جمعرات, نومبر 03, 2016

"سندھی شاعر شیخ ایاز کے کچھ اقوال"

شیخ ایاز کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ 
 ٭1) شاعر فرشتہ نہیں ہے لیکن فرشتہ بھی تو شاعر نہیں ۔
٭2) اگر عورت اور شراب میں سے مجھے کسی ایک کو چننا پڑے تو میں شراب کو چنوں گا اور اگر شراب اور کتاب میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو میں کتاب چنوں گا۔
 ٭3)اگر چکور چاند تک پہنچ گیا تو چاند چاند نہیں رہےگا اور چکور چکور نہیں رہے گا۔
 ٭4)پانی میں چاند کا عکس دیکھ کر مچھلی نے سوچا کہ میں چکور سے زیادہ خوش نصیب ہوں۔
٭5) کون زیادہ حسین ہے؟ شہکار یا اس کا فنکار؟
 ٭6)جس کی روح میں راگ نہیں اس کے راگ میں روح نہیں۔
 ٭7)فنکار کی شکست فن کی فتح ہے
٭8) شاعر نے فلسفی سے کہا، اگر تم فلسفی نہ ہوتے تو خدا کو مانتے۔ فلسفی نے شاعر کو کہا، اگر تم شاعر نہ ہوتے تو خدا کو نہیں مانتے۔
٭9)میں ماضی کے ماضی اور مستقبل کے مستقبل کا شاعر ہوں۔
٭10)شاعر کا مذہب فقط شاعری ہے۔
٭11)اے کاش! میں گمنامی میں جیوں اور گمنامی میں مروں۔ بدنامی اور اس سے بھی زیادہ نیک نامی شاعر کی تخلیقی انفرادیت کے لیے مہلک ہے۔
٭12)ہر شاعرِمحبت شاعرِانقلاب ہے۔ ہر شاعرِانقلاب شاعرِمحبت نہیں ہے۔
٭13)اگر میں تمہیں کہوں کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے اور نہیں بھی دیکھا تو تم مجھے پاگل سمجھو گے۔ لیکن میں بھی تمہیں عقلمند نہیں سمجھوں گا۔
٭14) گلاب کے پھول پر اگر زیادہ بھنورے آجائیں گے تو گلاب کی خوشبو کم نہیں ہوگی۔
٭15) غالب کا گناہ اس کی شراب نوشی نہیں بلکہ قصیدہ نویسی تھا۔
٭16)چکور کی نظر سے دیکھو تو تمہیں چاند میں داغ نہیں نظر آئیں گے۔
اس پوسٹ کو شئیر کرتے ہوئے عثمان غازی  کا کہنا تھا ۔۔۔"نوٹ: اتفاق یا اختلاف ضروری نہیں ہے، خیال اور کیفیت شاید سوچ کے مختلف زاویوں کی طرح ہوتے ہیں، یہ بھی سوچ کا ایک خوب صورت زاویہ ہے"۔
جس کا جواب میں نے کچھ یوں دیا۔۔۔
۔"کسی خوبصورت سوچ کا زاویہ اگر ہماری سوچ سے مل جائے پھر احساس کی جگمگاتی کہکشاں تک رسائی خواب نہیں ہوتی، اس
پوسٹ کا ہر جملہ مکمل زندگی کہانی ہے اور ہر خیال کا لفظ لفظ دل میں اترتا محسوس ہو رہا ہے۔عورت,کتاب اور شراب کے حوالے سے جملے  پر یہ کہوں گی کہ عورت وہ نشہ ہے جو بنا پیے بنا چھوئے ہی مخمور کر سکتا ہے اور کتاب کا نشہ جس کو ایک بار مل جائے وہ پھر کبھی اس کے اثر سے باہر نہیں آ پاتا" ۔
۔۔۔۔۔
شیخ مبارک علی ایاز المعروف شیخ ایاز  کا مختصر تعارف
شیخ مبارک علی ایاز المعروف شیخ ایاز (پیدئش: 23 مارچ، 1923ء - وفات: 28 دسمبر، 1997ء) سندھی زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ کو شاہ عبدالطیف بھٹائی کے بعد سندھ کا عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ اگر آپ کو جدید سندھی ادب کے بانیوں میں شمار کیا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔ آپ مزاحمتی اور ترقی پسند شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آپ کی پیدائش 23 مارچ، 1923ء کو شکارپور میں ہوئی۔ آپ نے درجنوں کتابیں لکھیں اور سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔ آپ نے "شاہ جو رسالو" کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا جو اردو ادب میں سندھی ادب کا نیا قدم سمجھا جاتا ہے۔ 23 مارچ، 1994ء کو آپ کو ملک کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہلال امتیاز 16 اکتوبر، 1994ء کو فیض احمدفیض ایوارڈ ملا۔ شیخ ایاز کا انتقال حرکت قلب بند ہونے سے 28 دسمبر، 1997ء کو کراچی میں ہوا۔ 
۔(بشکریہ وکی پیڈیا)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...