جمعرات, ستمبر 11, 2014

"حجرِہشت پہلو"

سانس لینے اور ہوش وحواس کی آنکھ کھل جانے کے بعد طوافِ زندگی شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ دائرے کا یہ سفر ان دیکھے مرکز کے گرد رواں رہتا ہے۔۔۔ ملنے والے محبتوں کے رشتے اس مرکز سے پیوستہ حجر کی مانند ہیں تومحرومیوں، مایوسیوں اورنفرتوں کے تعلق پیروں تلے آنے والے سنگ ریزوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔سفرِزیست کا ہر ہر مرحلہ مرکز سے جڑے پتھر کو چوم کر آگے بڑھتا ہے۔۔۔تومسافت کی خراشیں مسافر کو گھسٹنے پر مجبور بھی کر دیتی ہیں۔۔۔ کبھی دھکم پیل اور بھگدڑ اتنا زخمی کر دیتی ہےکہ طواف رُکتا سا محسوس ہوتا ہے۔۔۔کبھی ہجوم کے دباؤ میں آکر بلاسوچےسمجھے کولہو کے بیل کی طرح بس چکر پہ چکر لگتے جاتے ہیں۔۔۔مرکز سے بےپروا۔۔۔ مقدس پتھر کے لمس سے ناآشنا۔
سانس آتی ہے۔۔۔ جان باقی رہتی ہے۔۔۔ بس انسان اندر سے شجرِسایہ دار کی طرح جامد ہو جاتا ہے۔۔۔ جس کا گھنا سایہ قریب آنے والوں کو فرحت دیتا ہے۔۔۔اس کے ظاہری عوامل نگاہوں میں معززومحترم بناتے ہیں تو اتنا ہی پُراسرار بھی بنا دیتے ہیں۔لیکن اس کا سفرِزیست ہمیشہ نظرسے اوجھل ہی رہتا ہےتاوقت یہ کہ وقت اسے ڈی کوڈ نہ کر دے۔
درخت کاٹا جائے تو ہی اس کے مضبوط تنے کے اندر چھپی طواف کہانی عیاں ہوتی ہے۔۔۔جوعلم وتحقیق کی راہ کے مسافر ہی جان سکتے ہیں۔ جبکہ انسان اپنی ہر کہانی اپنے ساتھ لے کر دفن ہوجاتا ہے۔ شجر اور انسان کا فرق 'مخلوق' اور'اشرف المخلوق' کا ہے۔ انسان کو نہ صرف اپنے ہر طواف کا ادراک ہونا چاہیے بلکہ جب تک اس کے خاتمے پر جسم یا نظر کے لمس سے یا خیال کی پہنچ سے مقدس پتھر کو چھوا نہ جائے۔۔۔اور ہاتھ اٹھا کر گواہی نہ دی جائے ایک دائرہ مکمل نہیں ہوتا۔
جذب کی کیفیت میں ڈوب کر سالہا سال چکر لگتے رہیں سب بےکار ہے۔جب تک عقل کا دامن تھام کر حساب کتاب نہ کیا جائےطوافِ حق کی قبولیت کی سند نہیں ملتی۔ لیکن یہ بھی حق ہےکہ سوچ سمجھ کر جتنے بھی طواف کیے جائیں وہ محبتوں کی پہلی سیڑھی پر ہی رہتے ہیں کبھی آگہی کی بلندی کو نہیں چھو پاتے۔ آگہی نظر جھکا کر خاموشی سے حضوری کی حالت ہے جو اصل مقصدِ حیات ہے۔
دائروں کے سفر میں جسم وروح کو چھونے والے حجرِ ہشت پہلو قدم روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں تو اتنے مبارک بھی ہوتے ہیں کہ اُن کا احساس سفر کی تھکان لمحوں میں اُتار دیتا ہے۔۔۔بظاہر ہر موڑ پر پتھر کو آخری بار چوم کر آگے ہی کیوں نہ بڑھا جائے۔۔۔ بنا کسی رُکاوٹ کسی حجاب کے نئی تازگی سے ایک منزل کے بعد اگلی منزل کا سراغ ملتا چلا جاتا ہے۔
پتھر فلاح نہیں دیتا یہ سچ ہے۔ لیکن راہ میں آنے والے مصائب برداشت کرنے کا ہنر بخشتا ہے۔اس انعام کو جتنے پیار سے بوسہ دیا جائے۔۔۔ اور پھر اسی آہستگی سے آگے بڑھا جائے۔۔۔ طوافِ زندگی اسی طور رواں دواں رہتا ہے۔
!آخری بات

ہر شخص اپنے اندر یہ خدائی چاہتا ہے کہ اُس کا اورصرف اس کا طواف کیا جائے۔ اور رنگ پتھر میں نہیں ہماری نگاہ میں ہے جس پل جس رنگ کی تمنا ہو وہی جھلکتا ہوتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...