بدھ, مارچ 11, 2015

"فیض کِسے نئیں پایا"

فیض اللہ خان
تاریخِ پیدائش۔۔۔25فروری1968
بمقام راولپنڈی
تاریخ وفات۔۔۔6 مارچ 2015
جائےمدفن۔۔۔ ایچ الیون اسلام آباد

زندگی کا پرچہ حل کرتے وقت ہر گھڑی نئےسوال ہمارے سامنے آتے ہیں جن کے جواب جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن  وقت ضرور ان کے جواب جانتا ہے۔کبھی ہم اپنی زندگی میں کسی حد تک ان کے جواب جان جاتے ہیں ،کبھی جواب کے لیے بھٹکتے پھرتے ہیں تو کبھی جان کر بھی نہیں جان پاتے۔۔۔دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے اور محسوس کر کےبھی انجان بنے رہتے ہیں۔شاید!اسی 'نادانی' اسی'کم عقلی' میں ہی ہماری بھلائی پوشیدہ ہو؟کون جانے۔ہماری زندگی میں خاموشی سے در آنے  والےبہت سے سوالوں میں سے ایسا ہی ایک سوال وہ بھی تھا۔۔۔
فیض اللہ خان۔۔۔ہم چار بہنوں کا ا کلوتا بھائی ۔۔۔ لفظ کا رندہ بےرحمی سے چلاؤ تو ذہنی پسماندہ اورلفظ کو سلیقے کے غلاف میں لپیٹ دو تو خاص فرد۔۔۔۔اسپیشل پرسن۔ یہ دو لفظ ہر طرح سے اس کی زندگی میں اس کی شخصیت پر کبھی پورا نہیں اُترے۔ برسوں سے اس کے قریب رہنے اس کی رگ رگ سے واقف ہونے کے بعد ہم بخوبی جانتے تھے کہ ذہنی طور پر وہ ہم بزعمِ خود نارمل لوگوں سے بہت آگے تھا۔ لمحوں میں کسی بات کسی اشارے کی تہہ تک پہنچنے والا۔محبت کی نگاہ اور نفرت کے انداز کو پل میں جانچنے اور ہمیشہ کے لیے یاد میں محفوظ کرنے والا۔ اُس کی یاداشت کسی بھی عام سوچ سمجھ والے مکمل انسان سے کئی درجہ بلند تھی سینتالیس سال کے سفر میں اسے دس برس کی عمر میں بچھڑ جانے والے رشتے یوں یاد تھے جیسے ابھی ملے ہوں۔۔وہ اگر اس دنیا کے روایتی طرزفکر سے بےبہرہ تھا۔۔۔پڑھے لکھے ڈگری یافتہ لوگوں کے بیچ ایک اُمی تھا تو"خاص" تو کسی طور سے کہیں بھی کبھی بھی نہ ہوا۔ تین برس پہلے تک ۔۔۔جنم دینے والی ماں کی زندگی میں صرف اس کے لیے۔۔۔ اس کے سامنے شاید خاص ہو تو ہو کہ وہ نہ صرف اُس کی ماں تھیں بلکہ صبروبرداشت کے اُس مقام پر تھیں جہاں کا سوچتے ہوئے بھی عام انسان کےپر جلتے ہیں۔ اُن کی زندگی میں وہ ہمیں کبھی نظر نہیں آیا کہ اُس کا عکس ماں کی آنکھ سے فلٹر ہو کر ہم تک پہنچتا۔۔۔اور ماں کا دل دنیا کو جو منظر دِکھانا چاہے وہی دِکھتا تھا۔ یہ تو ماں کے جانے(4مارچ 2012) کے بعد پتہ چلا کہ اُنہوں نے نہ جانے کتنے پل صراط طے کرتے ہوئے امانت کا حق ادا کیا ۔
ہم بہنوں نے اسے کبھی "خاص" سمجھا اور نہ ہی خاص ہونے کی اہمیت دی ۔وہ ہم جیسا ہی تو تھا۔۔ ہمارے ساتھ رہتا۔۔۔ ہمارے ساتھ سوتا۔۔ اسی لیے اس سے بات بھی ایسے ہی کرتے جیسےآپس میں ایک دوسرے سے اور اسی طور سمجھانے کی کوشش بھی کرتے۔جب وہ نہ سمجھتا نہ مانتا بلکہ ہنستا تو ہم بری طرح جھنجھلا جاتے۔جیسے وہ سب جانتا ہو اور جان بوجھ کر ہمیں تنگ کر رہا ہو۔برابری کے اس احساس میں اگر اس پرخاص توجہ نہ دینے کی خلش یا ملامت ہے تو اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ مجبوری یا ترس کا عنصر بھی تو کبھی شامل نہ ہوا۔
