منگل, جون 16, 2015

"پاکستانی عورت"











ہمارے معاشرے میں عورت  کے افعال اور کردارکی نمائندگی کرتی خواتین کے حوالے سےبات کی جائےتو سب سے پہلےمحترمہ
فاطمہ جناح، پھر بانو قدسیہ اور اس کے بعد بلقیس ایدھی صاحبہ اپنی ذات کی نفی کر کے، اپنے آپ کی قربانی دے کر اپنی زندگی میں آنے والے مرد کی خاطر اپنا احساس قربان کر دینے کی روشن مثال ہیں۔
٭ فاطمہ جناح (31 جولائی1893ء... ، 9جولائی1967ء)۔
٭ بانو قدسیہ ( 28 نومبر1928ء۔۔4فروری2017)۔
٭ بلقیس ایدھی (14 اگست1947) ۔۔۔اہلیہ جنابعبدالستار ایدھی(28فروری 1928۔۔8جولائی 2016)۔
یہ  خواتین عام پاکستانی عورت کے لیے انسانی رشتوں،جذبات اور احساسات کی بُنت کے لحاظ سے یوں قابلِ تقلید ہیں کہ  ان کی زندگی کا ایک ایک گوشہ سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے کہیں بھی کوئی چوردروازہ یا خفیہ خانہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا اور اس لیے بھی کہ انہوں نےزندگی کا سفر" صفر" سے شروع کیا۔یہ ان کا ظاہر ہے جسے ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی جھٹلا نہیں سکتا لیکن ان کے اندر کی کہانی ان کا بڑے سے بڑا راز دان بھی نہیں جان سکا یا جان سکتا ہے سوائے اس کے جو انہوں نے ضبط کی آخری منزلوں سے گزرتے ہوئے اپنی خودکلامی میں کہہ دیا اوریہی خواتین اپنے افعال وکردار سے ہمارےمعاشرے میں مرد کی حاکمیت اور اُس کی سوچ کی ترجمانی بھی کرتی ہیں۔
فاطمہ جناح کا ان کے بھائی کے بعد ہم نے جو حال کیا وہ تاریخ میں رقم ہے۔"مادر ملت" کا لقب دے کر گویا ہم نے اگلے پچھلے سارے قرض چکا دئیے۔اب کون 'مادر' اور'ملت' کی گہرائی میں جا کر گڑھے مردے اُکھاڑے کہ"اور بھی غم میں زمانے میں ۔۔۔"محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کے انیس سال(1929۔۔۔1948 )بھائی کے ساتھ گزارے اور اتنے ہی سال(1948۔۔1967)اُن کی وفات کے بعد زندہ رہیں۔اپنےعظیم بھائی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیےمحترمہ فاطمہ جناح نے جناب قائدِاعظم کی زندگی کے احوال پر"میرا بھائی" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے1954 میں نیوزی لینڈ کے ناول نگار ہیکٹر بولیتھو کی کتاب"جناح کریٹر آف پاکستان" کے نام سے منظرِعام پر آئی۔عام خیال یہ ہے کہ اس کتاب میں موجود ناکافی معلومات اور کئی ایک جگہوں پر واقعات اور حالات کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح نے بھائی کے ساتھ اپنی قربت کا حق ادا کرنے کے لیے قلم اُٹھایا۔
ادب اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی  خواتین کی نجی زندگی کے بارے میں کتاب آشنا  بہت کچھ جانتے ہیں۔بانوقدسیہ،پروین شاکر،کشور ناہید(بری عورت کی کتھا)شبنم شکیل (شاعرہ)،ادا جعفری،نیلم احمد بشیر(لکھاری اور  بشرٰی انصاری کی بڑی بہن)،خود بشرٰی انصاری اور ایک طویل فہرست ہے جن سے مطالعہ کرنے والے بخوبی واقف ہوں گے۔ان سب میں عورت کے جذبات اور کردار کی حقیقی ترجمانی اور اپنی ذات کی نفی کر کے بھی اپنی ذاتی حیثیت منوانے کی بنا پر بانوقدسیہ زندگی کے ہر میدان میں  مثال کے حوالے سے  سرفہرست ہیں۔
بانوقدسیہ نے چپ کا لبادہ اوڑھ کراپنا خون جگر لفظ کی صورت معاشرے کے حوالے کیا اور تعظیم و تکریم کی دیوی کا روپ اپنا لیا۔ اُن کے جیون ساتھی محترم لکھاری اشفاق احمد کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے وقتاً فوقتاً اپنی تحاریر میں بانوقدسیہ کی ذات کی رنگا رنگی اوراُن کی تحاریر کا برملا اعتراف کیا۔بانو قدسیہ نےجناب اشفاق احمد کے وصال 7ستمبر 2004 کے بعد اپنی آنے والی کتاب"راہ رواں"میں سلیقےاور قرینے سے کہہ کر دل کا بوجھ کسی حد تک محسوس کرنے والے اذہان کے حوالے کیا اور اپنی زندگی کے ہر راز،ہر سمجھوتے اور ہر احساس سے پردہ  بھی اُٹھا دیا۔بظاہر وہ  چاند سورج کی جوڑی  تھی،ایک آئیڈیل ملاپ۔۔۔زمانے سے ٹکرا جانے والی محبت کی داستان۔۔۔ایک ساتھی کے ہمیشہ کے لیے جدا ہونے تک "کامیاب"شادی شدہ زندگی لیکن اصل راز سے پردہ محترمہ بانو قدسیہ نے اپنی کتاب راہ رواں میں خود ہی اُٹھا دیا۔ وہ رام کہانی جس کے بارے میں ڈھکے چھپے انداز سے ممتازمفتی بھی کہتے رہے، یہ اور بات کہ اس سلیقے اور سادگی سے بانو قدسیہ نے اپنی پسپائی کو بیان کیا کہ پڑھنے والا کہیں بھی اسے خود ترسی نہیں سمجھتا۔۔۔ بانو قدسیہ نے اپنے مقام کو پہچان کر اس کے اندر رہتے ہوئے اپنا نام نہ صرف ادب کی دنیا میں منوایا بلکہ ایک بہترین ساتھی  اور مشفق ماں کی روشن  مثال ہیں۔ 
بلقیس ایدھی"مادرِ پاکستان" کا اعزاز حاصل کر کےلاکھوں خواتین کے سرکی ردا بن کربھی اپنے گھر کے مرد کے لیے وہی جھاڑیں کھانے والی عام سی اُجڈ عورت ہے۔سلام ہے اس پر کہ اپنی سادگی میں کہہ تو بہت کچھ دیتی ہے لیکن ہے وہی مشرقی وفا شعار بیوی۔اپنے سرکے تاج کی سلامتی کے لیے آنسو بہانے والی اور اس کی رضا میں راضی رہنے والی۔ اور!'سرتاج' وہی اوروں کے لیے مسیحا ،اوربیوی کے لیے سخت گیر آقا۔
میرا بھائی۔۔۔۔ ڈاؤن لوڈ کا لنک۔۔
https://drive.google.com/file/d/0B-sMEpE4Er5IZWJuQ3p3eDVMN2c/view




