ہفتہ, جنوری 07, 2017

"چھوٹی سی بات"

جنوری 2017 کی تصویر۔بمقام۔ماڈل ٹاؤن لاہور
۔ 1988 میں  پاکستان ٹیلی ویژن  کےروزانہ نشر ہونے والے پروگرام "صبح کی نشریات" کے آخر میں کہی جانے والی
جناب مستنصرحسین تارڑ کی  چھوٹی سی بات۔۔۔
٭’’جھوٹ کو گھر سے نکلنے کا موقع نہ دیجیے کیونکہ سچ ابھی گھر سے نہیں نکلتا اور جھوٹ پوری دنیا میں چکر لگا کر آ جاتا ہے‘‘۔
٭چھوٹی سی بات میں چاہے کتنی بڑی بات کہہ دی جائے، وہ پھر بھی چھوٹی سی بات ہی رہتی ہے۔
٭گہرے سمندر اور گہرے انسان کا چہرہ سطح پر ہمیشہ پرسکون ہوتے ہیں۔
٭بادل برسے نہ برسے،اسے دیکھ کر ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔۔۔اولاد خدمت کرے نہ کرے اسے دیکھ کر بھی دل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔
٭’ہمارے چہرے نقاب ہیں، ہم اُن کے پیچھے اپنے دُکھ درد روپوش کرتے ہیں۔
٭بیوقوف بھی آپ کے استاد ہو سکتے ہیں، جو وہ کرتے ہیں آپ نہ کیجیے۔
 ٭جیسے بارش گردآلود پتے کو ہرا بھرا کر دیتی ہے ایسے آنسو دل پر جمے غم کے غبار کو دھو ڈالتے ہیں۔
٭آج عمل کا بیج بو دیجیے، کل ارادے کا بوٹا نکلے گا، پرسوں خواہش کا پھل آجائے گاَ۔
٭جب کوئی ادیب آپ سے کہے کہ بےشک مجھ پر کڑی تنقید کرو،مطلب یہ ہوتا ہے خدا کے واسطے میری تعریف کرو۔
٭انسان کو پہچاننے کے لئے آنکھیں درکار ہیں، انسان کے اندر کے انسان کو پہچاننے کے لئے تجربہ درکار ہے۔
٭درخت پر بیٹھے پرندے کو آپ حکم دے کر اپنے پاس نہیں بلا سکتے ۔
 ٭جو شخص اپنے بیٹے سے غافل ہے وہ اپنے گھر میں مستقبل کے ایک ممکنہ مجرم کو پال رہا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے لیکن اپنی سائیکل یا موٹر سائیکل کو تالا لگانا نہ بھولئے۔( ظاہر ہے یہ چھوٹی سی بات میں نے رسولؐ اللہ کی اس حدیث سے مستعار لی تھی جس میں ایک بدّو نے حضورؐ سے شکایت کی کہ میں نے اپنا اونٹ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر چھوڑا اور وہ چوری ہو گیا تو آنحضرتؐ نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ضرور کرو لیکن اس کے ساتھ اونٹ کو کھونٹے سے بھی باندھ لیا کرو)۔
٭دو بےوقوف مل کر ایک عقل مند تو نہیں ہو سکتے البتہ میاں بیوی ضرور ہو سکتے ہیں۔
 ٭ایک بیزار شکل کے انسان کو دیکھنے سے بہتر ہے کہ آپ ایک خوش شکل مسکراتا ہوا اودبلاؤ دیکھ لیں۔
٭ایک نکما شخص دیوار پر آویزاں ایک وال کلاک ہے جس کی دونوں سوئیاں تھم چکی ہیں۔
٭اندھیرا نام کی کوئی شے نہیں ہوتی ، صرف ظاہری آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔
٭اگر محبت اندھی ہوتی ہے تو شادی نظرٹیسٹ کروانے کا آسان طریقہ ہے۔
٭ کسی کو جان لینا کسی کی جان لینے سے بہتر ہے۔
