکن آج اُنکی نسل پیدا ہو رہی ہے ۔۔۔
اِس بارے میں ۔۔۔ اب آپ کو تقدیر کا فیصلہ کہاں کھڑا نظر آرہا ہے ؟۔۔۔
ہوسکے تو جواب دیں ۔۔۔ میری معلومات میں اضافہ کریں۔۔۔
طاہر حمید