ہم اگر سب جانتے ہوئے محض ایک ذمہ داری کی طرح اُس کا خیال رکھتے تو وہ دل سے کسی بھی غرض سے بےپروا بڑے چھوٹے سے محبت کرتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے عمر بڑھ رہی تھی ۔۔۔ گھر میں محدود رہ کر صبح وشام کرنے سےوہ ذہنی طور پر تھکنے لگا۔اس کی خوش مزاجی چڑچڑے پن اور غصے میں بدل گئی تھی اور امی کے جانے کے بعد تو جیسے اس کی زندگی کا محور ہی غائب ہوگیا۔جنم دینے والی ماں کی  ڈھیروں ذمہ داریوں میں سے خاموشی سے پہلی توجہ کا مرکز  اب دوسروں کی زندگی کی مصروفیات  کی قطار میں سر جھکائے اپنے باری کا منتظر رہتا۔
"پچیس فروری"
ہر انسان کے لیے اس کا جنم دن خاص ہوتا ہے۔زندگی نے چاہے اسے کچھ دیا ہو یا نہ ہو پھر بھی اس روز ہر شخص  اپنے آپ اپنی ذات پر  ٹھہر کر ایک نظر ضرور ڈالتا ہے۔وہ اپنے سالوں، مہینوں اور دنوں کے شمار سے غافل  تو تھا لیکن عید،بقرعید اور خوشی کی تقریبات سے مکمل باخبر رہتا جس کے منانے میں اس کا واحد شوق  کپڑوں اور جوتوں کو سنبھال کر رکھنا اور گھر میں ہر آنے والے کو بطورِ خاص دِکھانا بھی ہوتا۔ اُس کا جنم دن خواہ کسی کو یاد ہو یا نہ ہو امی ہمیشہ یاد رکھتیں اور اپنی ذات کی تنہائی میں اس کے لیے اہتمام بھی کیا کرتیں۔اولاد چاہے زندہ ہو یا  اپنی جھلک دکھا کر اللہ کے پاس چلی جائے ہر ماں کے لیے اپنے بچوں کا جنم دن بہت خاص ہوتا ہے۔۔۔
۔"کبھی یہ دن  زندگی میں ایک اذیت ناک احساس  کی صورت ساری زندگی پر محیط ہو جاتا ہے۔ یوں ہوتا ہے کہ وہ تصویر نہ جانے کس وجہ سے،اللہ کی کون سی آزمائش کے سبب مکمل نہیں ہو پاتی۔ ایک ادھوری تحریر کی صورت کہ نہ آغاز پر نظر اور نہ انجام کی خبر، پھر ساری عمر ان بکھرے حرفوں کو سمیٹنے میں ہی گُزر جاتی ہے،اپنے لمس سے جتنا بھی نکھار لو ،وہ تحریر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔عمر بیت جاتی ہے  وقت گزر جاتا ہے، زندگی نہیں گزرتی۔ یہ صرف ایک ماں کا ہی حوصلہ ہے جو اسے زندگی کے اس پل صراط پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے"۔  
ساری زندگی ہم اس کے وجود  کے ساتھ سوالوں کی آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔اس کی زندگی  ایک ایسا سوال رہی جس کو جتنا حل
 کرنے   کی کوشش کرتے اتنا ہی مشکل لگتا اور جتنا سلجھاتے اتنا ہی الجھتا جاتا۔ امی ابو کے جانے کے بعد اس کی زندگی کا جواز تلاش کرتے۔۔۔کبھی اللہ کی نہ سمجھ آنے والی مصلحت تو کبھی آزمائش کہہ کر اِس پر پورا اترنے کی دعا کرتے۔
اللہ نے امی کی وفات کے بعد تین برس اور ابو کے انتقال کے بعد صرف ساٹھ دن کی زندگی ہی اس کے مقدر میں لکھی تھی۔مقدر؟۔۔۔ہم اپنی عقلی صلاحیت سے کبھی نہیں جان سکے کہ اس کی تخلیق کا جواز کیا تھا؟ اگر وہ جنت کا مکین تھا تو دنیا میں اس کے لیے ہر طرف ناآسودگی اور بےاعتباری کیوں لکھی گئی؟ ہم میں سے کسی کو بھی اس کی پہچان نہیں تھی۔۔۔ بظاہریہ اُس کی آزمائش تھی؟ لیکن درحقیقت یہ تو ہماری پہچان کی آزمائش تھی اوراصل حساب کتاب اللہ ہی جانتا ہے۔
"خاص"
ہاں ایک وجہ سے وہ ہم بہنوں کے لیے بہت خاص تھا کہ وہ جیسا بھی تھا ہمارا بھائی تھا۔ اور اس بات پر ہم میں سے کسی کو بھی کبھی بھی دوسروں کے سامنے ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی۔ 
قبر نمبر 4
پلاٹ نمبر 35