٭ایک بڑی مسکراہٹ ایک بڑے غم کو چھپانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
 ٭جیسے دولت سے عینک تو خریدی جا سکتی ہے نظر نہیں، ایسے ہی دولت سے رفاقت تو حاصل کی جا سکتی ہے دوستی نہیں۔
٭ محبت کی کشتی میں پہلا سوراخ شک کا ہوتا ہے۔
٭ایک لباس ایسا ہے جو دنیا کے ہر خطے کے انسان پر سج جاتا ہے اور وہ ہے مسکراہٹ۔
٭تیز زبان والا شخص اپنا گلا خود کاٹتا ہے۔
 ٭زندگی کی شاہراہ یک طرفہ ہے۔۔۔ آپ جا سکتے ہیں واپس نہیں آ سکتے۔
 ٭سب لوگ عظیم نہیں بن سکتے لیکن عظیم بننے کے لئے جدوجہد تو کرسکتے ہیں۔
٭دانش اور دولت کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے لوگ خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
٭غم کے سیاہ بادلوں کے کناروں پر امید کی ایک رُوپہلی شعاع ہمیشہ دمکتی ہے۔
٭ زندگی ایک آئینہ ہے، آپ اسے بیزار ہو کر دیکھ لیں گے تو بیزار ہو جائیں گے،مسکراتے ہوئے دیکھیں گے تو مسکراتے چلے جائیں گے۔
٭ اگر تم پر دنیا ہنستی ہے تو تم دنیا پر ہنسو کہ اس کی شکل بھی تم جیسی ہی ہے۔
٭پیاس کے صحرا میں آج کنواں کھودو کل یہ گُل و گلزار ہو جائے گا۔
٭ جس شخص کا خیال ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے، وہ کچھ نہیں جانتا۔(افلاطون کا قول ہے کہ میں نے صرف یہ جانا کہ میں کچھ نہیں جانتا)۔
٭جیسے سفر کا پہلا قدم نصف سفر طے کر جانا ہوتا ہے، ایسے عمارت کی پہلی اینٹ نصف عمارت کی تعمیر کو مکمل کر دیتی ہے۔
٭ دوست آپ کی برائیوں کے باوجود آپ سے محبت کرتا ہے اور دشمن آپ کی خوبیوں کے باوجود آپ سے نفرت کرتا ہے۔
٭اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنے والے شاعر دراصل بِھک منگے ہوتے ہیں۔
٭ جو گیت ماں کے دل میں گونجتا ہے وہ اس کے بچے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی صورت نغمہ سرا ہوتا ہے۔
 ٭ستارے اور دوست ایک جیسے ہوتے ہیں، چاہے کتنے ہی طویل فاصلوں پر ہوں ان کی روشنی آپ تک پہنچتی رہتی ہے۔
٭جو لوگ ہواؤں سے گھر بناتے ہیں اُن کے دروازوں پر صرف ہوائیں دستک دیتی ہیں۔
٭نصیحت کرنے سے ، نصیحت قبول کرنا زیادہ افضل ہے۔
٭آزادی کا حصول آسان ہوتا ہے، آزادی کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا۔
٭ دنیا کے تمام بڑے دریا پانی کی ایک بوند سے جنم لیتے ہیں۔
٭رَب کے سامنے جھکنے والا سَر۔۔۔ سب سے سَربلند ہوتا ہے۔
٭ناقابل اعتماد دوستوں کی نسبت تنہائی سے دوستی کرنا بہتر ہے۔
 ٭ ہر شخص اتنا عقل مند نہیں ہوتا جتنا کہ اُس کی ماں سمجھتی ہے اور ہر شخص اتنا بےوقوف نہیں ہوتا جتنا کہ اس کی بیوی سمجھتی ہے۔
٭تعلیم دراصل آہستہ آہستہ اپنی جہالت کو جان لینے کا نام ہے۔
 ٭ ندی کے پانی اور آنکھ کے پانی میں صرف جذبات کا فرق ہے( یہ چھوٹی سی بات بہت ہی پسندیدہ ٹھہری)۔
