منگل, ستمبر 16, 2014

"سفردرسفر از اشفاق احمد"

 سفردرسفر از اشفاق احمد پر میرا اظہار۔۔۔۔
دل کی آنکھ ہر ایک کے پاس ہوتی ہے بس کھلتی کسی کسی کی ہے۔ 
 خلیل جبران،احمد فراز،پروین شاکر کے لفظوں کی خوشبو میں کھو جانے کے بعد"سفر درسفر" کی صورت اچانک جیسے ایک نئی دنیا دریافت ہوئی۔۔۔میری اپنی دنیا۔۔۔۔ جہاں اگر وجود سےاُٹھنے والی ہر مہک کا سراغ ملتا تھا تو میری ہر محبت میرے سامنے کھڑی مسکراتی تھی۔۔۔۔باہیں پھیلا کر کہتی تھی۔۔۔۔ آؤ مجھے چھو لو۔۔۔۔۔
 یہ وہ کتاب ہے جس نے میرے خیال کی وسعت کو مہمیز کیا۔ پہاڑوں اور نظاروں کی قربت کی خواہش روح کی پکار بنتی گئی تو کہیں پر یہ انسانوں کو سمجھنے اور برتنے کی سرگوشیاں بھی کرتی تھی۔
تیس برس پہلے پڑھی گئی اس کتاب  میں سےاپنی ڈائری پر اسی وقت درج ذیل لفظ نوٹ کیے۔۔ایسی کتاب ایسے لفظ جو آج بھی میرے اندر سانس لیتے ہیں۔