وہ ماں باپ کی وراثت اُن کے ترکے کا قانونی وارث تھا۔۔۔ پر وہ زندگی بھر مال اور زمین کے فتنوں سے دور رہا۔اگرچہ اُسے ہم زندہ انسانوں کی بھری دنیا میں اپنے نام کی تختی کی گنجائش نہ مل سکی لیکن اللہ نے دُنیا کی زندگی میں اس کا حصہ ضرور مقرر کیا ہوا تھا جو اُس کی آنکھ بند ہونے کے بعد ہم پر واضح ہوا۔اسلام آباد کا گھربننے کے بعد  بارہ برس کی عمر میں سب کے ساتھ یہاں منتقل ہوا۔پینتیس برس سے زائدکی رفاقت میں اپنے گھر کی گلی نمبر 35 اور اس کےمکینوں سےاُسے عجیب سی اُنسیت تھی۔اگر سب اُسے جانتے تھے تو وہ بھی ہر ایک سے بڑی تمیز تہذیب سے ملتا۔۔۔جانے انجانےسے ہاتھ بڑھا کر سلام کرنا اس کی عادت تھی۔انجان یا خواتین سے ہاتھ ملانے کی اس عادت سے ہم شرمندہ بھی ہوتے اور اُس کو منع بھی کرتے۔برسوں اپنی گلی میں خصوصاً شام کے وقت بچوں کو کھیلتے دیکھنا ہی اُس کی روزمرہ کی واحدتفریح تھی جس کے لیے وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوتا۔
"آگئے"
۔ "آ گئے" اُس کا نعرہ کہہ لیں یا تکیہ کلام کہ وہ  گھر میں ہر وقت کسی نہ کسی کی آمد کا منتظر رہتا اور جب کسی کے آنے کی سُن گُن ملتی تو باآوازِ بلند"آ گئے"کہہ کر سارے محلے کو خبر کرتا۔ایک لمبی رفاقت میں سب اُس کے اشارے پہچانتے تھے اور جان جاتے کہ کوئی آنے والا ہے۔ اس کی وفات کے بعد جب چھوٹی چچی قبر پر گئیں تو بےاختیار اُن کے منہ سے نکلا ۔ "لو بھئی آج ہم آگئے"۔ پھر اُنہوں نے ہی کہا کہ اِس کے کتبے پر لکھوانا۔۔۔۔ "آگئے"۔
!آخری بات
اللہ سے اُس کے فضل کی دعا ہے کہ وہ  ہماری خطاؤں سے درگزر کرے جو اُس کے ساتھ رہتے ہوئے اُس کے حوالے سے ہم سے سرزد ہوئیں۔وہ تو بلاشبہ جنت کا مکین تھا کہ اس عارضی سرائے کے حساب کتاب کے کھاتے میں اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا۔اللہ کی رحمت اور  بھائی کی محبت پر کامل یقین ہے کہ جس طرح یہاں رہتے ہوئے اور ہم سب کی اپنے اپنے ظرف کے مطابق  بےاعتنائی کے باوجود وہ ہم سے  بےغرض محبت کرتا تھا تو  اُس ابدی دنیا میں کسی خسارے کے موقع پر اپنے پیاروں کو  مشکل میں پڑنے سے بچانے کی کوشش ضرور کرے گا۔
 
   

اتوار, مارچ 01, 2015

" مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں "


