اتوار, مارچ 23, 2025

"ایک زرداری سب پہ بھاری"

گو ہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغرومینا مِرے آگے

آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔8ستمبر 2013 کو  جس سفر کا  تزک و احتشام  کے ساتھ اختتام ہوا تھا،عین  دس برس بعد اسی طور آغاز ہوا اور تاحال(23 مارچ2024) پورے زوروشور سے جاری ہے۔اب کوئی  سوشل میڈیا کا ڈھول پیٹے یا کسی بھی صاحب اقتدارکی بینڈ بجا دے،جو "بینڈ باجا بارات" کا سماں وقت کے بہترین اور اعلیٰ ترین نیلام گھر میں دیکھتی آنکھوں نے دیکھا اور سنتے کانوں نے  سماعت  کیا،بےشک وہ سورہ آلِ عمران (3)کی 26 ویں آیت کی مکمل تفسیر تھا۔

آیت 26 ،ترجمہ

تو کہہ اے اللہ، بادشاہی کے مالک! جسے تو چاہتا ہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلطنت چھین لیتا ہے، جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے تو چاہے ذلیل کرتا ہے، سب خوبی تیرے ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

پھر ہم کون ہوتے ہیں صحیح غلط کے فتوے دینے والے۔ ہم اپنی محدود عقلی صلاحیت سے رب کے کام اور اُس کی حکمت کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے۔

لوگوں کے دلوں سے لے کر ان کی قسمتو ں کا فیصلہ کرتے اقتدار کی زندگی گزارنے کا ڈھنگ صرف اور  صرف دماغ کا کھیل ہے۔ ویسے تو  دنیا کی زندگی میں ہر ہر مقام  اور  ہر ہر  محاذ پر  کامیابی بہترین منصوبہ بندی کے بغير ممکن نہیں لیکن کچھ لوگ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں کہ  مٹی میں ہاتھ ڈالیں سونا بن جائے   تو کچھ  جہاں سونے کا نوَالہ لے کر پیدا ہوتے ہیں وہیں اس کی لذت اُن کے جینز میں  ایسی منتقل  ہوتی ہے کہ  اس  خمار آلود کیفیت میں  نسلیں گزرتی چلی جاتی ہیں۔ کچھ  ایسے بھی، مقناطیسی شخصیت کے مالک کہ  کیا جنس کا لوہ چون ،ہوا میں موجود دوسرے مادوں سے بنے ذرات بھی ایک عالم بےخودی میں کھنچے چلے آئیں۔جگ میں نام مقام حاصل کرتے ہیں۔سورج کی روشنی کی طرح بلا تخصیص ،کیا اپنا کیا پرایا، کیا دوست کیا دشمن  سب کو اپنےحصار میں لے کر دم بخود کرنے کی صلاحیت کے حامل۔بجا کہ یہ  خوش قسمت ترین ہونے کے زمرے میں تو آتے ہیں لیکن ان کی اپنی ذاتی محنت اور خداداد صلاحیت سے بھی انکار نہیں۔ کیا کہا جائے کہ قسمت کے اُلٹ پھیر یا زندگی کے اُتار چڑھاؤ میں یہ چڑھتا سورج ہی ثابت ہوتے ہیں۔ جس طرح کائناتِ دنیا  میں یکتا  سورج کتنا ہی ضروری  کتنا ہی روشن کیوں نہ  ہو اس کی قسمت میں ڈھلنا اٹل ہے۔ اسی طور وقت کا بےرحم پہیا جب گردش میں آتا ہے تو جانے ان جانے کےبےضرر ذاتی طور طریقوں، احبابِ اور لباس کے چناؤ میں لمحوں کی معمولی غلطیاں بسا اوقات خلقت کے سامنے یوں برہنہ کر دیتی ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانکنے کاحوصلہ بھی نہیں رہتا، خواہ ساری دنیا ساتھ ہو، ساتھ رہنے کے نعرے اور  وعدے ہی کیوں نہ کر رہی ہولیکن  تخت سے تختہ  تک کے سفر میں سورج سمان وہ تنہا شخص  آگے کنواں پیچھے کھائی کے مصداق وقت کے رحم و کرم کا منتظر ہی رہتا ہے۔

منسلک بلاگ۔۔

"٭1)"بےنظیر، واہ زرداری، آہ زرداری

اشاعت ۔پیر, 8ستمبر , 2013

٭2) "نظر لگ گئی"۔

اشاعت۔۔بدھ 8 مئی۔2013

حرف آخر

   حاکمیت کا یہ  میوزیکل کھیل  برسوں سے جاری ہے. ہم بےنام عام عوام اس تماشائے اقتدار کا ایندھن  ہی کیوں نہ ہوں لیکن تماشائی  ہونے کا شرف  ہم سے  کوئی بھی نہیں چھین  سکتا۔کس کی ہار اور  کس کی جیت  سب تاریخ کے اوراق  میں ثبت ہے۔ہم بحیثیت قوم اگر ہارتے بھی جا رہے ہیں تو جیتے وہ بھی نہیں۔

سقوط پاکستان (1971)کے پس منظر میں جناب احمدفراز کی لکھی نظم آج تقریباً 55 برس بعد بھی ہمارے حسبِ حال ہے۔

"اب کس کا جشن مناتے ہو از احمد فراز" اب کس کا جشن مناتے ہو، اس دیس کا جو تقسیم ہوا اب کس کے گیت سناتے ہو، اس تن من کا جو دونیم ہوا اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں کی تقدیر ہوا اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی اس جنگ کو جو تم ہار چکے، اس رسم کا جو جاری بھی نہیں اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہیں اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہا یا تن میں رہا اس پھول کا جو بے قیمت تھا، آنگن میں کھلا یا بن میں رہا اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی، مرہم سمجھا اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا، کم سمجھا ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں کیں یا ان مظلوموں کا جس سے خنجر کی زباں میں باتیں کیں اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں اس عیسیٰ کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غم خواروں میں ان نوحہ گروں کا جس نے ہمیں خود قتل کیا خود روتے ہیں ایسے بھی کہیں دم ساز ہوئے، ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سر بازار کریں یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے یا ان بے بس لاچاروں کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں کیوں ننگ وطن کی بات کرو، کیا رکھا ہے اس قصے میں آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو، ہونٹوں میں وفا کے بول لیے اس جشن میں میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرا کشکول لیے

"ایک زرداری سب پہ بھاری"

گو ہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغرومینا مِرے آگے آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔8ستمب...