٭ جیسے وسیع آنگن میں دُھوپ زیادہ اترتی ہے، ایسے فراخ دلوں میں مسرّت زیادہ اترتی ہے۔
 ٭ ایک سیانی بیوی اپنے خاوند کے سنائے ہوئے لطیفوں پر اس لئے نہیں ہنستی کہ وہ اچھے ہوتے ہیں بلکہ اس لئے ہنستی ہے کہ وہ ایک اچھی بیوی ہوتی ہے۔
٭حیات کی ندی کے پانی وقت ہیں، اُن میں عکس ہوتے ہمارے مہرے بالاآخر فنا کے تاریک سمندروں میں ڈوب جاتے ہیں۔
 ٭ شیر کو اپنی کھال اور انسان کو اپنے نام کی حفاظت کرنی چاہیے۔ شیر کی کھال میں سوراخ نہ ہو اور انسان کے نام پر دھبہ نہ لگے۔
 ٭ ماں جس شخص کو بیس برس میں عقل مند بناتی ہے ، بیوی اسی شخص کو بیس سیکنڈ میں بےوقوف بنا دیتی ہے۔
٭ زندگی کی تصویر ہمیشہ بلیک اینڈ وائٹ ہوتی ہے۔ اس میں رنگ آپ بھرتے ہیں، یا نہیں بھرتے۔
 ٭ خاموشی ایک ایسا بند دروازہ ہے جس کے پیچھے لیاقت بھی ہو سکتی ہے اور اکثر حماقت بھی ہوتی ہے۔
٭رُوٹھنا چاہیے ، پر اتنا بھی نہیں کہ منانے والا مناتے مناتے رُوٹھ جائے۔
٭ ’’کسی کے آگے مجبور ہو کر جھکنا ذلت ہے۔۔۔ اور کسی مجبور کو اپنے آگے جھکانا اس سے زیادہ ذلت ہے‘‘۔
 ٭’’انسان کی اصلیت تب کھل کر سامنے آتی ہے جب وہ کسی کے بس میں ہو اور جب کوئی اور اس کے بس میں ہو ‘‘۔
٭’’زندگی کے اخبار میں سب سے خوبصورت صفحہ، بچوں کا صفحہ ہوتا ہے‘‘ ۔
٭’’شرافت سے جھکا ہوا سر، ندامت سے جھکے ہوئے سر سے بہتر ہے‘‘۔
٭’’زندگی کی کار میں فالتو ٹائر نہیں ہوتا، ایک ٹائر پنکچر ہو گیا تو سفر تمام ہو گیا‘‘۔
٭’بچہ ایک ایسا پھل ہے، جتنا کچا ہو گا ، اتنا ہی میٹھا ہو گا‘‘۔
 (موہن سنگھ کے ’’ساوے پتر‘‘ سے ’’اِک پھل ایسا ڈِٹھا، جناں کچا، اوناں مٹھا‘‘ سے مستعار شدہ)
٭’’بیوقوف ہونے میں موجیں ہی موجیں ہیں، آپ کسی بھی محفل میں تنہا نہیں ہوتے‘‘۔
٭ ’’کسی خوبصورت جھیل کے کناروں پر کڑاہی گوشت کھانے میں مشغول لوگ اس کی آبروریزی کے مرتکب ہوتے ہیں‘‘۔
٭’’سب کچھ کھونے کے بعد اگر حوصلہ باقی ہے تو آپ نے کچھ نہیں کھویا‘‘۔
٭ ’’اگر ماں کے علاوہ آپ سے کوئی کہے کہ آپ میرے چاند ہیں تو یقین کیجیے اُس نے چاند کبھی نہیں دیکھا ورنہ۔۔۔‘‘
٭’’ریت کا ایک ذرہ صحرا نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن وہ ایک ذرہ نہ ہو تو صحرا نہیں ہوتا‘‘۔
 ٭"دیوار میں چنی ہوئی ہر اینٹ ایک عظیم الشان عمارت ہے،وہ ایک اینٹ اکھڑ جائے تو وہ عمارت نہیں کھنڈر ہو جاتی ہے‘‘۔
 ٭’’جس روز آپ کا بچہ پہلی بار ’’ماما یا بابا‘‘ کہتا ہے اس روز آپ کے دل میں ایک نئی کہکشاں جنم لیتی ہے‘‘۔
٭ ’’جس روز آپ کے بچے کا بچہ پہلی بار آپ کو ’’دادا، دادی‘‘ یا ’’نانا، نانی‘‘ کہتا ہے تو نئی کائناتیں چھم چھم کرنے لگتی ہیں‘‘۔
٭’’غلط جگہ پر آم کھانے کو ’’غلط العام‘‘ کہتے ہیں‘‘۔
٭’’اکثر بڑے گھروں میں چھوٹے اور چھوٹے گھروں میں بڑے لوگ رہتے ہیں‘‘۔