نکلے تِری تلاش میں "۔۔۔۔۔پہلی کتاب۔۔۔۔۔پہلا صفحہ۔۔ پہلے لفظ۔۔ "
 تمہیں معلوم ہے کہ ایک ایسی جگہ ہے جس کے دونوں طرف اونچے اونچے درخت ہیں اور درمیان میں ایک راستہ سا بن گیا ہے میں اس راستے کے آخر تک جانا چاہتا ہوں۔اور تمہیں معلوم ہے کہ ایک ایسا جزیرہ ہے۔۔۔دودھیا رنگ کا جس میں سُنہری گھاس کے تکونے میدان ہیں اور وہاں ایسی مورتیاں کھڑی ہیں جن کی بناوٹ اور دائرے بےکل ہیں.. میں اُن مورتیوں کو چھونا چاہتا ہوں۔۔۔۔
کیونکہ
وہ راستہ اور وہ جزیرہ میرے ہیں ۔
پہلا سرورق۔۔۔ عبدالرحمٰن چغتائی
دوسرا سرورق۔۔۔ صادقین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی پہلی کتاب کے صفحہ اول پر جناب مستنصرحسین تارڑ کے وہ پہلے الفاظ۔۔پہلی خودکلامی۔۔۔۔ جو چند جملوں میں آغازِسفرِ سے آج تک کی سوچ کہانی کہتی ہے ۔۔۔ان کی روح کے بھید کھولتی ہے۔ وہ روح جو جسم کی خواہشات اور ضروریات کے سامنے کہیں چھپ جاتی ۔ جسم کی جبلتوں کو مانتے مناتے اگر تھکنے بھی لگتی تو اپنی پیاس اپنی طلب سے کبھی غافل نہ رہی۔۔۔ وہ طلب جو دیکھنے والے آنکھ کے لیے محض دیوانے کی بڑ یا سستی شہرت کے لیے قلم کی روانی ٹھہری ۔ استہزاء اور عقیدت کے ان پرپیچ راستوں میں سے بچ بچا کر نکلتے ہوئے سفر آج بھی جاری ہے...اپنی اسی پہلی سوچ پر یقین کے ساتھ کہ...."وہ راستہ اور وہ جزیرہ میرے ہیں"۔
۔۔۔۔۔
بےشک کسی کو  اپنانے پر یقین کی یہ کیفیت انسان پر اس کے رب کا عظیم فضل ہےکہ یہی کیفیتِ مجازی کیفیتِ حقیقی کی راہ کا پہلا قدم بھی ہے اور جب بات فطرت اورقدرت سے قربت کی ہو تو تلاش کا سفر ہزار صعوبتوں کے باوجود تھکن کا احساس مٹا دیتا ہے۔ اللہ جناب تارڑ کو ذہنی اور جسمانی صحت والی زندگی کے ساتھ اس سفر پر رواں رکھے ۔آمین۔(نورین تبسم)۔
شائع ہونے والی تمام کتابوں کا تعارف۔۔۔
٭1)نکلے تِری تلاش میں 
(سفرنامہ ۔۔افغانستان ،ترکی ،ایران، یورپ، فرانس )
سفر ۔۔جون، جولائی 1969
اشاعت۔۔1971
٭2)اُندلس میں اجنبی
(سفر۔سپین )
سفر ۔۔1969
اشاعت۔۔  ستمبر1976(التحریر پبلشر لاہور)۔
٭ 3)خانہ بدوش 
(سفر۔سپین، لبنان ،یورپ )
سفر۔۔1975
اشاعت۔۔ اگست 1983
٭4)ہنزہ داستان
سفر ۔۔1984
1985اشاعت۔۔
٭5)نانگا پربت۔۔۔(بلتستان داستان)۔
سفر ۔۔1986۔۔1989
اشاعت ۔۔1991
٭ 6)سفر شمال کے
سفر۔۔1988۔۔1989
اشاعت ۔۔1991
٭7)کےٹو کہانی
سفر ۔۔1993
اشاعت ۔۔1994
٭8) یاک سرائے
سفر 1987۔۔1995
اشاعت ۔۔1997
َ٭9)سنولیک ( بیافو ہسپر دنیا کے طویل ترین برفانی راستے پر سفر کی داستان )۔
سفر۔۔1996
اشاعت ۔۔2000
.٭10)چترال داستان(گلگت،وادی گوپس،وادی بھنڈر،درۂ شندور،چترال،کافرستان)۔