12 تبصرے:

  1. جی

    باجی

    سلام علیکم

    سب سے پہلے آپ کو رمضان کی خوشیاں مبارک ہوں... دعاء کی درخاست.

    ماشا اللہ بہت خوب تر لکھا ہے آپ نے بھی...

    آپ کے مضمون کے کچھ حصّہ کا میں احاطہ کروں گی. آپ کا مضمون بہت طویل ہے. ایک آپ ہی کے مضامین ہوتے ہیں اور تو کوئ لکھتا نہیں. آپ کا یہ مضمون آسان ہے اس لیئے لکھ رہی ہوں ورنہ اونچے معیار کے ہوتے ہیں آپ کے مضامین. پلّے ہی نہیں پڑتےمیرے تو لکھوں گی کیا.؟


    عورت ہر حال میں خیر
    ہے (ایک حدیث)

    (ترجمہ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص اللہ کےرسول صلعم کے پاس آیا. اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول ! لوگوں میں کون ہے جو سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مصتحق ہے.؟ آپ صلعم نے فرمایا تمھاری ماں. اس نے کہا پھر کون.؟ آپ نے فرمایا تمھاری ماں. اس نے تیسری بار کہا پھر کون.؟ آپ نے فرمایا تمھاری ماں. اس نے پھر چوتھی بار پوچھا پھر کون.؟ آپ صلعم نے کہا تمھارا باپ.

