بدھ, جولائی 27, 2016

"ہنزہ کے انمول لمحے"

"ہنزہ کے انمول لمحے"۔۔۔کالم از جاویدچودھری
منگل 26 جولائی2016
بلتت سے خنجراب تک"۔کالم"جاوید چودھری
جمعرات 28 جولائی 2016
صبح کے چار بجے تک "ایگل نیسٹ"میں اندھیرا تھا، میں بالکونی میں بیٹھا تھا، میرے سامنے پہاڑ اندھیرے کی چادر اوڑھ کر لیٹے تھے، آسمان پر گہرا سکوت تھا، وادی میں چیری، سیب، خوبانی اور انجیر کے درختوں کے نیچے دریا بہہ رہا تھا، فضا میں خنکی تھی اور اس خنکی میں گرمیوں کی مٹھاس تھی، چار بج کر پانچ منٹ پر چوٹیاں سفید ہونے لگیں، راکا پوشی نے اندھیرے کے لحاف سے منہ باہر نکالا، دائیں بائیں دیکھا اور پھر دوسری آٹھ چوٹیاں بھی لحافوں سے باہر آنے لگیں۔ ’’لیڈی فنگر‘‘ میری دائیں جانب پیچھے کی طرف تھی، میں نے گردن گھما کر دیکھا، لیڈی فنگر کا سفید کلس بھی اندھیرے کا طلسم توڑ کر باہر آ چکا تھا، اس کے ہمسائے میں برف کا سفید گنبد تھا، اس کی چاندی بھی چمک رہی تھی۔
اب وہاں برف کی چاندی تھی، خنک ہوا تھی، لیڈی فنگر کا سفید کلس تھا، راکاپوشی کے بدن سے سرکتی چادر تھی، انجیر، خوبانی، سیب اور چیری کے درختوں کے نیچے بہتا دریا تھا، دور نگر کی مسجد سے فجر کی نماز کا بلاوا تھا ’’ایگل نیسٹ‘‘ کی بالکونی تھی، ہنزہ کا سویا ہوا قصبہ تھا،ال تت فورٹ کا اداس واچ ٹاور تھا، بلتت فورٹ کے دکھی جھروکے تھے اور وقت میں گھلتا ہوا وقت تھا اور پھر وہ لمحہ آگیا جس کی تلاش میں صدیوں سے لوگ یہاں آ رہے ہیں، ایگل نیسٹ کی ان چٹانوں پر بیٹھ رہے ہیں، رات کو دن میں بدلتے دیکھ رہے ہیں، میں نے کھلی آنکھوں سے راکا پوشی کی چوٹیوں کو سفید ہوتے، پھر اس سفیدی کو سونے میں ڈھلتے اور پھر اس سونے کو چمکتے دیکھا، وہ لمحہ مقدس تھا، انمول تھا، میں نے دوبارہ لیڈی فنگر کی طرف دیکھا، لیڈی فنگر کا بالائی سرا دیے کی جلتی بتی بن چکا تھا اور لیڈی فنگر اب لیڈی فنگر نہیں رہی تھی، وہ موم بتی بن چکی تھی، میرے اندر سے آواز آئی ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ’’بے شک، بے شک‘‘۔
میں جمعہ کی صبح ہنزہ پہنچا، میرا بیٹا شماعیل دو ہفتے پہلے یہاں سے ہو کر آیا تھا، اسلام آباد گلگت فلائیٹ پی آئی اے کی بہت بڑی مہربانی ہے، یہ اس پوشیدہ زمین کا چمکدار دنیا سے واحد فضائی رابطہ ہے، یہ فلائیٹ دنیا کی خوبصورت لیکن خطرناک ترین فضائی روٹ ہے، جہاز گلگت ائیر پورٹ پر لینڈنگ سے پہلے ایسی تکون میں داخل ہوتا ہے جہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے ہیں، یہ جگہ پونجی کہلاتی ہے، اس جگہ ہمالیہ، کوہ ہندو کش اور قراقرم آپس میں ملتے ہیں چنانچہ گلگت کی لینڈنگ دنیا کی خطرناک ترین لینڈنگز میں شمار ہوتی ہے۔
میں گلگت سے گاڑی لے کر ہنزہ روانہ ہوگیا، پاکستان نے چین کی مدد سے حال ہی میں شاہراہ قراقرم دوبارہ تعمیر کی، یہ سڑک انسانی معجزے سے کم نہیں، آپ کو سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑوں کے درمیان موٹروے جیسی رواں سڑک ملتی ہے، یہ سڑک ہنزہ کو گلگت سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر لے آئی ہے، ہمارے بائیں جانب گہرائی میں دریا بہہ رہا تھا، دریا کے اوپر اترائیوں پر کھیت اور باغ تھے، ان کے اوپر سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑ تھے اور ان کے درمیان ماضی کی شاہراہ ریشم اور آج کی قراقرم ہائی وے بہہ رہی تھی۔
میں دو گھنٹے میں ہنزہ پہنچ گیا۔ہنزہ48 دیہات اور قصبوں کی خوبصورت وادی ہے، یہ وادی اسماعیلی کمیونٹی اور طلسماتی حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔
ہنزہ آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے چین کے سفید ہنوں نے آباد کیا اور یہ ہنوں کی وجہ سے ہنزہ کہلایا، دریا کے ایک کنارے پر ہنزہ ہے اور دوسرے کنارے پر نگر۔ یہ دونوں شہر دو بھائیوں کی ملکیت تھے، یہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، یہ پیاس صدیوں تک چلتی رہی، نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں پر حملے کرتے رہے اور ہنزہ کے سپاہی نگر کی کی فصلیں، باغ اور جانور اجاڑتے رہے، یہ دشمنی آج تک قائم ہے، آج بھی نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور ہنزہ کے لوگ نگر کے باسیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں، ہنزہ کے حکمرانوں نے نگر کے حملہ آوروں اور شاہراہ ریشم سے گزرتے قافلوں پر نظر رکھنے کے لیے 1100 سال پہلے دریا کے کنارے خوبصورت قلعہ تعمیر کیا، یہ قلعہ ال تت فورٹ کہلاتا ہے، مقامی زبان میں ال تت اِدھر کو کہتے ہیں اور بلتت اُدھرکو، ال تت کی تعمیر کے تین سو سال بعد بلتت کا قلعہ بھی تعمیر کیا گیا، یہ قلعہ آج بھی وادی کے دوسرے کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں موجود ہے، بادشاہ گرمیوں اور سردیوں کے مطابق اپنی رہائش گاہ تبدیل کرتے رہتے تھے۔
ہنزہ کے بادشاہ میر کہلاتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1972ء میں پہلے نگر کو پاکستان میں شامل کیا گیا اور پھر 1974ء میں ہنزہ بھی پاکستان کا حصہ بن گیا، یہ دونوں شہر اس سے قبل آزاد ریاستیں تھیں، حکومت نے شمولیت کے بدلے نگر اور ہنزہ کے حکمران خاندانوں کو خصوصی مراعات دیں، دونوں کو اسلام آباد میں پانچ پانچ کنال کے پلاٹس، وظیفہ اور خصوصی اسٹیٹس دیا گیا، نگر کے حکمران آہستہ آہستہ کاروباری دنیا میں گم ہو گئے جب کہ ہنزہ کا حکمران خاندان سیاست میں آگیا ، میر غضنفر علی خان اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر ہیں، ان کے صاحبزادے سلیم خان والد کی خالی نشست پر صوبائی اسمبلی کاالیکشن لڑ رہے ہیں، اسلام آباد کی پوش سڑک مارگلہ روڈ پر ہنزہ ہاؤس 30 سال سے گزرنے والوں کو ہنزہ کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے، خاندان کے پاس پرانی کاروں کا خوبصورت بیڑہ بھی ہے، یہ لوگ جب اپنی پرانی قیمتی کاروں میں سڑک پر نکلتے ہیں تو لوگ ان کی سرخ رنگ کی نمبر پلیٹ اور اس پر ہنزہ ون اور ہنزہ ٹو دیکھ کر رک جاتے ہیں، آغا خان فاؤنڈیشن نے ہنزہ میں بےتحاشہ کام کیا۔
فاؤنڈیشن نے پورا ال تت گاؤں دوبارہ بنا دیا، ال تت گاؤں کی پرانی گلیوں اور قدیم ساخت کے مکانوں میں تاریخ بکھری پڑی ہے، ال تت فورٹ کا شکوہ بھی دل میں اتر جاتا ہے، بادشاہ کہاں بیٹھتا تھا، ملکہ کہاں رہتی تھی، درباری کہاں آتے تھے، قیدیوں کو زیر زمین قید خانے میں کس طرح رکھا جاتا تھا، شاہی خاندان کے واش روم کی غلاظت قید خانے میں قیدیوں پر کیوں گرائی جاتی تھی، قیدیوں کو قلعے کی کس دیوار سے پھینک کر سزائے موت دی جاتی تھی اور حملے کے دوران شاہی خاندان کو کس کمرے میں چھپا دیا جاتا تھا اور انھیں کس طرح سرنگ سے گزار کر پانی کے تالاب تک لایا جاتا تھا،یہ ساری کہانیاں ہوش ربا ہیں، ال تت گاؤں کے درمیان تالاب ہے، یہ تالاب گلیشیئر کے ٹھنڈے پانی سے لبالب بھرا تھا، گاؤں کے نوجوان اور بچے تالاب میں نہا رہے تھے، خواتین انگور کی بیلوں کے نیچے بیٹھی تھیں اور بوڑھے تھڑوں پر بیٹھ کر جوانی کے قصے سنا رہے تھے، قلعے کے ساتھ چھوٹا سا گھریلو ریستوران تھا،ریستوران کا سارا اسٹاف خواتین پر مشتمل تھا، یہ خواتین گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں، میں دو گھنٹے ریستوران میں بیٹھا رہا، کھانا تازہ اور دیہاتی تھا، خاتون نے بتایا ریستوران آغا خان فاؤنڈیشن نے بنایا، اسٹاف کو ٹریننگ ’’سرینا‘‘ نے دی اور یہ وادی کا مقبول ترین ریستوران ہے۔
ایگل نیسٹ ہنزہ کا خوبصورت ترین مقام ہے، یہ لیڈی فنگر کے سائے میں انتہائی بلندی پر واقع ہے، یہ جگہ ریٹائرڈ فوجی جوان علی مدد کے پردادا کی تھی، علی مدد نے 1990ء کی دہائی میں اس جگہ ایک کمرہ بنایا اور اس پر ’’ایگل نیسٹ‘‘ لکھ دیا، اس کمرے نے پوری چوٹی کو ’’ایگل نیسٹ‘‘ کا نام دے دیا، یہ ہوٹل اب 41 کمروں کا خوبصورت ’’ریزارٹ‘‘ بن چکا ہے، یہ وادی کی ’’پرائم لوکیشن‘‘ ہے، آپ کو یہاں سے ہنزہ اور نگر کی وادیاں بھی دکھائی دیتی ہیں اور ہنزہ کی گیارہ چوٹیاں بھی، یہ ہوٹل بنانا اور اس ہوٹل کے گرد گاؤں آباد کرنا انسانی معجزہ ہے اور علی مدد اس معجزے کا ’’آرکی ٹیکٹ‘‘ ہے، یہ رات تک اپنے ہوٹل میں اس طرح پھرتا رہتا ہے جس طرح خوش حال دادا اپنی صحت مند آل اولاد کے درمیان خوش خوش پھرتا ہے، علی مدد نے اس مشکل جگہ سڑک بھی پہنچائی،پانی بھی اور زندگی کی دوسری سہولتیں بھی، یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور یہ ہوٹل اب ہنزہ کا ’’آئی کان‘‘ بن چکا ہے۔
دنیا کے خواہ کسی بھی کونے سے کوئی مسافر آئے وہ ’’ایگل نیسٹ‘‘ ضرور پہنچتا ہے، ہوٹل میں کمرہ خوش نصیبی سے ملتا ہے، آپ یہاں سے لیڈی فنگر اور راکا پوشی کے سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں، وہ چٹان بھی ایگل نیسٹ ہوٹل کے ساتھ ہے جہاں سے11 چوٹیاں نظر آتی ہیں، یہ تمام چوٹیاں 6 ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں،یہ دنیا میں اس نوعیت کا واحد مقام ہے، آپ دس منٹ کی کوشش کے بعد دنیا کی اس چھت پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آپ دائرے میں گھوم کر گیارہ برفیلی چوٹیاں دیکھ سکتے ہیں، یہ مقام طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت سیاحوں کی ’’عبادت گاہ‘‘ بن جاتا ہے، لوگ صبح کے وقت یہاں سے سورج کو گیارہ چوٹیوں پر دستک دیتے دیکھتے ہیں۔۔۔
ایگل نیسٹ ہوٹل ہنزہ۔۔۔ طلوعِ صبح
آنکھوں کے سامنے برف پوش چوٹیاں اندھیرے کا نقاب الٹ کر سامنے آتی ہیں، پھر ان کے رخساروں پر سورج کا سنہرا پن اترتا ہے، پھر یہ سنہرا پن چمکنے لگتا ہے اور پھر پوری وادی میں نیا دن طلوع ہو جاتا ہے، یہ جگہ غروب آفتاب کے وقت ایک بار پھر مقدس ہو جاتی ہے، آپ اگر یہاں کھڑے ہوں تو سورج آپ کی نظروں کے سامنے اپنی کرنیں سمیٹے گا اور سونے کے لیے راکا پوشی کے برفیلے غاروں میں گم ہو جائے گا، صبح اور شام ایگل نیسٹ کے دو خوبصورت انمول وقت ہیں، یہ لائف ٹائم تجربہ ہیں اور میں دو دن یہ لائف ٹائم تجربہ کرتا رہا یہاں تک کہ میں کل سوموار کی صبح گلگت آنے سے پہلے بھی بالکونی میں بیٹھ کر راکا پوشی پر صبح صادق کو اترتے دیکھتا رہا، وادی میں اس وقت روحوں کے قہقہے اور فرشتوں کے پروں کی آوازیں آ رہی تھیں اور زندگی وقت کی تال پر رقص کر رہی تھی۔
وہ ایک انمول لمحہ تھا۔
ال تت قلعے سے ہنزہ اور اس کے پہاڑی سلسلے۔
 