سفر۔۔1994
اشاعت ۔۔2004
٭11) نیپال نگری
سفر مارچ۔۔ 1998
اشاعت ۔۔1999
٭12)برفیلی بلندیاں 
۔( تلتر جھیل،پگوڈا ٹریک(سفر 2000)، درۂ گندگورو،لیلیٰ پیک ٹریک (2001)۔
اشاعت۔۔2001
٭13)شمشال بےمثال(سوات وخنجراب)۔
سفر۔۔1998
اشاعت۔۔2002 
٭14)دیوسائی 
سفر۔۔1997
اشاعت ۔۔2003
٭15)پتلی پیکنگ کی
2003سفر۔۔
اشاعت ۔۔2009
٭16)سنہری الو کا شہر
( ہندوستان )
سفر ۔۔1965۔۔ 2004
2005اشاعت۔۔
٭17) رتی گلی
سفر۔۔1963،1956 ،2003
اشاعت ۔۔2005
٭18) کالاش (وادی کافرستان کا ڈرامائی سفرنامہ)۔
اشاعت ۔۔2005
٭19)منہ ول کعبہ شریف
سفر ۔۔فروری  2003
اشاعت ۔۔2006
٭20)غارِحرا میں ایک رات
سفر ۔۔ستمبر 2004
اشاعت ۔۔2006
٭ 21)نیویارک کے سو رنگ
سفر ۔۔2005
اشاعت۔۔2013
٭22)الاسکا ہائی وے
سفر ستمبر ۔۔2006
اشاعت ۔۔2011
٭23)ماسکو کی سفید راتیں 
سفر ۔۔1957، مئی 2007
اشاعت۔۔2009
٭24) ہیلو ہالینڈ 
ہالینڈ کی سفرِداستان۔۔نومبر،1956،1969،2010
اشاعت۔۔2011
٭25)لاہور سے یارقند تک
سفر۔۔2013
اشاعت ۔۔2014
٭26)امریکہ کے سو رنگ
سفر ۔۔2012 
آخری صفحہ ،آخری لفظ ۔۔25 نومبر
اشاعت۔۔ اگست 2015 
٭27)راکاپوشی نگر
سفر ۔۔2013
اشاعت۔۔ اگست 2015
٭28)آسٹریلیا آوارگی 
سفر۔۔روانگی اپریل 2014 
اشاعت ۔۔اگست 2015
٭29)اور سندھ بہتا رہا
سفر ۔۔2015
اشاعت۔۔ جولائی 2016 
٭30)لاہور آوارگی
اشاعت۔۔ جنوری 2017
٭31)پیار کا پہلا پنجاب(نودن پنجاب کے)۔
اشاعت۔۔ جنوری 2017
٭32) حراموش ناقابلِ فراموش
سفر ۔۔جولائی 2016
اشاعت ۔۔2017
٭33)صنم کدہ کمبوڈیا 
سفر  ۔۔2018
اشاعت۔۔ مارچ 2020
٭34)ویت نام تیرےنام
سفر ۔۔جون2018 
اشاعت۔۔ مارچ 2020
٭35)جوکالیاں  (جوکالیاں ۔ ٹلہ جوگیاں۔ سٹوپوں کا شہر سوات، پنجاب کا واٹرلُو چیلیانوالہ اور جوکالیاں)۔
اشاعت۔۔ دسمبر 2020
 ٭36) کیوبا کہانی(دبئی،امریکہ،میکسیکو اور کیوبا کے سفر)
سفر2019
اشاعت۔۔ اگست 2021
٭ 37) لاہور دیوانگی( گوجرانوالہ۔دانا باد۔ہڑپہ۔کرتار پور،۔کنگا پور اور بھگت سنگھ کا گاؤں)۔
 اشاعت۔۔ نومبر2021
٭ 38)نیلو نیل نیدرلینڈ
اشاعت۔۔ مئی 2024
٭ 39)باتاں مُلاقاتاں (صادقین،سعادت حسن منٹو،عبداللہ حسین، انتظارحسین،نورجہاں)۔
اشاعت۔۔ اگست 2024
٭ 40) پشاور آوارگی
اشاعت۔۔  دسمبر 2024
٭41) پیرس میں ایک دن
اشاعت۔۔   مارچ 2025
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناول ۔۔۔۔
٭1)پیار کا پہلا شہر۔۔۔
آخری صفحے کے آخری لفظ۔۔۔یکم مارچ 1972
قسط وار اشاعت 1973(دھنک میگزین)۔
پہلی اشاعت ۔۔1975
اگلی اشاعت۔۔1983
۔۔۔
٭2) فاختہ ناولٹ(1974)۔
