جمعرات, جون 04, 2015

"خدائے سخن"

سر سری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہرجاں جہان دیگر تھا
۔۔۔
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانےنہ جانےگل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
میر تقی میر
پیدائش۔۔1722ء ۔۔۔آگرہ
وفات۔۔۔۔21ستمبر 1810ء۔۔ لکھنؤ
"خدائے سخن"
میر تقی میر کی شاعری کے فنی اور ادبی محاسن پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے۔ تحقیق اور جستجو کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ میر تقی میر اپنے کلام کے بارے میں کیا کہتے تھے اور ان کے ہم عصر اور بعد میں آنے والے اہلِ سخن کے دل پر میرتقی میر کی شاعری نے کیا تاثر چھوڑا۔۔۔اُس کی ایک جھلک ۔۔۔
میر تقی میر۔۔ اپنی نظر میں ۔۔
ریختہ خو ب ہی کہتا ہے جو انصاف کریں
چاہیے اہل ِ سخن میر کو استاد کریں
۔۔۔
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا ا س کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
۔۔۔۔
گر دیکھو تم طرز ِ کلام اس کی نظر کر
اے اہل ِ سخن میر کو استاد کرو گے
۔۔۔
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہمار یاں
۔۔۔۔
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا
کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دُھنیے گا
۔۔۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔
سہل ہے میر کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے
۔۔۔۔۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
۔۔۔۔۔
جانے کا نہیں شور سخن کا میرے ہر گز
تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا
۔۔۔۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
۔۔۔۔۔
ہر ورق ہر صفحہ میں ایک شعر شورانگیز ہے
عر صہٴ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا
۔۔۔۔
جہاں سے دیکھیئے ایک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
۔۔۔۔
جی میں آتا ہے کچھ اور بھی موزوں کیجئے
درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا
۔۔۔۔۔۔
گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ
میر جی بھی کمال رکھتے ہیں
۔۔۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
دوسرے شعراء اور اہلِ سخن کی نظر میں
( مرزا رفیع سودا۔۔1713۔۔1781 )
سودا تو اس زمین میں غزل در غزل لکھ
ہونا ہے تم کو میر سے استاد کی طرح
۔۔۔۔
(شیخ غلام ہمدانی مصحفی( 1750۔۔1824
اے مصحفیؔ تو اور کہاں شعر کا دعوےٰ
پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میرؔ کے منہ پر
۔۔۔۔
(امام بخش ناسخ۔۔1776۔۔1838)
ناسخ نے میر تقی میر کی تاریخ وفات یوں کہی
" واویلا مردشۂِ شاعراں "۔۔
۔۔۔۔
شبہ ناسخؔ نہیں کچھ میرؔ کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
۔۔۔۔
(۔(محمد ابراہیم ذوق ۔1789۔۔1854
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
۔۔۔
مرزا اسداللہ خان غالب (1797۔۔1869) ۔
ریختے کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
۔۔۔۔
میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشن کشمیر نہیں
۔۔۔۔
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آب بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
۔۔۔۔۔
نواب مصطفٰی خان شیفتہ 1806۔۔1896
نرالی سب سے ہے اپنی روش اے شیفتہؔ لیکن
کبھی دل میں ہو ائے شیوہ ہائے میرؔ پھرتی ہے
۔۔۔۔