بلتت سے خنجراب تک"۔"
بلتت فورٹ ہنزہ کا دوسرا قلعہ ہے، یہ قلعہ شہر کے بالائی حصے میں پہاڑوں کے دامن میں پناہ گزین ہے، آپ کو محل تک پہنچنے کے لیے گلیوں کے اندر چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے اور یہ ہم جیسے شہریوں کے لیے جان جوکھوں کا کام ہے لیکن آپ اگر سانس سنبھال کر محل تک پہنچ جائیں تو آپ کو وہاں مایوسی نہیں ہوتی، محل آپ کو مبہوت کر دیتا ہے، محل کی پچھلی دیوار کے ساتھ ماضی میں گلیشیئر ہوتا تھا، ماضی کے حکمرانوں نے پچھلی دیواروں کے ساتھ قدرتی فریج بنا رکھے تھے، گلیشیئر کی ٹھنڈی ہوائیں برفیلے غاروں سے ہوتی ہوئیں چھوٹے چھوٹے کمروں تک پہنچتی تھیں اور یہ ان کمروں کو فریج کی طرح ٹھنڈا کر دیتی تھیں، میر آف ہنزہ ان کمروں میں کھانے کی اشیا اسٹور کرتے تھے، اس قسم کا ایک کمرہ مین کچن کے ساتھ بھی تھا، میں نے اندرہاتھ ڈال کر دیکھا، وہ آج بھی دوسرے کمروں کی نسبت ٹھنڈا تھا، میر آف ہنزہ کے بیڈ روم میں ایک تنور نما گڑھا تھا، گائیڈ نے بتایا یہ تنور میر کی ’’وائن کیبنٹ‘‘ تھی، بادشاہ یہاں اپنی شراب اسٹور کرتا تھا، یہ ’’تنور‘‘ بھی قدرتی فریج تھا، یہ گرم مشروب کو ٹھنڈا رکھتا تھا، بادشاہ کی نشست کے سامنے ’’ریمپ‘‘ تھا، فریادی اور عوامی نمایندے ریمپ کے آخری سرے پر کھڑے ہوتے تھے۔ 
ریمپ کے نیچے سوراخ تھا، سوراخ پر لکڑی کا دروازہ تھا، فریادی بادشاہ سے مخاطب ہونے سے پہلے دروازہ اٹھا کر سوراخ میں نذرانہ ڈالتا تھا، یہ نذرانہ عموماً گندم، جو اور خشک خوبانیوں کی صورت میں ہوتا تھا، بادشاہ نذرانے کی وصولی کے بعد فریادی کو بولنے کا اشارہ کرتا تھا، ریمپ کے ساتھ پرانے زمانے کے پیمانے رکھے تھے، یہ پیمانے ناپ تول کے کام آتے تھے، بادشاہ بعض اوقات نذرانہ ناپنے اور تولنے کا حکم بھی جاری کر دیتا تھا اگر نذرانہ دینے والی کی استطاعت سے کم ہوتا تھا تو بادشاہ ناراض ہوجاتا تھا یوں فریادی کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑ جاتا تھا،محل کے نیچے بڑے بڑے گودام تھے، یہ نذرانے ان گوداموں میں پہنچ جاتے تھے اور بادشاہ اور اس کے اسٹاف کے کام آتے تھے، ہنزہ کے لوگ اس زمانے میں پتھر کے برتنوں میں کھانا پکاتے تھے، محل کے شاہی باورچی خانے میں قدیم زمانے کے توے، کڑاہیاں اور دیگچیاں رکھی ہیں، یہ پتھر کی بنی ہیں اور یہ پرانے زمانے کے لوگوں کی ہنرمندی کی ضامن ہیں، وہ لوگ کدو کے جگ، گلاس اور صراحیاں بناتے تھے، یہ مارخور اور یاک کے سینگھوں کے پیمانے، کپ اور پیالے بھی تیار کرتے تھے، یہ چیزیں بھی وہاں رکھی ہیں، قلعہ انسانی صناعی کا زندہ ثبوت ہے، یہ انتہائی بلند چٹانوں پر پتھروں اور لکڑیوں کی مدد سے بنایا گیا، قلعے کے ایک طرف وادی ہے۔
یہ وادی قلعے کی چھت سے شاہراہ ریشم تک صاف دکھائی دیتی ہے جب کہ دوسری طرف گلیشیئر اور پہاڑ ہیں چنانچہ یہ قلعہ دونوں طرف سے محفوظ تھا، قلعے کے گرد اونچی نیچی گلیوں میں بلتت کا گاؤں آباد ہے، آغا خان فاؤنڈیشن نے گلیوں، گاؤں اور قلعہ تینوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے، تزئین و آرائش کی اور سیاحوں کے لیے ان میں کشش پیدا کر دی، گلیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی ہیں، دکاندار ان دکانوں میں تازہ پھل، خشک میوہ جات اور ہنزہ کی جڑی بوٹیاں فروخت کرتے ہیں، گھر پرانے اور روایتی ہیں، گلیشیئر کا پانی چھوٹی بڑی نالیوں کے ذریعے تمام محلوں اور گھروں سے گزرتا ہے، لوگ یہ پانی پیتے بھی ہیں اور اس سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں، صحنوں میں انجیر، خوبانی، آلو بخارے اور چیری کے درخت ہیں، چھتوں سے انگور کی بیلیں لٹک رہی ہیں، یہ لوگ کھیتوں میں آلو کاشت کرتے ہیں، ہنزہ کا آلو ہمارے پنجاب کے آلوؤں سے مختلف ہے، گاؤں میں ہنزہ کے روایتی کھانوں کے چند ریستوران بھی ہیں، آپ ان ریستورانوں میں یاک کی پنیر سے بنے کھانے کھا سکتے ہیں، بلتت کے لوگ بہت اچھے، ہنس مکھ اور مہربان ہیں، یہ اپنی دل آویز مسکراہٹ سے آپ کا دل موہ لیتے ہیں۔
خنجراب میری اگلی منزل تھا، یہ پاکستان اور چین کا مشترکہ بارڈر ہے، یہ اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، چاروں طرف برف پوش پہاڑ ہیں، پہاڑوں کے درمیان بے شمار چشمے ہیں، یہ چشمے جمع ہو کر دریا بنتے ہیں اور یہ دریا گلگت کی طرف سفر شروع کردیتا ہے، یہ درہ ہزاروں سال سے برصغیر پاک وہند اور چین کے درمیان زمینی رابطہ ہے، یہ چھ ماہ برف میں دفن رہتا ہے، یہ شدید برفباری کی وجہ سے تین ماہ آمد و رفت کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، چین نے کاشغر سے گلگت تک خوبصورت سڑک بنا کر دونوں ملکوں کو آپس میں جوڑ دیا یوں ماضی کا مشکل سفر حال میں آسان ہو گیا، میں اتوار کی صبح خنجراب روانہ ہوا، ہنزہ سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر عطاء آباد جھیل تھی، یہ قدرتی جھیل جنوری 2010ء میں پورا پہاڑ دریا میں گرنے سے معرض وجود میں آئی، پہاڑ پر عطاء آباد کا اندھیرا گاؤں تھا، گاؤں میں صرف دو گھنٹے کے لیے سورج کی روشنی پڑتی تھی، روشنی کی کمی کی وجہ سے گاؤں کی آبادی بہت کم تھی، یہ گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا لیکن یہ جاتے جاتے جھیل کو عطاء آباد کا نام دے گیا۔

