جمعہ, جون 20, 2014

"تکمیل"

ہر انسان تکمیل کا خواہش مند ہے۔زندگی کے تلخ حقائق مانتے ہوئے۔۔۔ سمجھتے ہوئے بھی اپنے جذبوں اپنے احساسات میں ادھورے پن کا شکار ہے۔۔۔ہر پل ایک کھوج کی سی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ کہیں علم کی تشنگی ہے تو کہیں جسم کی تو کہیں روح کی۔ یہ خلش اُسے در در بھٹکاتی ہے تو نئی سے نئی راہیں بھی کھولتی ہے۔ کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کی کشش میں وہ خلا کو مسخر کرتا ہے تو زمین کی گہرائیوں میں بھی اپنے شرف کی پہچان تلاش کرتا ہے۔
تکمیل صرف دینے سے ممکن ہے محض لینے سے کبھی بھی نہیں۔اکثر یوں بھی ہوتا ہے بلکہ اکثر یوں ہی ہوتا ہے کہ جتنا پاتے جاؤ تشنگی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پانے کی چاہ اگر دینے کی خواہش پر غالب آ جائے تو انسان ریشم کے کیڑے کی مانند اپنے گرد خول درخول میں محصور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُس کا فیض تو جاری وساری رہتا ہے لیکن ریشمی جذبے اُس کے وجود کو ریشم نہیں بنا سکتے۔ وہ تنہائی اور نارسائی کے منبر پر بیٹھ کر مٹی کی سوندھی خوشبو سے دور ہوتا چلاجاتا ہے۔
جو دیتے ہوئے مول تول سے کام لیں وہ پاتے ہوئے بھی شکوک وشبھات میں گھرے رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پانے سے جسم وروح کو تسکین ملتی ہے۔ دینے سے جسم اگرچہ تھوڑا سا ناخوش ہوتا ہے جھگڑتا بھی ہے لیکن روح کی مکمل سیرابی صرف اور صرف دینے سے ہی ممکن ہے۔

1 تبصرہ:

  1. جتنی تو ملتی جاءے اتنی لگے تھوڑی ۔ ۔ ۔ بس وہی بات ہے
    کمال تو صرف اللہ کی ذات کو حاصل ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...