"ہلدی اور میں"
تین جنوری 2016 ۔۔۔ شام کہانی
مٹی کے ساتھ کھیلتے ہوئے ہلدی نکالنا ایک بہت زبردست احساس ہےخاص طور پر جب مٹی صاف کرتے کرتے شفاف پیلے رنگ کی بےداغ ہلدی مسکراتی ہے۔ مٹی سے ملنے والی اس خوشی میں بس بچوں اور بڑے کا فرق ہے۔بچوں کی ایسی خوشیاں اچھی لگتی ہیں۔۔۔وہ سنا نہیں داغ تو اچھے ہوتے ہیں،اور بڑوں کی بچکانہ پن۔ کل دسمبر کی بادلوں بھری اداس شام میں مٹی سے باتیں کرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک خاصا ناقابلِ عمل لیکن بہت خوبصورت خیال آیا کہ اگر کبھی زندگی میں کسی بھی ایک فصل کا اختیار مل جائےجسے لگانے اور نکالنے کی ذمہ داری میری ہو تو وہ "ہلدی" ہی ہو گی۔۔۔۔ناقابلِ عمل اس لیے کہ زندگی کب ہمارے مرضی سے گذرتی ہے اور جب کبھی اسےگزارنے کا اختیار ملنےکا امکان پیدا ہو جائے تو اسی لمحے زندگی کی مہلت ختم ہونے لگتی ہے بالکل اُسی طرح جیسے کسی طالبِ علم کو امتحانی پرچہ حل کرتے ہوئے عین آخری لمحوں میں کسی مشکل سوال کا جواب یاد آ جائے۔۔۔جیسے جاں بلب کو سانس کی ڈور ٹوٹنے کے نازک لمحے کوئی ذرا دیر کو تھام لے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم لمحۂ موجود میں ہر خواب لمحے اور خوشبو احساس کی قدر سے انجان بن جائیں۔ خوابوں کو آنکھوں میں اترنے ضرور دیں لیکن دل کو ان کے سرابِ نظر میں غافل نہ ہونے دیں۔ خوبصورت یوں کہ جو خیال آپ کے دل کو چھو جائے اور آپ اس کی گہرائی محسوس کر کے دل ہی دل میں مسکرانے پر مجبور ہوجائیں تو زندگی میں اور کیا چاہیے۔
خیال رہے اس "خیال " میں افادیت، محنت، محبت،لذت،قیمت اور بہت سے فائدے ہیں۔۔۔۔
بقول محاورہ کہ " ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ آئے چوکھا"۔
۔۔۔۔۔۔
گیارہ جنوری 2016۔۔۔
"ایک ناقابلِ یقین یقین "۔۔۔ جو مجھےخود بھی نہیں آرہا۔
ہلدی صاف کر کے کچھ دیر ابالی پھر چند روز بعد اسے کدوکش کر کے دھوپ میں سکھانے رکھ دیا ( ہلدی سُکھانے کے لیے "کدودکش" کرنے کا طریقہ سراسر میری اختراع ہے اس طرح ایک تو جلدی سوکھتی ہےکہ اس موسم کی دھوپ بھی نام ہی کی ہوتی ہےاور یہ بھی کہ بعد میں پیسنے میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔اس بار اگلے روز ہی بادل اور پھر بارش شروع ہو گئی تو ہلدی خراب ہونے کے ڈر سے اس کی ٹرے کو ہیٹر کے سامنے رکھنا پڑا،اس کے بعد چند روز دھوپ میں سکھائی۔ آج شام تک خشک ہو گئی تو پیسنے لگی۔لیکن یہ کیا! وہ توبالکل سرخ رنگ کی ہوتی چلی گئی۔سوکھنے میں سرخی نظر تو آتی تھی لیکن پہلے کبھی بھی ایسا نہ دیکھا کہ ہلدی سرخ رنگ کی ہو۔ ابھی گرم دودھ میں ڈال کر رنگ دیکھا تو اس میں کچھ فرق نہیں تھا۔ اور دودھ کا رنگ پیلا ہی تھا۔
زمین سےنکالنے سے لے کر کدوکش کرنے اور پیسنے تک میرے ہاتھ کا لمس اس میں شامل ہے۔ستم یہ ہے کہ میرے علاوہ اسے کوئی اتنے شوق سے اپناتا بھی تو نہیں۔ سب کے لیے وہی عام سی۔ اور میرے لیے بہت خاص۔ ابھی کچھ دیر پہلے پیسنے کے بعد میں نے آدھا کپ گرم دودھ میں آدھا چائے کا چمچ ملا کر پی تو بغیر چینی یا شہد ڈالےذائقہ بھی اچھا تھا۔
آخری بات ۔۔
محبت کا لمس ۔۔کبھی کسی بےجان کو لمحہ بھر کا لمس باغ وبہار بنا دیتا ہے تو کبھی کوئی زندگی بخش احساس ناقدری کے گہن سے بےرنگ ہو کر رہ جاتا ہے۔