دریا اور گلیشیئروں کے گدلے پانی عطاء آباد پہنچ کر صاف ہو جاتے ہیں، آپ جوں ہی عطاء آباد پہنچتے ہیں، جھیل کا سبز پانی آپ کے قدم روک لیتا ہے اور آپ بے اختیار جھیل کے کنارے رک جاتے ہیں، یہ پانی پانی نہیں شیشہ ہے اور اس شیشے میں پہاڑوں کا عکس پورے منظر کو میلوں تک پھیلی پینٹنگ بنا دیتا ہے، حکومت نے چین کی مدد سے جھیل کے ساتھ ساتھ پانچ ٹنلز بنائیں، سڑک ان ٹنلز کے اندر سے گزرتی ہے، یہ ٹنلزسات کلومیٹر لمبی ہیں اور یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا تجربہ ہے، یہ تجربہ کامیاب رہا، حکومت کو یہ تجربات مستقبل میں بھی جاری رکھنے چاہئیں، ٹنل ٹیکنالوجی پوری دنیا میں عام ہو چکی ہے، ناروے نے دنیا کی پہلی تیرتی ہوئی زیر آب سرنگ بنانے کا اعلان کیا ہے، اس سرنگ کا حجم 4 ہزار فٹ گہرا اور 3ہزار فٹ چوڑا ہو گا، اس سرنگ کی تعمیر سے سفر 21 گھنٹے سے کم ہو کر 11 گھنٹے رہ جائے گا، ہم بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، پورے ملک کو آپس میں جوڑ سکتے ہیں، ہم چوبیس گھنٹوں کے سفر کو آٹھ دس گھنٹوں تک لا سکتے ہیں۔
سست بارڈر پاکستان کا آخری ٹاؤن ہے یہاں امیگریشن اور کسٹم کے دفاتر ہیں، یہ ہنزہ سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے جب کہ خنجراب کے لیے سست سے مزید دو گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے، یوں یہ سفر چار گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے، سست غریبانہ، کم آباد اور گندہ سا گاؤں ہے، حکومت کو اس گاؤں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، کیوں؟ کیونکہ یہ چین کی طرف سے آنے والے مسافروں کے لیے پاکستان کا پہلا تعارف ہے اور ہمیں کم از کم اپنا تعارف ضرور ٹھیک کر لینا چاہیے، پاکستان کا آخری واش روم بھی ’’سست‘‘ میں ہے، یہ سہولت اس کے بعد کسی جگہ موجود نہیں حتیٰ کہ میں نے خنجراب میں سیکڑوں لوگوں، خواتین اور بچوں کو خوار ہوتے دیکھا، یہ غفلت غیر انسانی ہے۔
حکومت کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے، سست سے چڑھائی میں اضافہ ہو جاتا ہے، سڑک بل کھاتی جاتی ہے، اوپر چڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ اس درے میں پہنچ جاتی ہے جو ہزاروں سال طالع آزماؤں، سیاحوں اور تاجروں کی توجہ کا مرکز رہا، یہ درہ شاہراہ ریشم کی گزر گاہ تھا، چین کے پاس ریشم بنانے کا فن تھا، چینیوں نے یہ فن دنیا سے ہزاروں سال خفیہ رکھا، یہ خفیہ طریقے سے ریشم کے کیڑے پالتے تھے، انھیں شہتوت کے پتوں میں ککون بنانے کا موقع دیتے تھے اور آخر میں ککون سے ریشم کا دھاگہ نکال کر اس کا کپڑا بُن لیتے تھے، یہ کپڑا درہ خنجراب پار کر کے دنیا تک پہنچتا تھا، یہ عمل اس وقت تک خفیہ رہا جب تک یورپ کے دو پادری اپنی دستی چھڑیوں میں ریشم کے چند کیڑے چھپا کر چین سے فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہو گئے۔
یہ کیڑے جوں ہی چین سے نکلے دنیا پر ریشم کا راز افشا ہوگیا، ریشمی کپڑا ہزاروں سال اس درے کے ذریعے دنیا تک پہنچتا رہا، ریشم کا راز بھی یہیں سے باہر نکلا، درہ خنجراب قدرت کا خوبصورت معجزہ ہے، آپ جوں ہی درے میں داخل ہوتے ہیں آپ کو چاروں اطراف برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں، پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع وادی ہے، وادی میں درجنوں چشمے بہہ رہے ہیں، یہ چشمے پہاڑوں کی چوٹیوں اور گلیشیئرز سے نکلتے ہیں، وادی کو سڑک دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
خنجراب کے شروع میں پاکستان کی سیکیورٹی پوسٹ ہے، پوسٹ کے ساتھ چین اور پاکستان کے جھنڈے لگے ہیں، پاکستانی پوسٹ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر چین کی پوسٹ ہے، یہ دونوں پوسٹیں دونوں ملکوں کی نفسیات، معیشت اور اعتماد کو ظاہر کرتی ہیں، پاکستانی پوسٹ غریبانہ، شرمیلی اور پریشان حال ہے جب کہ چین کی پوسٹ انتہائی خوبصورت، بااعتماد اور باوقار ہے، چینی پوسٹ کے سامنے ہمارا صرف ایک سپاہی کھڑا تھا جب کہ چین کی طرف 8 آفیسرز لائن میں کھڑے تھے، ہماری سائیڈ پر ایک باریک سی رسی سرحد کی نشاندہی کر رہی تھی، جب کہ چین کی طرف 8 آفیسرز لائن میں کھڑے تھے۔۔۔۔ 
۔

