منگل, مارچ 08, 2016

" نظام زندگی"

" نظام زندگی"
کرۂ ارض پر ہزاروں,لاکھوں سالوں سے رواں دواں زندگی قوانینَ قدرت کے اصولوں پر لگی بندھی رفتار سے سفر کرتی چلی جارہی ہے۔ وقت اور ضروریات حالات کو اپنے مطابق ڈھالتے رہے ہیں۔ تمام جمادات ،حیوانات اور نباتات سے لے کر انسان کی ذہنی وفکری تعمیر کے ارتقاء تک کردار بدلتے رہے۔۔۔کہانی کم وبیش وہی پرانی دُہرائی جاتی ہے۔بِگ بینگ سے صورِاسرافیل کے درمیانی عرصے کی کہانی پرغور کیا جائے تو پتہ چلتا ہےکہ ہر خلق کی ظاہری اور باطنی سطح پر یا فرد اور اقوام میں ایک حد گزرنے کے بعد کوئی نہ کوئی ایسا موڑ ضرور ملتا ہے کہ پچھلے اسباق یکسر مسترد کر کے زندگی کا نئے سرے سے آغاز ہوتا ہے۔ یہ موڑ تعمیری بھی ہوتا ہے ۔۔۔تخریبی بھی اور یا پھر تادیبی بھی۔ ایسے چھوٹے چھوٹے موڑ زندگی کی تازگی اور وسعت کی ترجمانی کرتے ہیں۔
کائنات کا نظام ہو یاہماری زمین کاخالقِ کائنات نے تخلیق کے بعد ایک بار متعین کر دیا سو کر دیا۔ اب اس میں انسان کی طرف سے ردوبدل کی گنجائش قطعاً نہیں اور جب نظام لپیٹا جائے گا وہ یومِ آخر کہلائے گا۔اس نظام میں آفاتِ ارضی وسماوی کے مدوجزر آئیں تو سمندر صحرا میں بدل جاتے ہیں تو کہیں دیوہیکل حیوانی مخلوق ہمیشہ کے لیے صفحۂ ہستی سے ناپید ہو جاتی ہیں۔کبھی عظیم الشان تہذیبیں مٹ گئیں تو کہیں ہنستےبستے شہر یک لخت زمین میں دفن ہو گئے۔وقت کے گزرے پہئیوں کی یہ کہانیاں ہر گھڑی نئی داستان رقم کرتی ہیں۔ ہمیں سبق دیتی ہیں کہ"نظام کبھی نہیں بدلتا انسان بدل جاتے ہیں ". یا یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ نظام ایک مقررہ وقت تک جامد ہے انسان کو فنا ہے۔انسان اپنے حصے کا کام کر کے وقت گزار کر دوسری دُنیا کا مسافر ہو جاتا ہے
۔ہم انسان اس سبق کو  حفظ کرنے میں تو عمر گزار دیتے ہیں  لیکن  سمجھنے سے پھر بھی قاصر رہتے ہیں۔

"کرنیں(9)"

