ہماری خواہشیں گلی میں پھرنے والے کتوں کی طرح ہیں کہ جن سے ڈر کر بھاگو تو پیچھے پڑ جاتے ہیں۔۔۔بھونک بھونک کے ساری دُنیا کو مڑ مڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔۔ہمارا تماشا بنواتے ہیں۔۔۔ کوئی ہنستا ہے تو کوئی تمسخر اُڑاتا ہے۔ اِن کے پاس سے جی کڑا کر چُُپ چاپ گزر جاؤ تو کچھ بھی نہیں کہتے۔
کتا ہمیشہ کتا ہی رہتا ہے چاہے وہ گلی کا آوارہ کتا ہو یا گھر میں بڑی چاہ سے رکھا گیا پالتو کتا۔اُس کی خصلت کبھی نہیں بدلتی۔ فرق صرف حسب نسب کا ہے۔۔۔اُس سے لگاؤ کا ہے۔ کبھی گلی میں پھرنے والا کتا بھی آڑے وقت پر کام آ سکتا ہےاگرچہ رہتا وہ "دھوبی کا کتا ہی ہے جو گھر کا ہوتا ہے نہ گھاٹ کا"۔
کہا گیا کہ " دل کو خواہش میں نہ مرنے دو بلکہ خواہش کو دل میں دفن کر دو"۔ لیکن اگر خواہش کو کتے کے مماثل جانا جائے تو کتا کتنا ہی اعلیٰ نسل کا ہو۔۔۔ کتنا ہی پیارا ہو۔۔۔مالک کا وفادارہو اوراُس کی خاطر جان کی بازی لگا کر امر ہی کیوں نہ ہو جائے۔اُس کی لاش کے پاس بیٹھ کر آنسو تو بہائے جا سکتے ہیں۔۔۔اُس کا سوگ تو منایا جا سکتا ہے۔۔۔ایک دلگداز یاد کی صورت اُسے اپنے گھر کے باغیچے میں دفن تو کیا جا سکتا ہے لیکن کبھی بھی اُس کی قبر گھر کے اندر نہیں بنائی جاتی۔
گھر وہ پاکیزہ جگہ ہے جہاں دُنیا کی اونچی نیچی غلاظت بھری شاہراہ پر ساتھ دینے والے جوتوں کے داخلے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور انسان کا دل بھی ایسی ہی اِک جگہ ہے جہاں اُن محبتوں اورخواہشات کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں۔۔۔ جو ہمارے لیے بڑی کیف آور اور زندگی بخش ہوتی ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے گھر میں چاہے جتنے بھی پسندیدہ مہمان آجائیں۔۔۔مہینوں بلکہ سالوں بھی رہ جائیں۔۔۔خوب ہلہ گلہ کریں۔لیکن اُن کو جانا ہی پڑتا ہے۔آخر میں گھر اور اُس کے مکین ہی رہ جاتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا"۔"
۔۔۔۔
رنگ نسل اور حسب نسب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو کتے بہت ہی کتے ہوتے ہیں ۔قصور اُن کا نہیں ۔۔۔ مسئلہ انسان کا ہے۔انسان بھی عجیب ہے ۔۔۔ کتوں سے پیار کی خاطر انسانوں کی پروا نہیں کرتا۔۔۔انسان کو کتوں سے کم تر سمجھتا ہےلیکن خود اسے کتا کہہ دیا جائے تو مرنے مارنے پر تُل جاتا ہے۔
۔"کتے" کا لفظ ۔۔۔ اس کا نام ذہن میں آتے ہی بھوک اور بھونکنے کا تصور آتا ہے جو انسان اور اس کے رویوں کا استعارہ بھی ہے۔انسان کی پیٹ گھڑی اسے بھوک سے بےحال کرتی ہے تو وہ کتوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔اور بھرے پیٹ کے لوگوں کے لیے کتے پالنا۔۔۔ اُن کی سیوا کرنا۔۔۔ اپنے ہاتھ سے کھلا کر۔۔۔ ان کی بھوک مٹانا اُن کی اپنی دُنیا کا سب سے بڑا لذت بخش مشغلہ ہےچاہےاس شغل سے دوسروں کو کتنی ہی اذیت کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔"اذیت"۔۔۔انسان کی بھوک نظرانداز کر کے حیوان کو فوقیت دینے کی نہیں ۔ اذیت کا سبب کتوں کا وہ کتا پنا ہے جو وہ بھوک مٹا کر بھی نہیں چھوڑتے یا شاید انسان ان کی اصل بھوک سے لاعلم رہتا ہے۔