منگل, مارچ 08, 2016

" نظام زندگی"

" نظام زندگی"
کرۂ ارض پر ہزاروں,لاکھوں سالوں سے رواں دواں زندگی قوانینَ قدرت کے اصولوں پر لگی بندھی رفتار سے سفر کرتی چلی جارہی ہے۔ وقت اور ضروریات حالات کو اپنے مطابق ڈھالتے رہے ہیں۔ تمام جمادات ،حیوانات اور نباتات سے لے کر انسان کی ذہنی وفکری تعمیر کے ارتقاء تک کردار بدلتے رہے۔۔۔کہانی کم وبیش وہی پرانی دُہرائی جاتی ہے۔بِگ بینگ سے صورِاسرافیل کے درمیانی عرصے کی کہانی پرغور کیا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ ہر خلق کی ظاہری اور باطنی سطح پر یا فرد اور اقوام میں ایک حد گزرنے کے بعد کوئی نہ کوئی ایسا موڑ ضرور ملتا ہے کہ پچھلے اسباق یکسر مسترد کر کے زندگی کا نئے سرے سے آغاز ہوتا ہے۔ یہ موڑ تعمیری بھی ہوتا ہے ۔۔۔تخریبی بھی اور یا پھر تادیبی بھی۔ ایسے چھوٹے چھوٹے موڑ زندگی کی تازگی اور وسعت کی ترجمانی کرتے ہیں۔
کائنات کا نظام ہو یاہماری زمین کاخالقِ کائنات نے تخلیق کے بعد ایک بار متعین کر دیا سو کر دیا۔ اب اس میں انسان کی طرف سے ردوبدل کی گنجائش قطعاً نہیں اور جب نظام لپیٹا جائے گا وہ یومِ آخر کہلائے گا۔اس نظام میں آفاتِ ارضی وسماوی کے مدوجزر آئیں تو سمندر صحرا میں بدل جاتے ہیں تو کہیں دیوہیکل حیوانی مخلوق ہمیشہ کے لیے صفحۂ ہستی سے ناپید ہو جاتی ہیں۔کبھی عظیم الشان تہذیبیں مٹ گئیں تو کہیں ہنستےبستے شہر یک لخت زمین میں دفن ہو گئے۔وقت کے گزرے پہئیوں کی یہ کہانیاں ہر گھڑی نئی داستان رقم کرتی ہیں۔ ہمیں سبق دیتی ہیں کہ"نظام کبھی نہیں بدلتا انسان بدل جاتے ہیں ". یا یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ نظام ایک مقررہ وقت تک جامد ہے انسان کو فنا ہے۔انسان اپنے حصے کا کام کر کے وقت گزار کر دوسری دُنیا کا مسافر ہو جاتا ہے
۔ہم انسان اس سبق کو  حفظ کرنے میں تو عمر گزار دیتے ہیں  لیکن  سمجھنے سے پھر بھی قاصر رہتے ہیں۔

"کرنیں(9)"