سفردرسفر سے اقتباسات۔۔۔۔
صفحہ۔28۔۔
 پہاڑوں میں،کھوئی ہوئی محبتیں اوربھولی ہوئی یادیں پھر لوٹ آتی ہیں۔جس طرح بارش کےدنوں میں باہر بوندیں پڑتی ہیں تو انسان کے اندر بھی بارش ہونے لگتی ہے۔اوپر سے تو ٹھیک رہتا ہے،لیکن اندر سے بالکل بھیگ جاتا ہے۔اس قدر شرابور کہ آرام سے بیٹھنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔ یہی کیفیت پہاڑوں میں جا کر ہوتی ہے۔ کیسا بھی اچھا ساتھ کیوں نہ ہو انسان تنہا ہو کر رہ جاتا ہے۔اور اداسی کی دھند اسے چاروں طرف سے لپیٹ لیتی ہے۔اندرآہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگتا ہے اورباہر کیسی بھی دھوپ کیوں نہ کھلی ہو،کیسی ہی ٹھنڈی ہوا کیوں نہ چل رہی ہو اندر ٹپاٹپ بوندیں گرنے لگتی ہیں اور شدید بارش ہو جاتی ہے۔اوراندر سے بھٹکا ہوا انسان باہر کے آدمیوں کے کام کا نہیں رہتا۔ان کا ساتھی نہیں رہتا۔
صفحہ۔36ََ۔۔۔
منزل قریب ہونے  آ جانے پر مسافر ایک دوسرے سے اورساربان سے دور ہونے لگتے ہیں۔ منزل بھی کیا محبوب ہے کہ جب قریب آتی ہےتو محبت کرنے والے ایک دوسرے کے رقیب بن جاتے ہیں۔ 
 میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اوربھسم ہوتے دیکھا ہے۔ پھر ان کی راکھ کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھا ہے۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اورجن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپ محبت کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہروقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ رکھتے ہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورد،آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔
صفحہ۔37۔۔۔
 دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام تجویز نہیں کیا جاسکا۔ الفاظ بھی کیا بڑھئی کے اوزار ہیں کہ خیال کو چھیل چھال کرکاٹ کر رندہ سا لگا دیتے ہیں اور اس کا قد گھٹا دیتے ہیں۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ ان بونوں کے سہارے تصورکی فصیلوں پریلغارکرتے ہیں اوراپنے انجانے قلعے فتح کر لیتے ہیں۔
صفحہ۔43۔۔۔۔
 میں نے انتظار کرنے والوں کو دیکھا.انتظار کرتے کرتے سو جانے والوں کو بھی اور مر جانے والوں کو بھی. میں نے مضطرب نگاہوں اور بے چین بدنوں کودیکھا ہے۔آہٹ پہ لگے ہوئے کانوں کے زخموں کو دیکھا.انتظار میں کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا۔ منتظرآدمی کے دو وجود ہوتے ہیں. ایک وہ جو مقررہ جگہ پر انتظار کرتا ہے، دوسرا وہ جو جسد خاکی سے جدا ہو کر پذیرائی کے لئے بہت دور نکل جاتا ہے۔جب انتظار کی گھڑیاں دنوں،مہینوں اور سالوں پر پھیل جاتی ہیں تو کبھی کبھی دوسرا وجود واپس نہیں آتا اور انتظار کرنے والے کا وجود،اس خالی ڈبے کی طرح رہ جاتا ہے جسے لوگ خوبصورت سمجھ کر سینت کے رکھ لیتے ہیں اور کبھی اپنے آپ سے جدا نہیں کرتے۔ یہ خالی ڈبا کئی بار بھرتا ہے،قسم قسم کی چیزیں اپنے اندر سمیٹتا ہے،لیکن اس میں "وہ" لوٹ کر نہیں آتا جو پذیرائی کے لئے آگے نکل گیا تھا۔ایسے لوگ بڑے مطمئن اورپورے طور پہ شانت ہوجاتے ہیں۔ ان مطمئن، پرسکون اورشانت لوگوں کی پرسنیلٹی میں بڑا چارم ہوتا ہے اور انہیں اپنی باقی ماندہ زندگی اسی چارم کے سہارے گزارنی پڑتی ہے۔ یہی چارم آپ کو صوفیا کی شخصیتوں میں نظر آئے گا۔ یہی چارم عمرقیدیوں کے چہرے پر دکھائی دے گا اوراسی چارم کی جھلک آپکو عمر رسیدہ پروفیسروں کی آنکھوں میں نظر آئے گی۔
صفحہ۔46۔۔
 ہم کو تو الفاظ نے اتنا مجبوراتنا ہتھل کر دیا ہے کہ جب تک کسی اجنبی کی زبان نہ آتی ہو ہم اس کی خاموشی کا مطلب بھی نہیں جان سکتے۔
صفحہ۔67۔۔۔