٭بےشک اللہ سب جانتا ہے۔۔۔۔ہم تو اپنے آپ کو بھی نہیں جانتے۔
٭ علم کی انتہا ۔۔۔۔
٭علم کی انتہا حیرت نہیں۔ لیکن اپنی ذات کا علم ہمیں ضرور ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
٭علم کی انتہا حق الیقین کی وہ کیفیت ہے جو دنیا میں آنکھ بند ہونے کے آخری لمحے آنکھ پر وارد ہوتی ہےکہ اس لمحے اندر کی آنکھ کھل جاتی ہے۔اس کیفیت کا بیان پاک کتاب اور احادیث رسول ﷺ سے تو ثابت ہے لیکن فانی انسان۔۔۔۔ جو اس کیفیت کا امین ہے۔ وہ اظہار کی قدرت کھو دیتا ہے۔
۔۔۔۔
٭ہاتھ کی لکیریں "علم" ہیں اور قسمت کا حال اور مستقبل کی پیش گوئی"غیب کا علم" ۔۔۔۔۔ علم کے حصول کے لیے چین تک جانے کی "حدیث" اس امر کی دلیل ہے کہ علم صرف آگہی کا نام ہے اورعلم کے بعد اصل فہم اس پر "عمل" کا ہے جو درست غلط کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور "غیب کا علم " صرف اورصرف اللہ کی صفت ہے ۔ اور ہمارا اس پر ایمان ہے۔
۔۔۔
٭تحریر علم کی غمازی کرتی ہے اور تخلیق عمل کی عکاس ہوتی ہے۔
۔۔۔۔
٭اہم یہ ہے کہ ہماری بہت سی جہت ہیں ہمیں خود کو کسی ایک سمت محدود نہیں کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔
٭راز ِزندگی۔۔۔۔
رازِ زندگی ہے تو فقط یہ کہ جو راز کو پا گیا وہ زندگی سے نکل گیا اور جس نے زندگی کی خواہش کی وہ محرمِ راز نہ بن سکا۔
۔۔۔۔۔
٭ زندگی میں آخری سانس تک کبھی حرفِ آخر نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔
٭اونچی پرواز سے پہلے زمین سے نسبت ختم کرنا پڑتی ہے۔
۔۔۔
٭کھلےآسمان پر پرواز سے طاقت پرواز کا اندازہ ہوتا ہے۔لیکن ! پرندے جتنا جلد گھر لوٹ آئیں اچھا ہے ورنہ ڈار سے بچھڑ کر کہیں کے نہیں رہتے۔
۔۔۔۔۔۔
٭ بے وزنی کی کیفیت تو چاند پر پہنچ کر بھی اپنے اوپر اعتماد سے محروم رکھتی ہے۔
۔۔۔
٭عقل کا صدقہ یہ ہے کہ "کسی کو جاہل سمجھا ہی نہ جائے"۔ اپنی زندگی میں آنے والے ہر کردار اور ہر ایک کی بات میں ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہے۔
۔۔۔۔۔
٭جو دھیمی رفتار سے چلتے ہیں اُن کو ٹھوکر لگنے کی تکلیف بھی کم کم محسوس ہوتی ہے۔
۔۔۔۔
٭سفر چاہے زندگی کا ہو یا دنیا ،فرق صرف اور صرف جانے والے کو پڑتا ہے۔
۔۔۔
٭سفر پر جانے والا اپنی تھکان بتانے کے قابل رہتا ہے اور نہ ہی دکھانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ پیچھے رہنے والے صرف شور ہی مچاتے ہیں لاحاصل اور لایعنی۔
۔۔۔۔
٭لاحاصل آسمانوں کے خواب دیکھنے والے زمینی حقائق کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭ دل سے نکلی بات روح پر دستک دیتی ہے۔
۔۔۔۔
٭ بڑی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی باتیں بہت بڑے بڑے راز افشا کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭ اپنی جہالت کا اعتراف علم کی راہ کی پہلی سیڑھی ہے۔
۔۔۔
٭ جتنی جستجو کسی شے کی کی جائے اتنی ہی ناکامی اس کےحصول اوراتنی ہی نا مکمل تسکین اس کے قرب سے ملتی ہے۔ زندگی میں بس جو ملتا ہے چپ چاپ لے لینا چاہیے۔
۔۔۔۔