٭بےشک اللہ سب جانتا ہے۔۔۔۔ہم تو اپنے آپ کو بھی نہیں جانتے۔
٭ علم کی انتہا ۔۔۔۔
٭علم کی انتہا حیرت نہیں۔ لیکن اپنی ذات کا علم ہمیں ضرور ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
٭علم کی انتہا حق الیقین کی وہ کیفیت ہے جو دنیا میں آنکھ بند ہونے کے آخری لمحے آنکھ پر وارد ہوتی ہےکہ اس لمحے اندر کی آنکھ کھل جاتی ہے۔اس کیفیت کا بیان پاک کتاب اور احادیث رسول ﷺ سے تو ثابت ہے لیکن فانی انسان۔۔۔۔ جو اس کیفیت کا امین ہے۔ وہ اظہار کی قدرت کھو دیتا ہے۔
۔۔۔۔
٭ہاتھ کی لکیریں "علم" ہیں اور قسمت کا حال اور مستقبل کی پیش گوئی"غیب کا علم" ۔۔۔۔۔ علم کے حصول کے لیے چین تک جانے کی "حدیث" اس امر کی دلیل ہے کہ علم صرف آگہی کا نام ہے اورعلم کے بعد اصل فہم اس پر "عمل" کا ہے جو درست غلط کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور "غیب کا علم " صرف اورصرف اللہ کی صفت ہے ۔ اور ہمارا اس پر ایمان ہے۔
۔۔۔
٭تحریر علم کی غمازی کرتی ہے اور تخلیق عمل کی عکاس ہوتی ہے۔
۔۔۔۔
٭اہم یہ ہے کہ ہماری بہت سی جہت ہیں ہمیں خود کو کسی ایک سمت محدود نہیں کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔
٭راز ِزندگی۔۔۔۔
رازِ زندگی ہے تو فقط یہ کہ جو راز کو پا گیا وہ زندگی سے نکل گیا اور جس نے زندگی کی خواہش کی وہ محرمِ راز نہ بن سکا۔
۔۔۔۔۔
٭ زندگی میں آخری سانس تک کبھی حرفِ آخر نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔
٭اونچی پرواز سے پہلے زمین سے نسبت ختم کرنا پڑتی ہے۔
۔۔۔
٭کھلےآسمان پر پرواز سے طاقت پرواز کا اندازہ ہوتا ہے۔لیکن ! پرندے جتنا جلد گھر لوٹ آئیں اچھا ہے ورنہ ڈار سے بچھڑ کر کہیں کے نہیں رہتے۔
۔۔۔۔۔۔
٭ بے وزنی کی کیفیت تو چاند پر پہنچ کر بھی اپنے اوپر اعتماد سے محروم رکھتی ہے۔
۔۔۔
٭عقل کا صدقہ یہ ہے کہ "کسی کو جاہل سمجھا ہی نہ جائے"۔ اپنی زندگی میں آنے والے ہر کردار اور ہر ایک کی بات میں ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہے۔
۔۔۔۔۔
٭جو دھیمی رفتار سے چلتے ہیں اُن کو ٹھوکر لگنے کی تکلیف بھی کم کم محسوس ہوتی ہے۔
۔۔۔۔
٭سفر چاہے زندگی کا ہو یا دنیا ،فرق صرف اور صرف جانے والے کو پڑتا ہے۔
۔۔۔
٭سفر پر جانے والا اپنی تھکان بتانے کے قابل رہتا ہے اور نہ ہی دکھانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ پیچھے رہنے والے صرف شور ہی مچاتے ہیں لاحاصل اور لایعنی۔
۔۔۔۔
٭لاحاصل آسمانوں کے خواب دیکھنے والے زمینی حقائق کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭ دل سے نکلی بات روح پر دستک دیتی ہے۔
۔۔۔۔
٭ بڑی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتیں بہت بڑے بڑے راز افشا کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭ اپنی جہالت کا اعتراف علم کی راہ کی پہلی سیڑھی ہے۔
۔۔۔
٭ جتنی جستجو کسی شے کی کی جائے اتنی ہی ناکامی اس کےحصول اوراتنی ہی نا مکمل تسکین اس کے قرب سے ملتی ہے۔ زندگی میں بس جو ملتا ہے چپ چاپ لے لینا چاہیے۔
۔۔۔۔
٭ یہ حُسنِ نظر ہی  توہے جو اپنی نگاہ ِآئینہ ساز سے معمولی سے آئینوں کو جگمگا دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔
انسان جتنا متاثر ہوتا ہے اتنا ہی ناکام رہتا ہے۔اس لیے کسی کے پاس جاؤ تو بِناکسی احساس کے جاؤ۔ قدم خود ہی رک جاتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭سچے رشتے،لازوال تعلق
مکمل تنہائی،لامحدود وقت اور بھرپور توجہ چاہتے ہیں
یہ رشتے چا ہے انسانوں سے ہوں یا
۔"اللہ" سے۔
۔۔۔۔
٭مٹی کا بنا فانی انسان جب تک مٹی کی بےجان چیزوں سےقربت محسوس نہیں کرے گاوہ کیونکر اپنی گہرائی محسوس کر سکے گا۔
۔۔۔۔۔
٭ انسان تو ہے ہی خسارے کا سوداگر اس کی تصدیق کلامِ پاک میں مل چکی بس اسے سمجھتے ہوئے اس پر غور کرتے ہوئےآگے بڑھنا زندگی برتنے کا اصل قرینہ ہے بجائےاس کےاپنی کم علمی یا نااہلی پر افسوس کرتے اپنے احساس کی بزدلی میں منجمد رہتے زندگی گزار دی جائے۔
۔۔۔۔
٭ان خودساختہ عقل مندوں اور ہوس پرستوں سے ہم بےوقوف ہی بھلے جو محبت کرتے ہیں تو اسے چھوڑنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔
٭سنی سنائی پر یقین کرنے والوں کو بدگمان کہتے ہیں۔
۔۔۔۔
کسی  کو دی گئی دعا ہو یا بددعا ایسی سرگوشی ہے جو دل  کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتی  ہے تو بازگشت بن کر اپنی ہی روح کو اجالتی ہے اور یا پھر ہمیشہ کے
 لیے مایوسی کے پاتال میں دھکیل دیتی ہے۔
 دعااور بددعا وہ آخری ہتھیار  ہیں  میدانِ دُنیا میں جیتنے کے سارے حربے ناکام ہونے کے بعد ہمارے احساس کی مُٹھی میں اُترتے ہیں۔یہ تاش کے وہ پتے ہیں جو ساری چالیں چلنے کے بعد ہمارے ہاتھ میں بچتے ہیں۔کہا جاتا ہےکہ دعا یقین کے ساتھ مانگی جائے تو معجزے رونما ہوتے ہیں ۔دراصل معجزے تو تقدیرِالٰہی میں لکھے جا چکے ہوتے ہیں بس دعا کا وسیلہ درکار ہوتا ہے۔
 بددعائیں لگتی نہیں ہیں بس پیچھا کرتی ہیں۔۔۔دینے والے کا اور سُننے والے کا۔
بددعائیں  وقت کی کمان سے نکلا وہ تیر ہیں  جو پلٹ  جائیں تو دینے والے کی روح وجسم چھید ڈالتی ہیں
۔۔۔۔
٭جس کی جتنی بڑی کمزوری ہے وہ اُس کی اتنی ہی بڑی طاقت بھی ہے۔اور اسی طرح جس کی جو طاقت ہے وہ کسی بھی وقت اتنی ہی بڑی کمزوری میں بدل سکتی ہے۔ طاقت اورکمزوری کا فیصلہ صرف وقت کرتا ہے۔ نامور وہی ہوتے ہیں جو اپنی کمزوری کو طاقت بنا لیتے ہیں۔اور فرعون صفت اپنی ہی طاقت کے بدمست ہاتھی کے پاؤں تلے چیونٹی کی طرح کچلے جاتے ہیں۔
۔۔۔دراصل ہماری کمزوری اور ہماری طاقت دونوں کچھ اس طرح باہم ملی جلی ہوتی ہیں کہ جو ہماری طاقت دکھتی ہے وہ ہماری کسی کمزوری کا عکس ہوتی ہے اور جو ہماری کمزوری ہوتی ہے وہ کسی بھی لمحے ہماری سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے۔اہم بات اور اصل دانائی نہ صرف اپنی طاقت اور کمزوری کا ادراک ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس خاص نظر سے دیکھنے کی اہلیت کا نام ہے۔یہی وہ معمولی سا فرق ہے جو ظاہر اور باطن کی آنکھ کا فرق نمایاں کرتا ہے۔ جیسے کہ ہماری پاک کتاب میں کئی جگہ کہا گیا " تم دیکھتے کیوں نہیں"۔
۔۔۔۔۔۔