    ماں کی صورت میں عورت کو سب سے زیادہ قابل احترام بنانا بتاتا ہے کہ اسلام کس قسم کا معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے. اسلام کے نزدیک سب سے زیادہ بہتر معشرہ وہ ہے جس میں عورت کو سب سے زیادہ عزت و احترام کا مقام حاصل ہو. جو شخص "ماں" کے روپ میں ایک خاطون کا سب سے زیادہ لحاظ کرے. اس کے اندر لازمی طور پر یہ مزاج بنے گا کہ وہ دوسری خواتین کا بھی سب سے زیادہ لحاظ کرے گا. اس طرح پورے معاشرہ میں عورت کو وہ مقام مل جائگا جو گھر کے اندر ایک ماں کو ملا ہو.
    اظہار خیال کی آزادی

    خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ ممبر پر کھڑے ہوئے اور لوگوں سے کہا کہ : تم لوگ عورتوں کے زیادہ مہر نہ باندھو.. اس کے بعد ایک عورت اٹھی اور اس نے بلند آواز سے کہا: اے عمر! اس معاملہ میں آپ کو دخل دینے کا حق نہیں. کیونکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے عورتوں کو زیادو مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ نہ لو. یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی
    بات واپس لے لی اور کہا: عورت نے سہی بات کہی اور عمر نے غلطی کی.

    حضرت عمر فاروق اپنے وقت کے حکمران تھے. ان کو ایک عام عورت نے برسر عام ٹوک دیا اور کہا اور حکمران کو اپنی بات واپس لینی پڈی. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں عورت کو کس قدر زیادہ حقوق حاصل ہوتے ہیں.

    موجودہ زمانہ کا یہ زہنی بگاڑ ہے کہ گھر سنبھالنے کو کم درجہ کا کام سمجھا جاتا ہے. اور با ہر کے کام کو زیادہ بڑا کام سمجھ لیا گیا ہے. مگر اسلام گھر سنبھالنے کے کام کو بھی ا تنی عزت کا درجہ دیتا ہے جتنا کہ باہر کے کام کو. حقیقت یہ ہے کہ دونوں یکساں اہمیت کے کام ہیں. ان میں سے کسی فریق کو یہ حق نہیں کہ وہ احساس برتری میں مبتلا ہو اور نہ کسی فریق کو چاہیئے کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنی اہمیت خود اپنی نظر میں گھٹا لے.

    سب نہیں ، بعض مرد حضرات اپنے کام کو اتنا بڑھا کر پیش کرینگے جیسے پہاڑ کھود کر آرہے ہوں... (یہ میری رائے ہے)..

    وسلام
    بشرٰی خان
    * میری اردو بہت کمزور ہے غلطیاں معاف فرمائیگا. جتنا کچھ لکھ پائ ہوں محترم افتخار اجمل صاحب کی Guidance کی وجہ سے.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ ۔آپ نے بہت سادگی اور سچائی سے اپنی سوچ شئیر کی ۔ نبی کریمﷺ اور اصحاب نبیﷺ کے بعد تو مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں۔ میں آپ کے خیال سے متفق ہوں۔ اسی طرح بلا جھجھکے کہہ دیا کریں۔