جسم اور جنس کے درمیان سر اٹھاتی بھوک چاہے کتوں کی ہو یا انسان کی بہت بےمہرہوتی ہے اپنے نفع نقصان کی غرض سے آزاد۔ انتہائی قابلِ نفرین اور قابلِ رحم بھی۔یہی بھوک انسان کو کتوں کے مقابل لا کھڑا کرتی ہے تو کبھی اپنے شرف کی پہچان بھی بھلا دیتی ہے۔
ابراہام لنکن کا کہنا تھا "تمہاری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے"۔
کتوں کا بھونکنا اُن کا وہ "کتا پن" ہے جو اُن کے چہیتے کے لیے اگر محض ادا ہے تو سزا ہے ان کے لیے جن کا ان کتوں سےبراہ راست تعلق نہیں ہوتا پھر بھی انہیں ان کتوں کو نہ چاہتے ہوئے بھگتنا پڑتا ہے۔پڑوسیوں کے لیے ایک ایسا عذاب جو راتوں کی نیندیں اُڑا کر رکھ دیتا ہے۔بےحسی کا یہ عذاب بھی ہم جیسےملک میں ہی سر اٹھاتا ہے باہر کے ممالک میں بھی کتے بہت ہی کتے تو ہوتے ہیں لیکں وہاں انسان ان کتوں کی نفسیات سمجھ کر اس کا حل تلاش کرتے ہیں۔ایسی دوائیں دیتے ہیں کہ کتے بلاوجہ اپنا کتا پن نہ دکھائیں۔ وہ اپنے پالتو کی ہرضرورت کا خیال رکھتے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کبھی ان جانے میں ان کے کتے کی وجہ سے کسی کو ذہنی اذیت ہو تو نہ صرف سزا کے لیے تیار ہو جاتے ہیں بلکہ آئندہ محتاط بھی رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو زیارتی چاہے کسی بھی سطح پر ہو شکایت کرنے والا اپنوں کی حمایت کھو بیٹھتا ہے۔اصل میں ہمارے ہاں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا رواج نہیں۔ ہم تو بڑی بڑی زیارتیوں پر خود ساختہ "صبر" کی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کہ کیچڑ کی شکایت کرنے سے بلاوجہ چھینٹے ہی اُڑیں گے۔ بڑے گھروں میں رہنے والے تو ویسے ہی بہت تمیزدار ہوتے ہیں ۔ اُن کے نزدیک لڑائی جھگڑے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا ایشو بنانا انتہائی بےوقوفی اور وقت کا زیاں ہے۔
آخری بات
کتے کتے ہی رہتے ہیں اور ہمیشہ کتے ہی رہیں گے کہ یہ ان کی جبلت اور فطرت ہے تو ان کی حیوانیت کی دلیل بھی ہے۔ جس پر یقین رکھنا ہماری عقل کی سلامتی کا امتحان ہے لیکن انسان جو اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتا ہے اس کے رویوں کا کتا پن برداشت کرنا ہی اصل آزمائش ہے۔
کتا ہمیشہ کتا ہی رہتا ہے چاہے وہ گلی کا آوارہ کتا ہو یا گھر میں بڑی چاہ سے رکھا گیا پالتو کتا۔اُس کی خصلت کبھی نہیں بدلتی۔ فرق صرف حسب نسب کا ہے۔۔۔اُس سے لگاؤ کا ہے۔ کبھی گلی میں پھرنے والا کتا بھی آڑے وقت پر کام آ سکتا ہےاگرچہ رہتا وہ "دھوبی کا کتا ہی ہے جو گھر کا ہوتا ہے نہ گھاٹ کا"۔
کہا گیا کہ " دل کو خواہش میں نہ مرنے دو بلکہ خواہش کو دل میں دفن کر دو"۔ لیکن اگر خواہش کو کتے کے مماثل جانا جائے تو کتا کتنا ہی اعلیٰ نسل کا ہو۔۔۔ کتنا ہی پیارا ہو۔۔۔مالک کا وفادارہو اوراُس کی خاطر جان کی بازی لگا کر امر ہی کیوں نہ ہو جائے۔اُس کی لاش کے پاس بیٹھ کر آنسو تو بہائے جا سکتے ہیں۔۔۔اُس کا سوگ تو منایا جا سکتا ہے۔۔۔ایک دلگداز یاد کی صورت اُسے اپنے گھر کے باغیچے میں دفن تو کیا جا سکتا ہے لیکن کبھی بھی اُس کی قبر گھر کے اندر نہیں بنائی جاتی۔