امیر مینائی 1828۔۔1900
سوداؔ و میرؔ دونوں ہی استاد ہیں امیرؔ
لیکن ہے فرق آہ میں اور واہ واہ میں
۔۔۔۔۔۔
مرزا داغؔ دہلوی 1831۔۔1905
میرؔ کا رنگ برتنا نہیں آساں اے داغؔ
اپنے دیواں سے ملا دیکھیے دیواں ان کا
۔۔۔۔۔۔۔
میر مہدی مجروح 1833۔۔1903
یوں تو ہیں مجروحؔ شاعر سب فصیح
میرؔ کی پر خوش بیانی اور ہے
۔۔۔۔
جلال لکھنوی 1834۔۔۔1909
کہنے کو جلال آپ بھی کہتے ہیں وہی طرز
لیکن سخنِ میر تقی میرؔ کی کیا بات ہے
۔۔۔۔۔۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ:1837۔۔1904
حالیؔ سخن میں شیفتہؔ سے مستفید ہے
غالبؔ کا معتقد ہے، مقلد ہے میرؔ کا
۔۔۔۔
اسمٰعیل میرٹھی 1844۔۔۔1917
یہ سچ ہے کہ سوداؔ بھی تھا استاد زمانہ
مِیری تو مگر میرؔ ہی تھا شعر کے فن میں
۔۔۔۔
اکبرؔ الہ آبادی1846۔۔۔1921
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخؔ و ذوقؔ بھی جب چل نہ سکے میرؔ کے ساتھ
۔۔۔۔
(حسرت موہانی 1875 ۔۔۔1951)
گذرے ہیں بہت استاد، مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک
۔۔۔۔۔
شعر میرے بھی ہیں پردرد،ولیکن حسرت
میر کا سا شیوہ گفتار کہاں سے لاؤں
۔۔۔
ابنِ انشاء۔۔ شیر محمد خان (1927۔۔1978)۔
اب قربت و صحبت یار کہاں
لب و عارض وزلف وکنار کہاں
اب اپنا بھی میر سا عالم ہے
ٹُک دیکھ لیا جی شاد کیا
اک بات کہیں گے انشاء جی
تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم ایک جہان کا علم پڑھے
کوئی میرسا شعر کہا تم نے
دل پہ جو بیتے سہہ لیتے ہیں اپنی زباں میں‌ کہہ لیتے ہیں
انشاء جی ہم لوگ کہاں اور میر کا رنگ کلام کہاں
اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
۔۔۔۔۔۔
احمد فرازؔ 1931۔۔2008
فرازؔ شہرِ غزل میں قدم سلوک سے رکھنا
کہ اِس میں میرؔ سا، غالبؔ سا خوش نوا بھی ہے
۔۔۔۔۔۔
بابائے اردو "مولوی عبدالحق (1870۔۔۔16 اگست 1961 )" کہتے ہیں ۔۔
” اُن کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے"۔
” انہوں نے سوز کے ساتھ جو نغمہ چھیڑا ہے اس کی مثال دنیائے اردو میں نہیں
ملتی۔
میر تقی میر اور ناصر کاظمی ( 8 دسمبر 1925۔۔۔ 2 مارچ 1972 )۔
۔ناصر کاظمی نے میر کے کلام کا ایک انتخاب کیا تھاجو 2001ء میں'' انتخاب میر'' کے نام شائع ہوا۔ ناصر نے میر کی غزلوں کے مقطعات کو اکثر شامل انتخاب کیا ہے اور بعض اوقات تو پوری غزل میں سے صرف مقطع ہی شامل ہے۔انتخاب میر'' میں ایسا کوئی شعر موجود نہیں جو مطلع یا مقطع نہ ہو اور اس میں میر نے اپنا تخلص استعمال کیا ہو۔میر نے بعض اوقات مقطع کی بجائے مطلع میں ہی اپنے تخلص کا استعمال کیا ہے۔
میر تقی میر اور اُن کی قبر۔۔۔۔
دوسو برس سے زائد عرصہ ہونے کے باوجود میرتقی میر کے لفظ آج بھی اپنی بھرپور تازگی کے ساتھ سانس لیتے ہیں جبکہ اُن کے فانی جسم کی طرح اُن کی قبر کا نام ونشان بھی امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں مٹ چکا۔ 
سیرحاصل تفصیل جناب ڈاکٹر غلام شبیر رانا (جھنگ) کی اس تحریر میں ۔۔
میرتقی میر :نہ کہیں مزار ہوتا
(Dr. Ghulam Shabbir Rana, J

1 تبصرہ:

  1. میرتقی میر دراصل ایک شاعر نہیں ایک مکمل انسان کا استعارہ ھے، وہ انسان جس کی جبلت اسے آدمیت کا مکمل ادراک بخشتی ھے اور جس کی انسانیت اسے اُس مرتبے پر فائز کرتی ھے جہاں وہ دامن نچوڑے تو فرشتے وضو کرتے ھیں۔ میر تقی میر کا فن اس کی زندگی سے ایسے جڑا ھے جیسے زندگی سے انفاس۔

    جواب دیںحذف کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...