      حذف کریں
  2. Kamran Shahid
    اگر کوئی عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے اس کی تذلیل و تحقیر کرتا ہے اسے زدوکوب کرتا ہے یا کسی بھی قسم کی ظلم زیادتی اس پر روا رکھتا ہے...تو اسے مرد کہنا مردانگی کی تذلیل کرنا ہے...وہ حیوان ہے...لیکن اس کو حیوان بنانے میں عورت ہی قصوروار ہوتی ہے...
    خدا نے عورت کو لطافت نفاست و ضرافت جیسی پیچیدہ تر خوبیاں عطا کیں...اور اسے ایسی صلاحیتیں دیں جن سے مرد محروم ہے جو مرد نہیں کر سکتا جو مرد کی قوت سے بالاتر امور ہیں...کیونکہ اس سے بہت بڑا کام لیا جانا ہے بہت عظیم مقصد پورا کرنا ہے بہت بڑا بلند تر گہرا اور وسیع تر ہدف اور کام عورت کے ذمے ہے...
    اور وہ بڑا اور عظیم ہدف ھے انسان سازی...یعنی جو گوشت پوست کی یہ مخلوق ہے اس میں انسانی کمالات بیدار کرنا عورت کا کام ہے...تاکہ انسان بن کر یہ خلافت خدا کی عظیم ذمہ کے لیے اہل بن سکے...
    انسان عورت کی گود یا درسگاہ یا تربیت گاہ میں دو سال تک رہتا ہے تاکہ وہ عورت اس میں خدائی صفات کو اجاگر کر کے اسے سنوار کر اس میں خدائی صفات ڈال کر اسے انسانیت کے کمال تک پہنچائے...
    جہاں سے وہ خلیفہ خدا پیشوائے مخلوقات اور مخلوقات کی ملک و قوم کی امامت کے قابل بن سکے...
    یہ بڑی ذمہ داری عورت کے سپرد ہے...
    لیکن اگر عورت اپنی ذمہ داری میں غفلت کرے تو یہی وجود انسان کے بجائے حیوان و درندہ بن جاتا ہے اور پلٹ کر اسی عورت پرہاتھ اٹھاتا ہے اسی کی ذلیل کرتا ہے اسی کی عزت کو تارتار کرتا ہے...یہ غفلت کا نتیجہ ہے...
    الغرض عورت کا مقام بہت ہی بلند تر اور عظیم ہے اور اس کی ہستی خدا کے رازوں میں سے اک راز ہے...
    ہاں یہ الگ بات ہے کہ آج کے معاشرے میں فضلہ خور میڈیا نے اس سے اس کا مقام اس کا ھدف لے کر اسے کہیں اور لگا دیا ہے...

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ نے بہت خوبی سے اس پیچیدہ رام کہانی کی گتھی سلجھانے کی کوشش کی۔ شاید یہی نکتہ میرے اس خیال کی بنیاد بھی ہے کہ عورت کو اپنے شرف کی پہچان ہی نہیں۔ معاشرے کے بہت سارے مسائل اور بگاڑ کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔

      حذف کریں
  3. Baji

    Salam alekum

    Ramzan Mubarak Ho

    Aap ke Mazmun "Aurat" ke zere Unwan Sher o Nagma Peshe Qidmat hain.

    امید کہ آپ کو پسند آئیں گے...

    . . . . . . . . سچّے بول . . . . . . . .


    عورت پہ یہ تہزیب کے ڈالے ہوئے گھیرے
    کرگس کے ہیں چُنگل میں ممولوں کے بسیرے


    اب فلم کے نغموں سےابھرتی ہیں شعائیں
    ہوتے تھے کسی وقت نمازوں میں سویرے


    خاتون حرم کے لیئے گھر ہی میں امان ہے!
    جس دیس میں ہرسمت ہوں عصمت کے لٹیرے


    اِن اہل سیاست کےفریبوں میں نہ آنا!!
    سانپوں کو لیئے پھرتے ہیں جیبوں میں سپیرے


    باتوں سے بھی بدلی ہے کسی قوم کی تقدیر!
    جُگنو کی چمک سے کہیں جاتے ہیں اندھیرے


    اربابِ حکومت کے نہ وعدوں پہ لگا آس
    اے دوست! یہ سائے تو نہ میرے ہیں نہ تیرے!


    تہزیب فرنگی کے یہ سفّاک شکنجے
    زلفوں کے بھی سائےنہیں ہوتے گھنیرے!


    اس دَور پُر آشوب میں باطِل کے مقابل!
    کچھ بھی ہو مگر ڈال دیئے ہم نے بھی ڈیرے

    گمنام

    ......


    . . . . . . . . جہیز . . . . . . . .