گھر وہ پاکیزہ جگہ ہے جہاں دُنیا کی اونچی نیچی غلاظت بھری شاہراہ پر ساتھ دینے والے جوتوں کے داخلے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور انسان کا دل بھی ایسی ہی اِک جگہ ہے جہاں اُن محبتوں اورخواہشات کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں۔۔۔ جو ہمارے لیے بڑی کیف آور اور زندگی بخش ہوتی ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے گھر میں چاہے جتنے بھی پسندیدہ مہمان آجائیں۔۔۔مہینوں بلکہ سالوں بھی رہ جائیں۔۔۔خوب ہلہ گلہ کریں۔لیکن اُن کو جانا ہی پڑتا ہے۔آخر میں گھر اور اُس کے مکین ہی رہ جاتے ہیں۔
رہے نام اللہ کا"۔"
۔۔۔۔
رنگ نسل اور حسب نسب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو کتے بہت ہی کتے ہوتے ہیں ۔قصور اُن کا نہیں ۔۔۔ مسئلہ انسان کا ہے۔انسان بھی عجیب ہے ۔۔۔ کتوں سے پیار کی خاطر انسانوں کی پروا نہیں کرتا۔۔۔انسان کو کتوں سے کم تر سمجھتا ہےلیکن خود اسے کتا کہہ دیا جائے تو مرنے مارنے پر تُل جاتا ہے۔
۔"کتے" کا لفظ ۔۔۔ اس کا نام ذہن میں آتے ہی بھوک اور بھونکنے کا تصور آتا ہے جو انسان اور اس کے رویوں کا استعارہ بھی ہے۔انسان کی پیٹ گھڑی اسے بھوک سے بےحال کرتی ہے تو وہ کتوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔اور بھرے پیٹ کے لوگوں کے لیے کتے پالنا۔۔۔ اُن کی سیوا کرنا۔۔۔ اپنے ہاتھ سے کھلا کر۔۔۔ ان کی بھوک مٹانا اُن کی اپنی دُنیا کا سب سے بڑا لذت بخش مشغلہ ہےچاہےاس شغل سے دوسروں کو کتنی ہی اذیت کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔"اذیت"۔۔۔انسان کی بھوک نظرانداز کر کے حیوان کو فوقیت دینے کی نہیں ۔ اذیت کا سبب کتوں کا وہ کتا پنا ہے جو وہ بھوک مٹا کر بھی نہیں چھوڑتے یا شاید انسان ان کی اصل بھوک سے لاعلم رہتا ہے۔
جسم اور جنس کے درمیان سر اٹھاتی بھوک چاہے کتوں کی ہو یا انسان کی بہت بےمہرہوتی ہے اپنے نفع نقصان کی غرض سے آزاد۔ انتہائی قابلِ نفرین اور قابلِ رحم بھی۔یہی بھوک انسان کو کتوں کے مقابل لا کھڑا کرتی ہے تو کبھی اپنے شرف کی پہچان بھی بھلا دیتی ہے۔
ابراہام لنکن کا کہنا تھا "تمہاری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے"۔
کتوں کا بھونکنا اُن کا وہ "کتا پن" ہے جو اُن کے چہیتے کے لیے اگر محض ادا ہے تو سزا ہے ان کے لیے جن کا ان کتوں سےبراہ راست تعلق نہیں ہوتا پھر بھی انہیں ان کتوں کو نہ چاہتے ہوئے بھگتنا پڑتا ہے۔پڑوسیوں کے لیے ایک ایسا عذاب جو راتوں کی نیندیں اُڑا کر رکھ دیتا ہے۔بےحسی کا یہ عذاب بھی ہم جیسےملک میں ہی سر اٹھاتا ہے باہر کے ممالک میں بھی کتے بہت ہی کتے تو ہوتے ہیں لیکں وہاں انسان ان کتوں کی نفسیات سمجھ کر اس کا حل تلاش کرتے ہیں۔ایسی دوائیں دیتے ہیں کہ کتے بلاوجہ اپنا کتا پن نہ دکھائیں۔ وہ اپنے پالتو کی ہرضرورت کا خیال رکھتے ہیں اس کے باوجود بھی اگر کبھی ان جانے میں ان کے کتے کی وجہ سے کسی کو ذہنی اذیت ہو تو نہ صرف سزا کے لیے تیار ہو جاتے ہیں بلکہ آئندہ محتاط بھی رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو زیارتی چاہے کسی بھی سطح پر ہو شکایت کرنے والا اپنوں کی حمایت کھو بیٹھتا ہے۔