٭"مٹی ،رزق اور سفر"۔۔۔ سفر انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔   انسان سمجھتا ہے کہ   یا تو  حالات اُسے ہجرت پر مجبور کر دیتے ہیں     یا   وہ اپنی مرضی سے، باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے  سفر  پر روانہ ہوتا ہے۔کبھی  وہ  زندگی کی لگی بندھی  رفتار سے  اُکتا کر بس     ہوا کے بےپروا جھونکوں کی مانند  اُڑنا چاہتا ہے۔  ایسا ہرگز نہیں۔   سفر صرف "بلاوا " ہے،  جسم کا بلاوا۔۔۔ اُس  مقام کی "مِٹی" اور اُس جگہ کے "رزق"  کا۔ جو اُسے  اپنی  جانب  بلاتا ہے تو  اپنے پاس روک بھی لیتا ہے۔ رزق   وقت کے دائرے میں شانت کر کے واپسی کی راہ  دِکھاتا ہے تو مٹی اپنی آغوش میں چھپا کر ہر نقش مٹا دیتی ہے ۔ رزق  صرف روزی ، روزگار،کھانے پینے کاہی نام نہیں۔ رزق  علم ہے تو تجربہ بھی۔رزق خوشی ہے تو سکون کا احساس بھی  ہے۔ رزق پانے کا نام ہے۔رزق سیرابی کی کیفیت ہے۔ 

۔۔۔۔

٭"ہجرت”محض ایک عمل ہی نہیں،ایک بہت بڑا انسانی رویہ ہےچاہے اپنی رضا سے ہی کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ہجرت ابتدائی طور پر انسان  کا اعتماد صفرکر دیتی ہےجب اسے نئی جگہ نئے ماحول میں قدم قدم پر سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

٭دیکھنے والی آنکھ وہی منظر دیکھتی ہے جو اس کی آنکھ کے دائرے میں گردش کرتا ہے۔
۔۔۔
٭ ہم وہی دیکھتے ہیں جو نظر آتا ہےاور پھر وہی کہتے ہیں جو نوشتۂ دیوار دکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔ 
٭انسان ہمیں کچھ بھی نہیں دے سکتے لیکن جو بھی ملتا ہے انسان کے وسیلے سے ملتا ہے۔اکثر دینے والا خود بھی نہیں جانتا کہ کیا دے رہا ہے اور کیوں دے رہا ہے۔
۔۔۔
٭اپنی مایوسی اور کمزوری کوصبر کا نام دے کر محض وقتی تسلی مل سکتی ہے لیکن صبر کے اصل مفہوم کو جان کر ہی شکر کے سکون کی لذت حاصل ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔
٭محبوب کے ساتھ کا ایک پل ہی کافی ہے چہ جائیکہ ہم اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشوں کا کاسہ دراز کرتے چلے جائیں۔
۔۔۔
٭علم ڈگری میں نہیں اور نا ہی ڈگری سے علم ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔
٭اپنی نظر میں اپنی پہچان اہم ہے دوسرے کبھی بھی ہمیں مکمل طور پر جان نہیں سکتے۔
۔۔۔۔۔۔ 
٭اندر کا موسم اچھا ہو تو باہر کے موسم بھی اچھے لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔

٭خوبصورتی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک بامعنی نہ ہو۔اور معنی ہر ایک پر اس کے ظرف کے مطابق اترتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭اصل خوبصورتی دیکھنے والی آنکھ میں ہے منظر میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔ 
٭ محبت پر بات وہی کر سکتا ہے جو محبت کرنے والا ہو چاہے وہ اپنے آپ سے ہی محبت کیوں نہ کرتا ہو۔
۔۔۔۔
٭محبت انسان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہرگز نہیں بلکہ روٹی روزی کی فکر میں صبح وشام کرتے انسان کے لیے یہ ذہنی عیاشی یا مسائل سے فرار کے سوا کچھ بھی نہیں۔
۔۔۔۔
٭ ہم انسانوں کی بےاعتباری کی سب سے بڑی وجہ "غلط فہمی"کے تیزی سے بڑھتے جالوں سے جنم لیتی ہے اور رفتہ رفتہ اپنے حصار میں بری طرح جکڑ کر ہمیں اپنی ذات کے اندر قید کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔
٭ انسانی سوچ دل اور دماغ کے باہم ربط سے تشکیل پاتی ہے۔ دل کی اوّلیت سے انکار نہیں کہ یہ انسان کی جبلتوں،جذبات اور فطرت کی نمائندگی کرتا ہے۔لیکن اہم کام دماغ کا ہے جو اس پر مہرِِتصدیق ثبت کرتا ہے۔اور کسی بھی مہر کے بغیر کوئی وزنی سے وزنی دلیل یا قیمتی سے قیمتی احساس بےمعنی ہے۔
۔۔۔۔
٭جب انسان کو کوئی قطب نما دکھائی نہ دے تو آپ اپنا رہبر بننا پڑتا ہے بجائے اس کے بےسمتی کے کمزورجواز سے اپنے آپ کو بری الذمہ کر کے راہ فرار اختیار کی جائے ۔
۔۔۔۔۔
٭پزل چاہے کھیل کی ہو یا زندگی کی ایک خاص ٹکڑا ہی خالی جگہ بھرتا ہے۔ ذرا سا بھی بڑا یا چھوٹا ہو خواہ کتنا ہی دلکش ہو ہمیشہ مس فٹ ہی رہتا ہے۔ ہر تعلق کی اپنی جگہ ہے، زندگی کی پزل گیم میں ہم ایک ٹکڑا بھی اِدھر سے اُدھر کرنے کے مجاز نہیں۔
۔۔۔۔ 
٭عورت صرف خیال کی اڑان میں ہی تنہا پرواز کر سکتی ہے۔ زمینی حقائق میں وہ اپنے رشتوں کے حصار سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکال سکتی ۔
۔۔۔۔
٭یہ وقت کی طاقت ہے جو ہماے اثاثوں کو دوسروں پر آشکار کرتی ہے ورنہ ہم تو خود بھی نہیں جانتے کہ"ہماری اوقات کیا ہے"۔
۔۔۔۔
٭دُنیا میں کچھ بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ ہر چیز جب لکھ دی گئی ہے تو پھر ہم نے صرف اُس کو اپنی زندگی کی سلیٹ پر نقل کرتے جانا ہے۔ خود سے ردوبدل کر کے تحریر بہتر کرنے یا بدلنے کی خواہش پالنا وقت کا ضیاع ہے۔

پیر, مارچ 07, 2016

"آبرو"


 
سمندر نہیں جانتا
پانی کے قطرے کی قدر
ایک سیپ کب تک
!!!گُہر کی آبرو چاہے

منگل, فروری 23, 2016

" زندگی اور ٹرک آرٹ"