    غریب باپ کی بیٹی
    دلہن نہیں بن سکتی
    اس کے پاس
    صرف ایک خوبصورت لڈکی یے
    اور دینے کے لیئے
    مال و زر نہیں
    سارا معاشرہ
    پھنسا ہے ایسے دلدل میں
    جس سے نکلنا
    بہت مشکل یے
    تب تک وہ نازک کلی
    نزرِ آتش ہو جائے گی
    اس سزا کا
    حقدار کون یے؟
    جو دلہن بننے سے پہلے
    جوگن بن جاتی ہے
    اس خطرناک بیماری کا
    سزا وار کون ہے؟
    ہم؟ یا آپ؟


    صبا کوثر*

    Bushra khan

    جواب دیںحذف کریں
  4. 18 جون 2015
    کامران شاہد نے کہا
    مجھے بچپن میں ہی عورت سے نفرت و چڑ سی ہوگئی تھی . . . اور اب تک ہے . . . اب جوانی میں عورت کی کشش کے برخلاف نفرت مزید پختہ ہو چکی . . . لیکن اس کے باوجود میں عورت کی عظمت وقوت اور اس کی حیرت انگیز و تعجب خیز صلاحیتوں سے انکار نہیں کرتا . . . اصل میں کر ہی نہیں سکتا . . . نہ ہی میرے انکار کرنے سے حقیقت بدل جاتی ہے . . . لیکن صلاحیتیں بےکار ہیں اگر عورت انہیں کام میں نہ لائے . . . اور انہیں کام میں لانے کےلیے ان کی شناخت ومعرفت و پہچان ازحد ضروری ہے . . . مختصراً جو عورت "خود شناس" ہے وہی عورت قدرت مند،زیبا،باعصمت،اہل شرف وکرامت،باصلاحیت و جرآت مند و اہل ہمت میں سے ہے . . . ان تمام آعلیٰ و ارفع انسانی کمالات وجواہر کا وہی عورت ادرک کر سکتی، پا سکتی اور استعمال میں لا سکتی ہے جو "خود" کو پا لے . . . یعنی خود شناس ہو جائے . .
    مجھے ایسی عورتوں کے بارے میں علم ہے . . . جو خود شناسی میں اس مقام تک پہنچ گئیں اور اپنی صلاحیتیں اس خوبصورت و باقوت انداز میں استعمال میں لا کر ایسے کام سرانجام دئیے . . . کہ ان کاموں کے فلسفے تک کو درک کرنے کیلے ہماری عقل وبصیرت کی حدیں ناکافی پڑھ جاتی ہیں . . .اور وہاں جا کر بڑے سے بڑا فلاسفر و عالم بحرِحیرت و تعجب میں سرتاپا ڈوب جاتا ہےاور سوچتا ہے . . .کہ کاش اگر خدائے عالمین و پروردگارعظیم و کبیر نے اپنے سوا اپنی مخلوق کیلے سجدے کی اجازت دی ہوتی تو یقینن یہ"خود شناس"عورت کو سجدہ فخر و مباہات ہوتا . . .
    یہ ہستی ایسی ہستی ہے...
    کہ اس ہستی سے ہستی ہے...

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ ۔
      آپ نے نہایت بےلاگ انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آپ کی بات سے اتفاق کرتی ہوں۔
      مرد وعورت کی تخصیص سے قطع نظر اصل بات بحیثیت انسان اپنے شرف کی پہچان کی ہے اور جو انسان اس تلاش کی راہ پر پہلا قدم ہی رکھ دے۔ نگاہوں سے پردے ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ اللہ سے دعا یہی کرنا چاہیے کہ ہمیں ان میں شامل نہ کرے جن کے قلوب پر مہریں لگ جاتیں ہیں ۔

      حذف کریں
  5. گھر ہو یا معاشرہ، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے.ایک ہاتھ کی تالی ہمیشہ تال سے محروم ہی رہا کرتی ہے.بہر حال ہمارے معاشرے میں عورت کو خود سے جُڑے رشتوں اور خود اپنی ذات کے بچاؤ کے لیئے بھی وقتاً فوقتاً قربانیاں دینا پڑتی ہیں.اور اگر کوئی عورت خود سے جُڑے رشتوں کی حدود کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے تو اسکا خمیازہ اُسے بھگتنا پڑتا ہے... مرد کا یہ کہ کہا جاتا ہے فطرتاً آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس آزادی کا جس قدر غلط استعمال ہوا ہے آج اسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں...آپ سے مکمل اتفاق ہے کہ عورت کا اصل مقام اسکا گھر ہے.اپنے اصل مقام کی ڈوری سے بندھ کر ہی وہ درست سمت میں سفر کر سکتی ہے...
    آپ کی کہی گئی باتیں سمجھ میں آتی ہیں دل میں گھر کرتی ہیں.بہت سوں کی شاید اصلاح ایسے ہی ممکن یو جائے.خداوند جزائے خیر دے.

