منگل, اکتوبر 11, 2016

"مراقبۂ موت"

۔۔
 زندگی کتاب  کا سب سے اہم سبق "موت" ہے۔ انسان کی موت اُس کی قیامت ہے۔ہم صرف تماشائی بن کر سوچتے ہیں اور قیامت کو  فلم کے ایک منظر کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ جانے بنا کہ ہم اس کے ایک کردار بھی ہوسکتے ہیں۔
قبرستان میں انسان کبھی اپنی مرضی  یا خواہش سے نہیں جاتا۔ کبھی  کھلی آنکھ سےکسی نہ کسی انسان کے حوالے سے  قدم رکھتا ہے  توکبھی بند آنکھوں کے ساتھ  دوسرے انسانوں کے قدموں  پر ان کے کاندھے کا سہارا لیے ہوئے۔
زندگی موت کی  کہانی ہم ہوش سنبھالنے سے ہی دیکھتے چلے آتے ہیں۔یادوں کے رنگ  چاہے  جتنا پکے ہوں مصروفیاتِ زندگی میں دھندلے ہو ہی جاتے ہیں لیکن کبھی نہ کبھی ایک دم اپنی پوری حساسیت کے ساتھ یوں چمک اُٹھتے ہیں کہ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب اپنوں کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کے بعد اُن کی یاد کی خوشبو لیے ہمارے قدم شہرِخموشاں کی جانب اُٹھتے ہیں تو خودکلامی کی کیفیت میں لفظ یوں بولتے ہیں۔۔۔۔
۔"اُس شہرِسکوت میں اُداس درختوں پر چکر لگاتے پرندے صدا لگاتے تھےتو کتبوں پر لکھے چیختے لفظ قدم روکتے، بدلے میں کچھ نہ مانگتے صرف احساس کی نرمی اور سکون کی دعا کے طالب تھے،اور دینے والے تازہ گلاب کی پتیاں،آنکھ کے آنسو اور دعا کے موتی نذر کرتے تھے۔ یہ صرف کچھ منٹوں کا کھیل ہوتا جتنے ذوق وشوق سے لدےپھندے آتے اُتنی ہی تیزی سے سب کچھ مٹی کے حوالے کر کے شانت ہو کر واپس چلے جاتے۔دور دور تک پھیلی قطاردرقطار قبروں میں رہنے والے زبانِ حال سے داستانِ زندگی کہتے تھے تو اُن کے سرہانے لگی تختیاں اپنوں کی محبت یا ان کی بےحسی کا نوحہ سناتی تھیں۔
سمجھ میں نہیں آتا تھا اور دیکھ کر بھی نہیں دِکھتا تھا کہ یہ جانے والے سانس لیتے تھے یایہاں رہنے والے زندہ تھے ؟ کون زندہ کون مردہ کا گورکھ دھندہ مزید الجھا دیتا۔ یہ تو بہرحال طے تھا کہ یہاں سے پلٹ کر جانے والے اور یہاں رہنے والے الگ الگ دُنیاؤں کے باسی تھے،فرق صرف موجود اور معدوم کا تھا۔۔۔ظاہر اور باطن کا تھا۔بس تقدیر کی گردش سے سکے کے دو رُخ اپنی جگہ بدل لیتے۔اس فاش حقیقت کا انکشاف روح لرزا دیتا اور انسان کی کوتاہ بینی سب جھگڑے ختم کر دیتی۔انسانی آنکھ کی دستیاب عقلی صلاحیت کےتحت مٹی کے ڈھیروں تلےساتھ ساتھ رہنے والے اپنے سود وزیاں سے آزاد تھے تو دنیا کے کسی بھی ذہین انسان کے مقابلے میں عقل وشعور کی انتہا کو چھو چکے تھے،اُن کی آنکھوں سے تشکیک کے پردے چھٹ چکے تھے تو یقیناً وہ زندگی کی معراج پر تھے دوسری طرف زمین پر چلنے پھرنے والے انسان جو نہ صرف اپنے دل ودماغ کی بات سمجھنے سے قاصر تھے بلکہ اپنے قریب رہنے والوں کو محسوس کرنے کا ہنر بھی نہیں جانتے تھے،۔یہ انسان بس سانس لیتے روبوٹ تھے جنہیں اپنی ذات سے باہر کچھ سنائی دیتا تھا اور نہ دکھائی دیتا تھا۔ سوچنے کی بات یہ تھی کہ ہم بظاہر مردہ دکھتے مٹی میں مل کر مٹی ہونے والوں کے فہم سے کیا حاصل کرتے تھے؟ہم فانی دنیا کی فانی لذت چھن جانے پر ان کو "بےچارے" تصور کرتے تھےیا زندگی کے عارضی جھگڑوں اور مشکلات سے نکل جانےپر اور دنیاوی زندگی کےآخری امتحان کی تکمیل پراپنے سے افضل گردانتے تھے؟۔
 قبرستان میں قدم رکھتے ہی جہاں  وسعتِ نگاہ تک  قبور  کی دُنیا دِکھائی دیتی ہے  وہیں ان کے سرہانے لگے کتبے  اہلِ قبر کی زندگی کہانی سناتے  اور سوچ کے در کھولتے ہیں۔ کتبے کوکسی قبر کا  ایک روایتی تعارف  کہا جا سکتا ہے۔لیکن   نام ہی کی طرح  یہ وہ شناخت ہے جوہمارے   قرابت دار اپنے فہم اور  احساس کے  تحت ہی  طے کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں   ہمارا نام اگر  دنیا میں آمد کی  نوید  ہے تو ہمارا کتبہ ہمارے جانے  پر مہر ثبت کرتا ہے اور ہر دو کے رکھنے اور متن سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ جب ہم زندگی کتاب کے استعارے سے بات کریں  تو کتبے کو اسکے آخری باب "موت" کا انتساب کہا جا سکتا ہے ایسا انتساب جس  کے   رکھنے  کا صاحبِ کتاب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ 

٭ میں اہم تھا یہی وہم تھا۔
٭ آج زمین کے اوپر کل زمین کے نیچے۔
٭ کہانی ختم زندگی شروع۔
٭ عمر  کٹ ہی گئی۔
٭ زندگی خاک ہی تو تھی  سو خاک اُڑاتے گذری۔
 ٭بس یہی تو منزل تھی۔
٭ آج ہماری کل تمہاری
٭آج یہاں کل وہاں
 ٭اگر اور یقیناً کے بیچ کی کہانی

2 تبصرے:

  1. ۔مٹی ڈالتے وقت پڑھنے کی آیات
    سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر پچپن 55 ....
    تین دفعہ دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کرقبر پر ڈالنی ہے۔۔۔۔۔۔
    پہلی دفعہ ڈالتے ہوئے پڑھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
    مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ۔۔۔۔۔
    ترجمہ: اسی زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا ۔۔۔۔
    دوسری دفعہ ڈالتے ہوئے پڑھنا ہے۔۔۔۔۔
    وَفِيْـهَا نُعِيْدُكُمْ۔۔۔۔۔
    ترجمہ:اوراسی میں ہم تمھیں واپس (بعد موت) لے جائیں گے۔۔۔۔۔۔
    تیسری دفعہ ڈالتے ہوئے پڑھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔
    وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى۔۔۔۔۔
    ترجمہ:اور(قیامت کے روز) پھر دوبارہ اسی سے ہم تم کو نکال لیں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. https://www.facebook.com/muftiadnankakakhail/videos/701439829898772/

    جواب دیںحذف کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...