یقین اور بےیقینی کی ناہموار ڈھلانوں پر بےسمت سفر کرتے ہوئے زندگی کا طویل رستہ کبھی کبھی جی ٹی روڈ پر رات کے اندھیرے میں ٹرک کے پیچھے جگمگاتی روشنیوں کی رہنمائی میں نامعلوم منزل کی اؐمید میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے کا ہےاور پھر دن کے اجالے میں اپنی نادانی اور حماقت پر مسکرانے اور جھنجھلانے کا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ وہ روشن چمکتی بتیاں تو محض خاص قسم کے رنگ برنگے کاغذی اسٹیکر تھے جو رات کی تاریکی میں درمیانی فاصلہ خطرناک حد تک کم ہونے کے کسی ممکنہ حادثے سے بچنے کی خاطر چسپاں کیے جاتے ہیں۔ 
آج کے ترقی یافتہ دور کو گلوبل ولیج کہا جاتا ہےجب انسان اپنے گھر کے ایک گوشے میں بیٹھ کر ساری دُنیا گھوم لیتا ہے۔ وقت کے ایک ہی لمحے میں ہزاروں میل بسنے والے چہروں کو نگاہوں سے چھو لیتا ہے۔ آواز سے محسوس کرسکتا ہے اور اپنے دل کی آواز کسی کے دل تک بخوبی پہنچا دیتا ہے۔دورِجدید کی تیزرفتار ٹیکنالوجی کی بدولت زمینی فاصلے صرف خواہش اور وسائل کے محتاج ہیں۔ انسان خواہ ذہنی طور پر کتنا ہی آگے کیوں نہ نکل جائے اسے اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
شیرشاہ سوری کی بنائی گئی جرنیلی سڑک جسے انگریزی میں گرینڈ ٹرنک روڈ یا مختصراً "جی ٹی روڈ" کہا جاتا ہے۔اس کی مخصوص پہچان وہ بھاری بھرکم ٹرک ہیں جو اگر ٹریفک کے بہاؤ میں خلل ڈالتے ہیں تو اپنے رنگوں سے نظروں کو اپنی طرف مائل بھی کرتے ہیں۔چمکتے دمکتے شوخ رنگوں سے سجے ٹرک اگر نئی نویلی دُلہن کی طرح مہکتے ہیں تو وقت کی گرد میں اٹے اُجڑے ٹرک سفرِمسلسل کی کہانی کہتے ملتے ہیں۔گردشِ دوراں اُن کی خوبصورتی نچوڑکرظاہری طور پر بےحیثیت بنا بھی دے لیکن اُن کی قدروقیمت اُن کے چلتے رہنے کی وجہ سے کم نہیں ہوتی۔ایسے بوسیدہ تھکے ہوئے ٹرکوں کی اصل کشش اُن کے عارضی رنگ کی زندگی میں نہیں بلکہ اُن پر موتی کی صورت لکھے لفظ میں ملتی ہے۔ وہ لفظ جو لکھنے والے یا تو اپنی ذہنی استعداد کے مطابق لکھتے ہیں یا پھر اُن سے لکھوائے جاتے ہیں۔
تعلیم وادب کا معیار کسی معاشرے کے مہذب ہونے کی پہلی سیڑھی ہے یہ ٹوٹے پھوٹے بےربط جملے یا بےوزن اور بظاہر عامیانہ اشعار کےلکھنے والے اگرچہ ادب یا اعلیٰ تعلیم سے بےبہرہ ہوتے ہیں لیکن معاشرے میں عام فرد کی ذہنی سطح کی بخوبی ترجمانی کرتے ہیں اور اکثر ان لفظوں اور جملوں کی گہرائی کسی ادب کی کتاب سے بڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کسی بھی لکھنے والے کی خاص ذہنی صلاحیت کو سامنے لاتی ہے تو نامعلوم افراد کی طرف سے لکھے گئے یہ مختصرجملے جو سفر کرتے ہوئے بس کچھ ہی لمحوں کواچانک نظروں کے سامنے آتے ہیں اکثر بہت خاص سبق دے جاتے ہیں۔
" وقت سے پہلے نہیں نصیب سے زیادہ نہیں "
"دیکھ پیارے زندگی ہماری"
"موت سے دوستی سڑک سے یاری"
"ہم تیرے بن جی نہ سکے"
......
٭ٹرک آرٹ (سلائیڈ شو۔۔ایکسپریس نیوز)۔۔۔
۔۔۔
      

ہفتہ, فروری 20, 2016

"جنازہ"

ظہر کے وقت ایک جنازہ اپنے آخری مقام پر روانگی کے لیے تیار تھا۔عجیب اتفاق ہے کہ آج سے تین برس پہلے اسی تاریخ اور اسی وقت گھر کی بنیاد رکھنے والے شراکت دار نے جانے میں پہل کی تھی۔آج سب چھوڑ جانا تھا۔
زندگی کی شام کا سورج ہمیشہ کے لیے ڈوبنے کو تھا۔ دیہاڑی دار مزدور نے اپنے حصے کا کام کر کے خاموشی سے چلے جانا تھا۔وہ مکان جس کے ایک ایک راز سے وہ باخبر رہا خواہ وہ برسوں پہلے بچھائے گئے زمین دوز پائپ ہوں یا برقی قمقموں کی روشنیاں۔ وہ سب کا نگران اور محافظ تھا اور چٹکیوں میں ہر مسئلے کو جان جاتا۔آج اس لمحے اس نے ہر شے سے اجنبی ہو جانا تھا۔یہ محض ایک انسان کی کہانی نہیں،ایک خاندان کی بنیاد رکھنے والے مرد وعورت کی کتھا نہیں بلکہ ہر مشقتی کی داستان بھی ہے۔سڑک بنانے والے محنت کش کی بےبسی ہے تو ہم سب کا فسانۂ زندگی بھی۔
یہ تاریخ تو ہر ماہ آ جاتی ہے اور ظہر سے پہلے کا وقت بھی دن کے چوبیس گھنٹوں میں روز آتا ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی تاریخ،وقت اور مقام پر کوئی ایک خاص لمحہ ہمیشہ کے لیے ٹھہر جاتا ہے۔غور کرنے والے ذہن اور چاہنے والی آنکھ میں وہ منظر یاد کی ایک چھوٹی سے نظر نہ آنے والی قبر بن کر کچی مٹی کی مہک دیتا ہے اور اس لمحے آنکھ کا آنسو اس مٹی کو خشک نہیں ہونے دیتا۔
سنو!!! اگر تم چاہتے ہو کہ اتنے مضبوط ہو جاؤ ۔۔۔اتنےعقل مند ہو جاؤ کہ جانے والوں کی یاد میں کبھی آنکھ نم نہ ہو اورایسی محبتیں جن کے نشان تمہارے جسم وروح پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گئے کبھی یاد نہ آئیں۔تو کبھی اس لمحے اس جگہ نہ جانا جہاں تم آخری بار ملے تھے۔آخری بار تھاما ہاتھ چھوڑا تھا۔۔۔آخری بار الوداع کہا تھا۔۔۔آخری بار نظر نے نظر کو چھوا تھا اور آخری بار یہ وعدہ کیا تھا کہ اب ہم نے زندہ تو رہنا ہے لیکن اپنے اپنے جسم میں اپنی ادھوری روح کے ساتھ۔۔
تم تو چلے گئے لیکن وہ جگہ اس موسم اور اس لمحے نے تمہاری محبت کی ساری تشنگی اپنے اندر اُتارلی۔جان لو!اگر کبھی پلٹنا پڑ گیا تو اپنی بےحسی،بڑے پن یا فہم وفراست سے کچھ نہ کچھ دان کرنا پڑے گا۔اس سمے سمجھداری کا جیسا بھی رین کوٹ پہن لو۔۔۔بن بادل برسات تمہیں اندر باہر سے شرابور کر دے گی۔

پیر, فروری 15, 2016

"ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم "


۔
۔"شکاری" کے خالق معروف لکھاری جناب احمد اقبال کی ایک پراثر تحریر۔۔۔۔
ڈھونڈو گے گر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1987 ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺑﺪﺣﻮﺍﺱ ﺗﮭﺎ ﺟﺘﻨﺎﮨﺮﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔ﺑﺎﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﺳﻮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ کا انتظام کرنا تھا۔جون ایلیا ﻧﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺎ "ﺟﺎﻧﯽ ﺭئیس ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯﭘﻮچھ ،ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺕ ﮨﯿﮟ" رئیسﺍﻣﺮﻭﮨﻮﯼ ﻓﮑﺮِﺳﺨﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﻮ ﺗﮭﮯ۔ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﮯ"ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﺳﺐ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﺎ۔۔ﻻﻟﻮ ﮐﮭﯿﺖ ﺳﭙﺮﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ "ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﺤرِﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻏﻮﻃﮧ ﺯﻥ۔۔۔۔ﺑﮍﯼ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺐ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺭﺍﮦ ﭼﻠﺘﮯﭘﮩﻠﮯﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺎ۔ﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﮯ ﺁﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﻧﺌﮯ ﺑﺎﻭﺭﭼﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﻭﭘﺮ ﻟﭩﮭﮯ ﮐﯽ ﻭﺍﺳﮑﭧ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﺎﺭﺧﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻟﻨﮕﯽ۔ﺳﺘﺮ ﮐﮯ ﭘﯿﭩﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺑﺪﻥ ﺳﺮﺳﯿﺪ ﺧﺎﻥ ﻭﺍﻟﯽ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﻧﺠﺘﯽ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﺁﻭﺍﺯ۔ﻭﮨﯿﮟ ﭘﭩﯽ ﭘﺮ ﭨﮏ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﻣﺪﻋﺎ ﮐﯽ۔ﺭئیس ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﭘﺮ ﻣﺴﮑﺮﺍئے ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﻗﻄﻌﮧ دیکھ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﮯ " ﮔﺮﻡ ﻣﺴﺎﻟﮧ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﺁﺝ۔۔ﮐﮩﮧ ﺩﯾﻨﺎ ۔۔ﺧﯿﺮﻣﯿﺎﮞ۔۔۔ﮐﯿﺎ ﮐﮭﻼؤﮔﮯ ﺑﺎﺭﺍﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ۔ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﮐﺎ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﻧﮯ ﻟﮕﮯ"ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ "۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺐ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺧﻔﮕﯽ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﮯ" ﻣﯿﺎﮞ ﺳﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔۔۔۔۔۔ﻧﺌﯽ ﮔﺎﺟﺮ ﮨﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻭﺍﻟﯽ۔۔ﮐﮭﻮئے ﮐﯽ ﻣﺎﺭ ﺩﻭ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺫﺍﺋﻘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﻮ ﺟﻮ ﺭﮐﮭﻮﮔﮯ ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎئے یہ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ"ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ۔ﺩﯾﮕﺮ ﺍﻣﻮﺭ ﻃﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺑﯿﭩﮭﺎ " ﻣﯿﮟ ﺭئیس ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ۔ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯿﺴﺎ ﭘﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ"۔ﻧﺎﮔﻮﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭﺳﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺮﯼ ﻟﮕﯽ۔۔۔ﺍﻭﺭ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻟﮕﺘﯽ۔۔ﮐﻮﺋﯽ ﻣﮩﺪﯼ ﺣﺴﻦ ﺧﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﺗﻮ ﻣﻞ ﺟائے ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﭖ ﮔﺎﺗﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﯿﮟ۔۔ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ۔ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﻧﮯ ﺭئیس ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺎ ﻟﺤﺎﻅ ﮐﯿﺎ۔ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﺭﺍﺕ ﺑﺎﺭﮦ ﺑﺠﮯ ﮐﺎﻝ ﺑﯿﻞ ﭘﺮﻧﮑﻞ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﻮﺵ ﺳﮯ ﮈﮬﮑﺎ ﺗﮭﺎﻝ لیے ﻣﻮﺟﻮد۔۔۔ﮐﺴﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ سے ﻟﻮﭨﮯ ﺗﮭﮯ۔۔ﺑﻮﻟﮯ"ﻟﻮ ﻣﯿﺎﮞ۔ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮨﻢ ﮐﯿﺴﺎ ﭘﮑﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ"ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺯﻭﮐﯽ ﻣﯿﮟ بیٹھ ﯾﮧ ﺟﺎ ﻭﮦ ﺟﺎ۔۔ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﻋﺒﺚ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻓﻨﮑﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺗﮭﺎ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻗﺒﻞ ﻃﻠﺐ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ"ﻣﯿﺎﮞ ﺑﻨﮍﮮ ﮐﯽ ﺩﯾﮓ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ "۔ﻣﯿﮟ ﺳﭩﭙﭩﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ "ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ"۔ ﻭﮦ ﮨﻨﺴﮯ ﺍﻭﺭﺑﻮﻟﮯ"ﻣﯿﺎﮞ ﺩﻟﮩﻦ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺟﺎئے ﮔﺎ۔۔ﺧﯿﺮﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﮔﮯﮨﻢ"ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎتھ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮔﻮﭨﮯ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﮯ ﺧﻮﺍﻥ ﭘﻮﺷﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﮬﮑﯽ ﺩﻭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺩﯾﮕﯿﮟ ﺍﻟﮓ ﻻئے۔۔ﺧﻮﺩ ﺳﻨﮩﺮﮮ ﻃﺮﮮ ﻭﺍﻟﯽ ﭘﮕﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﺷﯿﺮﻭﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺼﺎ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮﮈﺍﻧﭧ ﮈﭘﭧ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺨﺸﺎ۔ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻓﺎﺭﻍ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮈﺍﻧﭧ ﻟﮕﺎﺗﮯ "ﻣﯿﺎﮞ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮨﻮ؟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺍﺕ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﺗﻢ۔۔ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ۔ﮐﺴﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﮐچھ ﮐﻢ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ "ﺭﺧﺼﺘﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮﻭﮦ ﻏﺎﺋﺐ۔۔ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ۔۔ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻠﮯﮔﺌﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ؟ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﺳﻤﯿﺖ ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻭﻟیمہ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﮐﯽ ﺭﺳﻢ۔۔ﭘﺎﻧﭽﻮﯾﮟ ﺩﻥ ﻓﺮﺻﺖ ﻣﻠﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﯿﺎ۔ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﮈﺍﻟﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻣﻠﮯ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯﮔﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﮐﺎﻡ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ۔خرابی ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﮐﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟیے ﺑﻐﯿﺮﭼﻠﮯ ﺁئے"۔ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍئے ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ ﻟﮍﮐﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﮯﮨﻢ ﻧﮯ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮ، ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺁﺳﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ﻧﺼﯿﺐ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺩﮮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺁﺗﺎ "ﻣﯿﮟ ﺩﻡ ﺑﺨﻮﺩ ﭘﮕﮍﯼ ﻭﺍﻻ ﮐﻮ،ﺍﺱ ﺑﺎﻭﺭﭼﯽ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻃﺮﮦ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﻭﺿﻌﺪﺍﺭﯼ ﻓﺮﺍﺧﺪﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﮐﻞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮﻣﯿﮟ ﻣﺎؤﻧﭧ ﺍﯾﻮﺭﺳﭧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﯾﮧ ﺑﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯﮐﯽ ﺭﻗﻢ ﺗﮭﯽ۔ ﺁﺝ ﺳﮯ ﺳﺘﺎﺋﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺁﺝ ﮐﮯ ﮐﻢ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﻻکھ ﺗﻮ ﺗﮭﮯ ﺷﺎﯾﺪ۔ ﺟﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭼﮭﻮﮌﺩﯾﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﺼﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻮں گے ﺗﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻓﻮﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﺰﺑﺎﻥ ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﮨﯿﮟ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﺏ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍئے ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ " ﻣﯿﺎﮞ۔ﻟﮍﮐﯽ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﮯﮨﻢ ﻧﮯ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﺎ ﻭﻗﺖ ﮨﻮ، ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺁﺳﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ﻧﺼﯿﺐ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩﮨﯽ ﺩﮮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ﺟﯿﺴﮯ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺁﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺁﺗﺎ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮈﮬﻮﻧﮉﻭ ﮔﮯ ﮔﺮ ﻣﻠﮑﻮﮞ ﻣﻠﮑﻮﮞ ، ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﻧﮩﯿﮟ ، ﻧﺎﯾﺎﺏ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
ماخوذ
احمد اقبال




"ایک زرداری سب پہ بھاری"

گو ہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغرومینا مِرے آگے آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔8ستمب...