 ادبی جریدہ ’’اوراق میں’’جشن کی رات‘‘ کے عنوان سے اشاعت  اور پھر  اس  افسانے کو ایک ناولٹ ’’فاختہ‘‘ کی شکل دی۔
٭3) پکھیرو(پنجابی ناول)1976۔
٭4)پرندے ۔۔1984۔۔۔دو ناولٹ کا مجموعہ۔1)پکھیرو۔(بنجابی ناول کا اردو ترجمہ)۔2) فاختہ۔ 
٭5)جپسی(سفری ناول)۔ 1987۔
٭6)بہاؤ (1990)۔
٭7)دیس ہوئے پردیس(1994)۔
٭8)راکھ ( 1997)۔ (وزیرِاعظم ادبی ایوارڈ 1999)۔۔
٭9)قربت مرگ میں محبت(2001)۔ 
٭10)ڈاکیا اور جولاہا (2005)۔
٭11)قلعہ جنگی( 2008)۔
٭12)خس وخاشاک زمانے(2010)۔
٭13)اےغزال شب ( ناول)  ۔آخری صفحہ آخری لفظ۔20مارچ 2010 ۔
اشاعت ۔۔2013
٭14) منطِق الطیر،جدید(اکتوبر 2018)۔
 ٭15)شہر خالی،کوچہ خالی (کورونا وبا کے شب وروز ....ایک ناول)۔
اشاعت(دسمبر 2020)۔
٭16) روپ بہروپ۔مجموعہ دو ناولٹ ۔1) پھوپھی نوربی بی کا زرد گلاب،2) روپ بہروپ)۔
  قبل ازیں محمد سلیم الرحمان کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی پرچے سویرا میں شائع ہو چکا ہے۔
اشاعت(دسمبر2020)۔
٭ 17) میں بھنًاں دِلًی دے کِنگرے ( بھگت سنگھ بارے اِک ناول ) اشاعت دسمبر 2022۔
( پنجابی ناول)
۔۔۔۔
طنز ومزاح۔۔۔۔ کالم
٭1)گزارا نہیں ہوتا (روزنامہ مشرق میں شائع ہونے والے فکاہیہ کالمز کا مجموعہ۔۔ 1987)۔
٭2)کارواں سرائے (1998)۔
٭3)ہزاروں ہیں شکوے (1998)۔
٭4)چِک چُک(2003)۔
٭5)الو ہمارے بھائی ہیں(2007)۔
٭6)شترمرغ ریاست (2007)۔
٭7)تارڑ نامہ۔۔۔۔2009
٭8)تارڑ نامہ(1)َ۔۔۔2010
٭9)تارڑ نامہ (2)۔۔۔2012
٭10)تارڑ نامہ(3)۔۔۔2012
٭11)تارڑ نامہ(4)۔۔۔۔2014
٭12)تارڑ نامہ(5)۔۔۔2014
٭13) تارڑ نامہ(6)۔۔۔2018
٭14)گدھے ہمارے بھائی ہیں۔
٭15)بےعزتی خراب (2014)۔
٭16)خطوط( شفیق الرحمٰن،کرنل محمد خان،محمد خالداختر)۔2012 ۔ 
٭17)تارڑ نامہ (7)۔۔ اگست۔2020
۔۔۔۔۔۔
افسانے ۔۔۔ ڈرامے ۔۔۔۔۔ٹیلی کہانیاں۔۔۔
٭1)سیاہ   آنکھ میں تصویر (افسانوی مجموعہ  ۔16 افسانے)۔1985۔
٭2)شہپر(ٹیلی کہانی)۔
٭3)کالاش ۔(  ڈرامہ)۔
٭4)مورت (ڈرامہ)۔
٭5)ہزاروں راستے (ٹی وی ڈرامہ سیریل)
٭6)سورج کے ساتھ ساتھ( ٹی وی ڈرامہ سیریل)۔
٭7)فریب( ٹی وی ڈرامہ)۔
٭8)صاحب سرکار(  ٹی وی ڈرامہ)۔
٭9)پرواز(  ڈرامہ)۔
٭10)پندرہ کہانیاں ( مختصر کہانیاں ۔۔۔اپریل 2015 )۔
تعداد کُل کُتب۔۔۔85۔۔۔۔۔
جناب مستنصرحسین تارڑ  کے ایک کالم کا عنوان  اور حرفِ آخر میری طرف سے  ۔۔۔۔۔
اپنے محسنوں کو یاد کرتے رہنا چاہیے۔۔۔۔(کالم۔ مستنصرحسین تارڑ۔۔۔ یکم فروری 2015 )۔
 حرفِ آخر۔ 
 جو اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں وہی نہ صرف دلوں میں بلکہ تاریخ کے اوراق میں بھی یاد رہتے ہیں"۔"
۔۔۔۔