 جب انسانوں کے درمیان جسم کی محبت ہو تو وہ ایک دوسرے کی طرف مقناطیس کی طرح کھچنے لگتے ہیں جب ان میں آگہی اور دانش کی قدر مشترک ہوتو وہ لمبی سیروں ،لمبے راستوں اور لمبے سفر کے ساتھی بن جاتے ہیں اور جب ان کی محبت میں روحانیت کا ابر اُتر آئے تو وہ بستروں کے انبار میں دو معصوم بچوں کی طرح ٹانسے کی چادریں بن جاتے ہیں جس سے ان کی رہائی مشکل ہو جاتی ہے وہ یا تو چیخ چیخ کر مدد کرنے والوں کو بلاتے ہیں یا دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔
صَفحہ۔104۔۔۔
 عورتوں کو واقعات اورحادثات من حیث المجموع یاد رہتے ہیں اور مرد کو ان کی تفصیلات یاد رہتی ہیں۔عورت خالق ہے اور مرد کرافٹس مین ہے۔عورت اپنے اندرہی سے پُرانا سُرانا مواد لے کر ایک جیتا جاگتا برانڈنیو بچہ تخلیق کر دیتی ہے اور مرد بھاگ بھاگ کر اور چار دانگ عالم سے چھوٹی چھوٹی چیزیں اکھٹی کر کے بڑی چابکدستی کے ساتھ ایک مووی کیمرہ ایک وی ٹی آر ریکارڈر ایک فوٹوسٹیٹ مشین بنا سکتا ہے۔مرد پرفیکشنسٹ ہوتا ہے اس لیے اس کی نظر ہمیشہ جزئیات پر رہتی ہے۔ زندگی اور محبت کے میدان میں وہ چھوٹے چھوٹے پیچ اور ڈھبریاں کستا چلتا ہے اور اس کا ایک پیچ ڈھیلا پڑ جانے سے ساری مشین لڑکھڑانے لگتی ہے۔عورت کے تانے بانے کا مواد ایک ہی ہوتا ہے کہیں سے بھی ایک تار ٹوٹ جائے تو بھی کپڑے کی مجموعی ساخت میں فرق نہیں آتا۔
صفحہ۔145۔۔۔۔149۔۔۔۔۔
 مرد کا کام عورت کو سمجھنا نہیں، اس کو محسوس کرنا ، اس کی حفاظت کرنا ، اس سے محبّت کرنا ہے۔ عورت کو اگر اس بات کا علم ہو جائے کہ مرد اس کو سمجھنے لگا ہے،یا اس کے جذبات کو جانچنے کا راز پا گیا ہے تو وہ فوراً تڑپ کر جان دے دی گی۔ آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل ودانش کی بات کریں،کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں، اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔ اس کے ذہن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے،جسے اس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہے اور وہ اسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ کسی عقل ودانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی۔ اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے۔
صفحہ۔.188
 تلاش کا عمل بھی خوب ہے ۔لوگ نیلے آسمان پر عید کا چاند تلاش کرتے ہیں۔ قدموں کا نشان دیکھ کر چور کا کھوج لگاتے ہیں۔ کلائی ہاتھ میں لے کر معدے کے اندر حدت تلاش کرتے ہیں۔ کھنڈرات دیکھ کر پرانے لوگوں کا چلن ڈھونڈتے ہیں۔ شادی کے لیۓ اچھی نسل تلاش کرتے ہیں۔خوش وقتی کے لیےاچھا جسم تلاش کرتے ہیں۔ جب بچہ گھر نہیں پہنچتا تو ماں اس کی تلاش کرنے کے لیے دیوانہ وار راہوں اور شاہراہوں پر نکل جاتی ہے۔ جب اسی بچے کی شادی ہوجاتی ہے تو وہ اپنی بیوی کے کھانوں میں ماں کے پکوانوں کی بوُ باس تلاش کرتا ہے۔جب نوجوان اداس اور تنہا ہوتا ہے وہ جیون ساتھی تلاش کرتا ہے ۔اور جب اسے زندگی کا ساتھی مل جاتا ہے ،تو وہ اسے گھر چھوڑ کر دوسروں کے جیون ساتھیوں کا نظارہ کرنے باہر نکل جاتا ہے۔
صفحہ۔191۔۔۔۔ 
 ایک تلاش ایسی ہوتی ہے کہ آدمی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ تلاش کر رہا ہے یا اس کو کسی چیز کی چنتا ہے یا وہ کوئی رستہ ڈھونڈ رہا ہے یا اسے کسی شے کی تلاش ہے۔۔ پھر بھی یہ عمل جاری رہتا ہے اور مرتے دم تک اس کو اس بات کا سراغ نہیں ملتا کہ وہ اس قدر بے چین کیوں ہے، خالی کیوں ہے۔ اس کی روح کے اندر ایک تھرتھری کیوں رہتی ہے؟" 
صفحہ ۔235۔۔۔
۔"مفتی جی ! ملامتی فرقے کے لوگوں کا ایمان ہے کہ نفس ہمیشہ دھوکہ دہی کی طرف مائل رہتا ہے - نفس چاہے آگے آگے چل کر رہبری کر رہا ہو چاہے پیچھے چل کر پیروی کر رہا ہو،چاہے باادب تابع اور فرماں بردار بن جائے ، چاہے باغی اور سرکش  ہو جائے اس کا کوئی اعتبار نہیں۔۔۔کبھی اعتبار نہیں۔۔۔ہرگز اعتبار نہیں"۔
۔(1970 کے عشرے  میں  جناب اشفاق احمد کے اُس سفرکی ایک یادگار تصویر جو لفظ کی صورت" سفر درسفر" میں رقم ہوا)۔