اصل میں ہمارے ہاں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا رواج نہیں۔ ہم تو بڑی بڑی زیارتیوں پر خود ساختہ "صبر" کی خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کہ کیچڑ کی شکایت کرنے سے بلاوجہ چھینٹے ہی اُڑیں گے۔ بڑے گھروں میں رہنے والے تو ویسے ہی بہت تمیزدار ہوتے ہیں ۔ اُن کے نزدیک لڑائی جھگڑے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا ایشو بنانا انتہائی بےوقوفی اور وقت کا زیاں ہے۔
آخری بات
کتے کتے ہی رہتے ہیں اور ہمیشہ کتے ہی رہیں گے کہ یہ ان کی جبلت اور فطرت ہے تو ان کی حیوانیت کی دلیل بھی ہے۔ جس پر یقین رکھنا ہماری عقل کی سلامتی کا امتحان ہے لیکن انسان جو اشرف المخلوقات کا درجہ رکھتا ہے اس کے رویوں کا کتا پن برداشت کرنا ہی اصل آزمائش ہے۔
بہت خوب۔۔ فیض کی کی نظم یاد دلادی۔ اور کہیں پڑھی ہوئی بات بھی کہ۔۔۔ اگر آپ راستے میں آنے والے ہر کتے کو پتھر ماریں گے تو آپ کبھی منزل پر نہیں پنہنچ سکتے۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںخواہشات ایک کانٹے دار درخت کی مانند ہوتی ہیں گزرنے والوں کو یہ درخت تکلیف پہنچا تاہے۔ یہ درخت کاٹ ڈالنے کے مشورے پر آئندہ برس اسے کاٹ دینے کا کہ دیا جائے۔جب اگلابرس آئے تو درخت کی کٹائی کو مزید آئندہ برس کے لئے موخر کر دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ سالہا سال تک یوں ہی جاری رہتا ہے۔ نتیجے کے طور پر حال یہ ہو جاتا ہےکہ ایک طرف تووہ درخت ہر سال مزید بڑھ جاتا اور اسکی جڑیں اورگہری ہو جاتیں اوردوسری طرف اسے لگانے والا شخص ہر سال مزید ضعیف ہو جاتا۔ یعنی درخت کی بڑھوتری اور مضبوطی اور اس شخص کی قوت کے درمیان ایک معکوس اور ایک دوسرے سے برعکس نسبت برقرار ہو جاتی ہے
جواب دیںحذف کریںانسان کے حالات بھی اس خاردار درخت اور اسے بونے والے اس شخص کی مانند ہیں
لیکن اچھی خواہشات اور بلند ارادوں کی وجہ سے ہی انسان عظیم کام سر انجام دیتے ہیں۔ لہٰذا گمراہ کُن خواہشات اور نیک ارادوں میں فرق کی پہچان بھی بہت ضروری ہے۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب جی۔۔مختصر اور جامع تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںگمنام جمعرات, اپریل 09, 2015
جواب دیںحذف کریںآپ کی تحریر پڑھ کر تو کچھ ایسا محسوس ھو رھا ھے جیسے کتا کسی ذی روح کا نھی بلکە ایک کیفیت کا نام ھے اور یە کیفیت جب کسی پر طاری ھو جائے تو وە اپنی ذات میں ایک چھوٹا موٹا کتورا ھو جاتا ھے اس کے بعد اس کے مالک اسے کس مقصد اور کس کام کے لئیے پالتے ھیں میرے خیال میں اس سے پھر انکا کتا پن جھانکتا ھے ویسے کچھ کتے صرف تھڑوں تک محدود ھوتے ھیں گوشت سے رغبت تو رکھتے ھیں لیکن ان کے حصے میں چھیچھڑوں کے سوا کچھ نھی آتا کچھ گدی نشیں قسم کے اور کچھ اعلی ایوانوں میں زرق برق کتوں کے بارے میں ضرور لکھیں آپ لکھ سکتی ھیں.
http://daleel.pk/2016/10/18/10254
جواب دیںحذف کریں