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ نے بہت خوبی سے تحریر کے مفہوم کی وضاحت کی۔دوسروں کی اصلاح سے پہلے ہر ایک اپنے آپ کو سمجھے تو ہی بہتری ممکن ہے۔ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ اللہ پاک علم کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
      امید کرتی ہوں وقت نکال کراسی طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہیں گی۔

      حذف کریں
  6. ہم مائیں
    ہم بہنیں
    ہم بیٹیاں
    قوموں کی عزّت ہم سے ہے
    قوموں کی عزّت ہم سےہے
    ہم معنیء مہر و وفا ۔۔ ہم کشمکش ہم ارتقاء
    تاریخ نے خود لکھ دیا ۔۔ انسان عبارت ہم سے ہے
    ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں
    قوموں کی عزّت ہم سے ہے
    زنجیرِ استحصال نے ۔۔ روکے ہوئے تھے راستے
    اب چل پڑے ہیں قافلے ۔۔ جن میں حرارت ہم سے ہے
    ہم مائیں، ہم بہنِیں، ہم بیٹیاں
    قوموں کی عزّت ہم سے ہے
    اے دور نو تیری قسم ۔۔ آگے ہی جائیں گے قدم
    ہم تیری صف، تیرا علم ۔۔ تیری حقیقت ہم سے ہے
    ہم مائیں، ہم بہنِیں، ہم بیٹیاں
    قوموں کی عزّت ہم سے ہے
    از: جمیل الدّین عالیؔ ۔۔ تحریر شدہ دسمبر 1976