جمعہ, فروری 27, 2015

"انتسابِ کُتب ۔۔۔ مستنصرحسین تارڑ"

مستنصر حسین تارڑ کی تمام کتابوں کا تعارف
جناب مستنصرحسین تارڑ کی85 کتابیں شائع ہو چکی ہیں  اُن میں سے 63کتب کے    سالِ اشاعت اور  اُن کے انتساب  درج ذیل ہیں ۔
۔۔۔۔
٭1)نکلے تری تلاش میں(سفرنامہ ۔۔افغانستان ،ترکی ،ایران، یورپ، فرانس )
سفر ۔۔جون، جولائی 1969
اشاعت۔۔1971
نیم لفٹین مبشر کے نام
۔۔۔
٭2)اندلس میں اجنبی
(سفر۔سپین )
سفر ۔۔1969
اشاعت  ۔۔ستمبر1976(التحریر پبلشر لاہور)۔
کیپٹن پائلٹ ساجد نذیر  شہید کے نام

۔۔۔
٭3)خانہ بدوش
(سفر۔سپین، لبنان ،یورپ )
سفر۔۔1975
اشاعت۔۔ اگست 1983
اباجی کے لیے جو میری پہچان ہیں
(چوہدری رحمت خان تارڑ)
۔۔۔
٭4)ہنزہ داستان
سفر ۔۔1984
1985اشاعت۔۔
امی جان کے لیے
۔۔۔
٭5)کےٹو کہانی
سفر ۔۔1993
اشاعت ۔۔1994
امی جی ابا جی
آپ کے جانے کے بعد
میری کمر پر کوئی تھپکی نہیں دیتا۔
مجھے کوئی بےوجہ دعائیں نہیں دیتا۔

۔۔۔۔
٭6)پیار کا پہلا شہر(1975)
میمونہ کے نام

۔۔۔۔
٭7)پرندے(1984)۔
سلجوق،سُمیر اور قرۃ العین مستنصر کے نام

۔۔۔۔۔
٭8)چک چک(2003)۔
سلجوق کے نام
۔۔۔۔
٭9)راکھ( ایوارڈیافتہ1997)۔
سُمیر تارڑ کے نام
۔۔۔
٭10)دیوسائی
سفر۔۔1997
اشاعت ۔۔2003
لاڈو بیٹی عینی کے نام
۔۔۔
٭11)برفیلی بلندیاں۔( تلتر جھیل،پگوڈا ٹریک(سفر 2000)، درۂ گندگورو،لیلیٰ پیک ٹریک (2001)
اشاعت۔2001
سلجوق اور رابعہ کے نام

۔۔۔
٭12)پُتلی پیکنگ کی
2003سفر۔۔
اشاعت ۔۔2009
عینی اور بلال کے نا م
۔۔۔
٭13)سُنہری اُلو کا شہر
( سفرِ   ہندوستان  )
سفر ۔۔1965۔ 2004
2005اشاعت۔۔
اپنےنواسےنوفل اور پوتی مشال کے نام
۔۔۔
٭14)مورت(1990)۔
زبیرحسین  تارڑ  کے لیے
جو میرے لیے اب بھی
: چھوٹا  ببو ہے
۔۔۔۔
٭15)گزارا نہیں ہوتا(1987)۔
برادرِعزیز نیاز احمد کے لیے
۔۔۔
٭16)جپسی(1987)۔
اعجاز احمد کے نام
۔۔۔
٭17)چترال داستان
سفر۔۔1994
اشاعت۔۔ 2004
اعجاز احمد کے لیے

۔۔۔
٭18)شمشال بےمثال
سفر۔۔1998
اشاعت۔۔2002 
 پیارے افضال احمد کے نام
۔۔۔
٭19)اےغزالِ شب(2010)۔
نیاز احمد کے نام


۔۔۔۔
٭20)ہزاروں ہیں شکوے(1998)۔
شفیق الرحمٰن کے نام
۔۔۔
٭21)یاک سرائے
سفر ۔۔1987۔۔1995
اشاعت ۔۔1997
احمد داؤد کے نام
۔۔۔۔
٭22)سفر شمال کے
سفر۔۔1988۔۔1989
اشاعت ۔۔1991
پسّو کے ماسڑ حقیقت کے نام
۔۔۔
٭23)سنو لیک( بیافو ہسپر دنیا کے طویل ترین برفانی راستے پر سفر کی داستان )۔
سفر۔۔1996
اشاعت ۔۔2000
تلمیذ حقانی کے نام
۔۔۔۔
٭24)الاسکا ہائی وے
سفر ۔۔ستمبر 2006
اشاعت ۔۔2011
 چنار کے ایک خزاں رسیدہ پتے کے نام
کُونج کے نام جو میری سفری رفیق تھی
اور
 یار ِبےمثال تلمیذحقانی کے نام
۔۔۔۔
٭25)نیپال نگری
سفر مارچ۔۔ 1998
اشاعت 1999
گندھارا کے مہاتمابدھ کے نام

۔۔۔۔
٭26)تارڑ نامہ 2۔ 
محمد خالد اختر کے نام
۔۔۔
٭27)تارڑنامہ 3۔
کرنل محمد خاں کے نام 
۔۔۔
٭28)الو ہمارے بھائی  ہیں(2007)۔
 دنیا بھر کے الوؤں کے نام
۔۔۔
٭29)کالاش (وادی کافرستان کا ڈرامائی سفرنامہ) ۔
اشاعت۔۔2005
کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
  یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
      (اقبال ساجد)      
۔۔۔۔
٭30)شہپر(ٹیلی کہانی)
پاکستان ائیرفورس کے نام
۔۔۔۔
٭31)فاختہ1974۔
(ادبی جریدہ ’’اوراق میں’’جشن کی رات‘‘ کے عنوان سے اشاعت  اور پھر  اس  افسانے کو ایک ناولٹ ’’فاختہ‘‘ کی شکل دی)