٭’’آزادی جس بھاؤ ملے، لے لو، آزادی کا جو بھی بھاؤ ملے، نہ لو‘‘۔
٭’’وہ دماغ کس کام کا جس میں محبت کا خلل نہ ہو‘‘۔
 ٭’’عمل کے بغیر صرف علم کے ساتھ زندگی گزارنا ایسے ہے، جیسے کھیت میں بیج ڈالے بغیر ہل چلاتے رہنا‘‘۔
٭’’خیالات کی آمدنی کم ہو تو لفظوں کی فضول خرچی سے پرہیز کریں‘‘۔
٭’’مہمان آتے جاتے اچھے لگتے ہیں، کچھ آتے اچھے لگتے ہیں اور بیشتر جاتے اچھے لگتے ہیں‘‘۔
٭’’تنہائی ، اداسی، خوشی اور خوبصورتی، چاروں سگی بہنیں ہیں‘‘۔
٭ ’’وطن کی محبت کا الاؤ جلائے رکھو، برفیں پگھل جائیں گی، دشمن جل جائیں گے‘‘ (سیاچن کے برفیلے محاذ پر سر بہ کف ہونے والے ایک نوجوان کپتان کی فرمائش پر لکھی گئی چھوٹی سی بات)۔
٭ ’’زندگی کی مشکلات آپ کے لان کی گھاس ہوتی ہیں، آپ توجہ نہ کریں گے تو یہ بڑھتی جائے گی‘‘۔
٭ ’’آپ عقل کا پیچھا کر کے اسے حاصل کرتے ہیں اور حماقت آپ کا پیچھا کر کے آپ کو حاصل کر لیتی ہے‘‘۔
٭ ’’آپ اس دنیا میں وَن وے ٹکٹ لے کر نہیں آسکتے، واپسی کا ٹکٹ یہاں آنے کی شرط ہے‘‘۔
٭"پردیس کے میووں کی نسبت اپنے دیس کے تھوہر زیادہ میٹھے ہوتے ہیں‘‘۔
 ٭’’دل کی کتاب میں صرف ایک نام ہونا چاہیے، بہت سے نام درج ہوں گے تو وہ کتاب نہیں انسائیکلو پیڈیا ہو جائے گی‘‘۔
٭’’اگر رزق صرف عقلمند کما سکتے تو دنیا بھر کے بیوقوف بھوکے مر جاتے‘‘۔
٭ ’’اگر خواہشیں گھوڑے ہوتیں تو بیوقوف ان پر سواری کرتے‘‘ (ایک انگریزی محاورے سے اخذ شدہ)۔
٭’’اگر خواہشیں مچھلیاں ہوتیں، تو ہر کسی کی جیب میں رومال نہیں جال ہوتا‘‘۔
٭ ’’گرتے ستارے کو اپنی جیب میں سنبھال لو تا کہ جب زمانے تاریک ہو جائیں تو تم ان کی روشنی سے راستوں کو منور کر لو‘‘ (پیری کو موک ایک گیت سے متاثر شدہ بات)۔
٭ ’’جو لوگ ہاتھی سے کہتے ہیں کہ وہ مرکر سوا لاکھ کا ہو جائے گا، وہ اس کے دوست نہیں ہوتے‘‘۔
٭ ’’شیر اُن لوگوں کا نشان ہوتا ہے جنہوں نے کبھی سچ مچ کا شیر نہیں دیکھا ہوتا، بلی کو شیر سمجھتے رہتے ہیں‘‘۔
٭’’تیزروندی کے پانیوں میں اپنا عکس نہ دیکھو، وہ بہہ کر سمندر میں اتر جائے گا‘‘۔ 
جناب مستنصرحسین تارڑ۔۔۔ اپنی نئی اسٹڈی میں ۔دسمبر 2016۔۔
 
جناب مستنصرحسین تارڑ۔۔۔ اپنی پرانی  اسٹڈی ٹیبل کے ساتھ۔2014.۔۔۔ 

1 تبصرہ:

  1. مستنصر حسین تارڑ
    تاریخ پیدائش. یکم مارچ 1939ء لاہور.
    پہلی تحریر." لنڈن سے ماسکو تک " ہفت روزہ " قندیل " 1959ء
    پہلی کتاب. " نکلے تیری تلاش میں " سفر نامہ
    پہلا ٹیلیویژن ڈرامہ بطور اداکار. "پرانی باتیں " 1967ء
    پہلا ٹیلیویژن ڈرامہ بطور مصنف. "آدھی رات کا سورج " 1974ء
    بحوالہ . " کے ٹو کہانی " ایڈیشن 1994ء بیک ٹائٹل

    جواب دیںحذف کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...