مٹی کے ساتھ کھیلتے ہوئے ہلدی نکالنا ایک بہت زبردست احساس ہےخاص طور پر جب مٹی صاف کرتے کرتے شفاف پیلے رنگ کی بےداغ ہلدی مسکراتی ہے۔ مٹی سے ملنے والی اس خوشی میں بس بچوں اور بڑے کا فرق ہے۔بچوں کی ایسی خوشیاں اچھی لگتی ہیں۔۔۔وہ سنا نہیں داغ تو اچھے ہوتے ہیں،اور بڑوں کی بچکانہ پن۔ کل دسمبر کی بادلوں بھری اداس شام میں مٹی سے باتیں کرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک خاصا ناقابلِ عمل لیکن بہت خوبصورت خیال آیا کہ اگر کبھی زندگی میں کسی بھی ایک فصل کا اختیار مل جائےجسے لگانے اور نکالنے کی ذمہ داری میری ہو تو وہ "ہلدی" ہی ہو گی۔۔۔۔ناقابلِ عمل اس لیے کہ زندگی کب ہمارے مرضی سے گذرتی ہے اور جب کبھی اسےگزارنے کا اختیار ملنےکا امکان پیدا ہو جائے تو اسی لمحے زندگی کی مہلت ختم ہونے لگتی ہے بالکل اُسی طرح جیسے کسی طالبِ علم کو امتحانی پرچہ حل کرتے ہوئے عین آخری لمحوں میں کسی مشکل سوال کا جواب یاد آ جائے۔۔۔جیسے جاں بلب کو سانس کی ڈور ٹوٹنے کے نازک لمحے کوئی ذرا دیر کو تھام لے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم لمحۂ موجود میں ہر خواب لمحے اور خوشبو احساس کی قدر سے انجان بن جائیں۔ خوابوں کو آنکھوں میں اترنے ضرور دیں لیکن دل کو ان کے سرابِ نظر میں غافل نہ ہونے دیں۔ خوبصورت یوں کہ جو خیال آپ کے دل کو چھو جائے اور آپ اس کی گہرائی محسوس کر کے دل ہی دل میں مسکرانے پر مجبور ہوجائیں تو زندگی میں اور کیا چاہیے۔
خیال رہے اس "خیال " میں افادیت، محنت، محبت،لذت،قیمت اور بہت سے فائدے ہیں۔۔۔۔
بقول محاورہ کہ " ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ آئے چوکھا"۔
۔۔۔۔۔۔
گیارہ جنوری 2016۔۔۔
"ایک ناقابلِ یقین یقین "۔۔۔ جو مجھےخود بھی نہیں آرہا۔
ہلدی صاف کر کے کچھ دیر ابالی پھر چند روز بعد اسے کدوکش کر کے دھوپ میں سکھانے رکھ دیا ( ہلدی سُکھانے کے لیے "کدودکش" کرنے کا طریقہ سراسر میری اختراع ہے اس طرح ایک تو جلدی سوکھتی ہےکہ اس موسم کی دھوپ بھی نام ہی کی ہوتی ہےاور یہ بھی کہ بعد میں پیسنے میں بھی آسانی ہو جاتی ہے۔اس بار اگلے روز ہی بادل اور پھر بارش شروع ہو گئی تو ہلدی خراب ہونے کے ڈر سے اس کی ٹرے کو ہیٹر کے سامنے رکھنا پڑا،اس کے بعد چند روز دھوپ میں سکھائی۔ آج شام تک خشک ہو گئی تو پیسنے لگی۔لیکن یہ کیا! وہ توبالکل سرخ رنگ کی ہوتی چلی گئی۔سوکھنے میں سرخی نظر تو آتی تھی لیکن پہلے کبھی بھی ایسا نہ دیکھا کہ ہلدی سرخ رنگ کی ہو۔ ابھی گرم دودھ میں ڈال کر رنگ دیکھا تو اس میں کچھ فرق نہیں تھا۔ اور دودھ کا رنگ پیلا ہی تھا۔
زمین سےنکالنے سے لے کر کدوکش کرنے اور پیسنے تک میرے ہاتھ کا لمس اس میں شامل ہے۔ستم یہ ہے کہ میرے علاوہ اسے کوئی اتنے شوق سے اپناتا بھی تو نہیں۔ سب کے لیے وہی عام سی۔ اور میرے لیے بہت خاص۔ ابھی کچھ دیر پہلے پیسنے کے بعد میں نے آدھا کپ گرم دودھ میں آدھا چائے کا چمچ ملا کر پی تو بغیر چینی یا شہد ڈالےذائقہ بھی اچھا تھا۔
آخری بات ۔۔
محبت کا لمس ۔۔کبھی کسی بےجان کو لمحہ بھر کا لمس باغ وبہار بنا دیتا ہے تو کبھی کوئی زندگی بخش احساس ناقدری کے گہن سے بےرنگ ہو کر رہ جاتا ہے۔
پچھلے سال کی پیلی اور اس سال کی سرخ ہلدی...
پچھلے سال کی پیلی اور اس سال کی سرخ ہلدی...
“محبت کا لمس ۔۔کبھی کسی بےجان کو لمحہ بھر کا لمس باغ وبہار بنا دیتا ہے “
جواب دیںحذف کریںبہت خوبصورت بات ھے بس اس میں اپنا ایک تاثر دینا چاھوں گا۔۔۔۔ محبت کا لمس ھر شہ کو جاودانی عطا کر دیتا ھے۔۔۔۔ اور نفرت کی اک نگاہ متحرک اور زندہ شہ کو بھی بھسم کر دیتی ھے۔۔۔۔ محبت سورج کی کرنوں کی مانند ھے اور نفرت آگ کے شعلوں کی طرح۔۔۔۔۔ دونوں کے لمس میں حدت ھے لیکن دونوں کا اثر بالکل الگ۔۔۔۔۔۔
آپ نے محبت اور نفرت کی بہت اچھی مثال دی ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ محبت ہو یا نفرت سارا کھیل "توازن" کا ہے، جو گر ذرا سا بھی بگڑ جائے تو زندگی بخش ساتھ زندگی چھین بھی لیتا ہے۔
حذف کریںبہت خوب
جواب دیںحذف کریں