7 تبصرے:

  1. کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئ۔۔اک پہیلی ہے سمجھنے کی نہ سمجھانے کی!

    جواب دیںحذف کریں
  2. ((آئینہ وقت)) تعمیر انسانیت کا ذریعہ
    تحریر:اشفاق احمد
    کتاب ”آئینہ وقت“ کےمصنف کو میں عرصہ پچیس سال سےجانتا ہوں۔ اور اس کےساتھ وقت کی ہر بنت سےگذرا ہوں۔ جو دن ، دوپہر، شام ، رات، اور صبح کاذب اور صادق کےدرمیان نئےنئےچھاپےچھاپتی ہی۔ اور نئےنئےرنگ ابھارتی ہی۔ عنائیت کو میں نےاچھے، بری، تلخ، ترش،کھچاوٹ، کملاوٹ اور کرب و بلا کی کیفیتوں میں بھی دیکھا ہی۔ اس پر بوجھ بھی ڈالا ہی۔ اور اس کا بوجھ کبھی اٹھایا بھی ہےلیکن !
    عنائیت اللہ کےموجودہ روپ کا اشارہ مجھےماضی میں کبھی نہیں ملا تھا ۔ میرےوہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ کہ ایک روز جب گولڑہ موڑ پر پہنچےگا۔ تو اس پر ”آئینہ وقت“ جیسی کتاب وارد ہو جائےگی۔
    یوں تو مغربی طرز جمہوریت پر حضرت علامہ نےبھی بڑی شدید تنقید کی ہی۔ اور ملت اسلامیہ کی بڑی بڑی اور معتبر دینی جماعتوں نےبھی اس کےمنفی اثرات و آثار سےمسلمانان عالم کو آگاہ کیا ہی۔ لیکن جس سادگی ، صفائی، خلوص، اور دردمندی کےساتھ عنائیت اللہ نےاس بلائےبیدرماں کاتجزیہ کیا ہی۔ وہ ایک معمولی فہم و فراست رکھنےوالےذہن میں بھی بہ آسانی آ جاتا ہی۔ اس کی مزید وضاحت کےلئےآخر کےاکیس سوالوں میں ڈائیرکٹ ایکشن کی روح کارفرما ہی۔ یہ سوالات نہیں ہیں۔ ہماری معاشرتی ، ملی، سیاسی، دینی اور اقتصادی زندگی کےانڈیکیٹر ہیں۔
    جس طرح انسانی تاریخ میں بعض ایسےصحت مند موڑ موجود ہیں۔ جنہیں معمولی لوگوں ، معمولی کتابچوں، اور معمولی عملوں نےآنےوالی نسلوں کےلئےمستقل کر دیا ہی۔ اسی طرح مجھےلگتا ہی۔ کہ عنائیت اللہ کا ”آئینہ وقت“ بھی تعمیر انسانیت کےکسی عظیم منصوبےکےلئےڈائنا مائیٹ بن کر طاغوت کی ازلی بربادی کا سامان بن جائےگا۔
    ((اشفاق احمد))
    ٣ جولائی ٩٩٩١ ئ

    جواب دیںحذف کریں
  3. اتنے خوبصرت الفاظ عمدہ
    میرے پاس تبصرے کے لیے الفاظ نہیں ہیں نا اس قابل ہوں زندگی کی باریکیوں کو جس طرح کھول کر اشفاق صاحب بیان کرتے ہیں شاید ہی کوئی کر سکتا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  4. اشفاق احمد
    http://www.dastanserai.com/%D8%A7%D8%B4%D9%81%D8%A7%D9%82-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF/

    جواب دیںحذف کریں
  5. اخترعباس کی تحریر۔۔
    "آسانیاں بانٹنے کا شر اتنی آسانی سےنہیں ملتا"
    https://daleel.pk/2017/11/04/64307

    جواب دیںحذف کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...