۔۔۔۔۔
٭32)پکھیرو۔ پنجابی ناول
اشاعت۔۔1976








۔۔۔۔۔
٭33)نانگا پربت
سفر۔۔ 1986۔1989
اشاعت۔۔ 1991


۔۔۔۔۔
٭34)بہاؤ1990۔

۔۔۔۔۔
٭35)دیس ہوئے پردیس1994۔
۔۔۔۔
  ٭36)رتی گلی
سفر۔۔1963،1956 ،2003
اشاعت۔۔ 2005

۔۔۔۔۔
٭37)منہ ول کعبہ شریف
سفر۔۔ فروری  2003
اشاعت۔2006












۔۔۔۔۔
٭38)غارِحرا میں ایک رات
سفر ستمبر 2004
اشاعت 2006

۔۔۔۔
٭39)قلعہ جنگی2008۔












۔۔۔۔۔
٭40)قربتِ مرگ میں محبت(2001)۔

۔۔۔۔
٭41)ماسکو کی سفید راتیں
سفر ۔1957۔۔مئی 2007
اشاعت۔۔2009


۔۔۔۔
٭42)خس وخاشاک زمانے(2010)۔

۔۔۔۔
٭43)ہیلو ہالینڈ
ہالینڈ کی سفرِداستان۔۔۔نومبر،1956،1969،2010
اشاعت ۔۔2011

۔۔۔۔
٭44) ڈاکیا اور جولاہا2012     ۔

۔۔۔۔
٭45)لاہور سے یارقند تک
سفر۔۔ 2013
اشاعت ۔۔2014




۔۔۔۔
٭46)امریکہ کے سو رنگ
سفر۔۔ 2012 
آخری صفحہ ،آخری لفظ ۔۔25 نومبر
 اشاعت۔۔(اگست2015)۔

۔۔۔۔
٭47)آسٹریلیا آوارگی
سفر۔۔ روانگی ۔اپریل 2014
 اشاعت۔۔(اگست 2015)۔

۔۔۔۔
٭48)راکاپوشی نگر
سفر۔۔2013
 اشاعت۔۔(اگست2015   )۔

۔۔۔۔
٭49)اور سندھ بہتا رہا
سفر ۔۔2015 
 اشاعت۔۔(2016)۔

۔۔۔۔
٭50)لاہورآوارگی(2017)۔
۔۔۔۔
٭51)۔حراموش ناقابلَ فراموش۔
 سفر ۔جولائی 2016
 اشاعت۔(2017)
 
۔۔۔۔
٭52)پیار کا پہلا پنجاب(جنوری 2017)۔
۔۔۔۔
٭53)منطِق الطیر،جدید(اکتوبر 2018)۔


۔۔۔۔۔
٭54)صنم کدہ کمبوڈیا 
سفر  ۔۔2018
اشاعت۔۔ مارچ 2020
۔۔۔۔
٭55)ویت نام تیرےنام

سفر۔۔ جون2018 
اشاعت۔۔مارچ 2020
 
۔۔۔۔۔
٭56)تارڑ نامہ(7)۔
 اشاعت۔ اگست 2020

۔۔۔۔
٭57)جوکالیاں  (جوکالیاں ۔ ٹلہ جوگیاں۔ سٹوپوں کا شہر سوات، پنجاب کا واٹرلُو چیلیانوالہ اور جوکالیاں)۔
اشاعت۔۔ دسمبر 2020
۔۔۔۔
 ٭58) کیوبا کہانی(دبئی،امریکہ،میکسیکو اور کیوبا کے سفر)
سفر۔۔2019
اشاعت۔۔ اگست 2021
۔۔۔۔
٭ 59) لاہور دیوانگی( گوجرانوالہ۔دانا باد۔ہڑپہ۔کرتار پور،۔کنگا پور اور بھگت سنگھ کا گاؤں)۔
 اشاعت۔۔ نومبر2021
۔۔۔
٭ 60) میں بھنًاں دِلًی دے کِنگرے ( بھگت سنگھ بارے اِک ناول )۔( پنجابی ناول)
اشاعت دسمبر 2022

۔۔۔۔۔
٭ 61)نیلو نیل نیدرلینڈ
اشاعت۔۔ مئی 2024
۔۔۔۔۔
٭ 62)پشاور آوارگی
اشاعت۔۔  دسمبر 2024
۔۔۔۔۔
٭63) پیرس میں ایک دن
اشاعت۔۔   مارچ 2025
۔۔۔۔۔
 ٭ 

۔۔۔۔۔

"ایک زرداری سب پہ بھاری"

گو ہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغرومینا مِرے آگے آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔8ستمب...