    جواب دیںحذف کریں
  7. آغا اشرف اپنی کتاب ”مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح“ مطبوعہ بار اوّل 2000 کے صفحہ نمبر 184 پر لکھتے ہیں: ‘محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی میں یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ مرنے کے بعد انہیں قائد اعظم کے پاس دفن کیا جائے۔ اب محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد یہ مسئلہ پیش آیا کہ انہیں کس جگہ دفن کیا جائے۔ بقول مرزا ابو الحسن اصفہانی صاحب اس وقت کی حکومت محترمہ کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنانا چاہتی تھی (ایم اے ایچ اصفہانی انٹرویو 14 جنوری 1976 کراچی) جس کی مخالفت کی گئی اور کمشنر کراچی کو متنبہ کیا گیا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح ؒکو قائد اعظم کے مزار کے قریب دفن نہ کیا گیا تو بلوہ ہو جائے گا۔ ‘یہ فیصلہ تو ہو گیا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو بلوے کے خدشے کے پیشِ نظر مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا جائے، انہیں قائد اعظم کے مقبرے کے قریب دفن کرنے کے لیے کمشنر کراچی نے ان کے خاندان کے افراد اور بانی پاکستان کے پرانے ساتھیوں سے مشورہ کیا، اور پھر حکومت سے رابطہ قائم کیا۔حکومت نے رات دیر گئے مادرِ ملت کو قائد اعظم کے پاس دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمشنر کراچی نے اس فیصلے سے ایم اے ایچ اصفہانی کو آگاہ کر دیا۔ ‘مادر ملت کی قبر قائد اعظم کے مزار سے ایک سو بیس فُٹ دور بائیں جانب کھودی گئی۔ قبر ساڑھے چھ فٹ لمبی اور تین فٹ چوڑی تھی۔زمین پتھریلی تھی اس لیے گورکنوں کو قبر کھودنے میں پورے 12 گھنٹے لگے، جبکہ بعض اوقات انہیں بجلی سے چلنے والے اوزاروں سے زمین کھودنی پڑتی۔‘بیس گورکنوں کی قیادت ساٹھ سالہ عبدالغنی کر رہا تھا، جس نے قائد اعظم، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کی قبریں تیار کی تھی۔میت کو کندھوں پر اٹھایا گیا تو ہجوم نے مادرِ ملت زندہ باد کے نعروں کے ساتھ آگے بڑھنا شروع کر دیا۔‘جنازے کے پیچھے مرکزی حکومت اور صدر ایوب کے نمائندے شمس الضحیٰ وزیر زراعت خوراک، بحریہ کے کمانڈر انچیف ایڈمرل ایم احسن، دونوں صوبوں کے گورنروں کے ملٹری سیکریٹری، کراچی کے کمشنر، ڈی آئی جی کراچی، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما سر جھکائے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔محترمہ فاطمہ جناح کی میت ایک کھلی مائیکرو وین میں رکھی گئی تھی۔ اس کے چاروں طرف مسلم لیگ کے نیشنل گارڈز کے چار سالار کھڑے تھے۔ ایک عالم دین بھی موجود تھے۔ جو سورہ یاسین کی تلاوت کر رہے تھے۔ غم و اندوہ میں ڈوبا ہوا یہ جلوس جب ایک فرلانگ بڑھ گیا تو مسلم لیگ نیشنل گارڈز نے ایک قومی پرچم لا کر مرحومہ کے جسد خاکی پر ڈال دیا۔ ‘لوگوں نے جب مادر ملت کو ستارہ ہلال کے سبز پرچم میں لپٹے ہوئے دیکھا تو پاکستان زندہ باد، مادر ملت زندہ باد کے نعروں سے خراج عقیدت پیش کیا۔جلوس جوں جوں آگے بڑھتا رہا، لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ راستے میں چھتوں سے عورتیں مادر ملت کے جنازے پر پھول کی پتیاں نچھاور کر رہی تھیں۔ جلوس دس بجے پولو گراؤنڈ پہنچ گیا جہاں میونسپل کارپوریشن نے نماز جنازہ کا انتظام کیا تھا۔وہاں جنازہ پہنچنے سے پہلے ہزاروں لوگ جمع ہو گئے تھے۔نماز جنازہ کے بعد میت کو دوبارہ گاڑی میں رکھ دیا گیا۔ اب ہجوم لاکھوں تک پہنچ چکا تھا۔‘قائد اعظم کے مزار کے قریب محترمہ کا جنازہ میوزیکل فونٹین اور ایلفنسٹن اسٹریٹ (زیب النساء اسٹریٹ) سے ہوتا ہوا جب آگے بڑھا تو ہجوم کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ گئی اور پولیس کو جنازے کے لیے راستہ بنانا مشکل ہوگیا۔‘عورتوں، بچوںاور مردوں کا ایک سیلاب تھا جو قائد اعظم کے مزار کی جانب بڑھ رہا تھا۔ راستے میں میت پر پھول کی پتیاں نچھاور کی جاتی رہیں۔ لوگ کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت اور آیات قرآنی کی تلاوت کر رہے تھے۔جنازے کا جلوس جب مزارِ قائد کے احاطے میں داخل ہوا تو سب سے پہلے وزیرِ خارجہ شریف الدین پیرزادہ نے اسے کندھا دیا۔‘اس وقت دوپہر کے بارہ بجے تھےاور لوگوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی کیونکہ مادر ملت کی موت پر تمام دکانیں، تعلیمی ادارے، سرکاری دفاتر، سنیما گھر وغیرہ بند تھے اور حکومت کی طرف سے عام تعطیل ہونے کے باعث اہل کراچی نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے لیے ان کے جنازے کے جلوس میں شرکت کی تھی۔محترمہ فاطمہ جناح کی نماز جنازہ میں پانچ لاکھ افراد کااجتماع زبردست خراج تحسین ہے۔بارہ بج کر پینتس منٹ پر کے ایچ خورشید اور ایم اے ایچ اصفہانی نے لرزتے ہاتھوں، کپکپاتے ہونٹوں اور بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ خاتونِ پاکستان کے جسد خاکی کو قبر میں اتارا۔ جونہی میت کو لحد میں اتارا گیا، ہجوم دھاڑیں مار مار کر رونے لگا،قبر کو آہستہ آہستہ بند کیے جانے لگا اور 12 بج کر 55 منٹ پر قبر ہموار کر دی گئی۔
    http://javedch.com/special-features/2017/05/13/272326

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...