٭ یہ حُسنِ نظر ہی  توہے جو اپنی نگاہ ِآئینہ ساز سے معمولی سے آئینوں کو جگمگا دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔
انسان جتنا متاثر ہوتا ہے اتنا ہی ناکام رہتا ہے۔اس لیے کسی کے پاس جاؤ تو بِناکسی احساس کے جاؤ۔ قدم خود ہی رک جاتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭سچے رشتے،لازوال تعلق
مکمل تنہائی،لامحدود وقت اور بھرپور توجہ چاہتے ہیں
یہ رشتے چا ہے انسانوں سے ہوں یا
۔"اللہ" سے۔
۔۔۔۔
٭مٹی کا بنا فانی انسان جب تک مٹی کی بےجان چیزوں سےقربت محسوس نہیں کرے گاوہ کیونکر اپنی گہرائی محسوس کر سکے گا۔
۔۔۔۔۔
٭ انسان تو ہے ہی خسارے کا سوداگر اس کی تصدیق کلامِ پاک میں مل چکی بس اسے سمجھتے ہوئے اس پر غور کرتے ہوئےآگے بڑھنا زندگی برتنے کا اصل قرینہ ہے بجائےاس کےاپنی کم علمی یا نااہلی پر افسوس کرتے اپنے احساس کی بزدلی میں منجمد رہتے زندگی گزار دی جائے۔
۔۔۔۔
٭ان خودساختہ عقل مندوں اور ہوس پرستوں سے ہم بےوقوف ہی بھلے جو محبت کرتے ہیں تو اسے چھوڑنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔
٭سنی سنائی پر یقین کرنے والوں کو بدگمان کہتے ہیں۔
۔۔۔۔
کسی  کو دی گئی دعا ہو یا بددعا ایسی سرگوشی ہے جو دل  کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتی  ہے تو بازگشت بن کر اپنی ہی روح کو اجالتی ہے اور یا پھر ہمیشہ کے
 لیے مایوسی کے پاتال میں دھکیل دیتی ہے۔
 دعااور بددعا وہ آخری ہتھیار  ہیں  میدانِ دُنیا میں جیتنے کے سارے حربے ناکام ہونے کے بعد ہمارے احساس کی مُٹھی میں اُترتے ہیں۔یہ تاش کے وہ پتے ہیں جو ساری چالیں چلنے کے بعد ہمارے ہاتھ میں بچتے ہیں۔کہا جاتا ہےکہ دعا یقین کے ساتھ مانگی جائے تو معجزے رونما ہوتے ہیں ۔دراصل معجزے تو تقدیرِالٰہی میں لکھے جا چکے ہوتے ہیں بس دعا کا وسیلہ درکار ہوتا ہے۔
 بددعائیں لگتی نہیں ہیں بس پیچھا کرتی ہیں۔۔۔دینے والے کا اور سُننے والے کا۔
بددعائیں  وقت کی کمان سے نکلا وہ تیر ہیں  جو پلٹ  جائیں تو دینے والے کی روح وجسم چھید ڈالتی ہیں
۔۔۔۔
٭جس کی جتنی بڑی کمزوری ہے وہ اُس کی اتنی ہی بڑی طاقت بھی ہے۔اور اسی طرح جس کی جو طاقت ہے وہ کسی بھی وقت اتنی ہی بڑی کمزوری میں بدل سکتی ہے۔ طاقت اورکمزوری کا فیصلہ صرف وقت کرتا ہے۔ نامور وہی ہوتے ہیں جو اپنی کمزوری کو طاقت بنا لیتے ہیں۔اور فرعون صفت اپنی ہی طاقت کے بدمست ہاتھی کے پاؤں تلے چیونٹی کی طرح کچلے جاتے ہیں۔
۔۔۔دراصل ہماری کمزوری اور ہماری طاقت دونوں کچھ اس طرح باہم ملی جلی ہوتی ہیں کہ جو ہماری طاقت دکھتی ہے وہ ہماری کسی کمزوری کا عکس ہوتی ہے اور جو ہماری کمزوری ہوتی ہے وہ کسی بھی لمحے ہماری سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے۔اہم بات اور اصل دانائی نہ صرف اپنی طاقت اور کمزوری کا ادراک ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس خاص نظر سے دیکھنے کی اہلیت کا نام ہے۔یہی وہ معمولی سا فرق ہے جو ظاہر اور باطن کی آنکھ کا فرق نمایاں کرتا ہے۔ جیسے کہ ہماری پاک کتاب میں کئی جگہ کہا گیا " تم دیکھتے کیوں نہیں"۔
۔۔۔۔۔۔

٭"مٹی ،رزق اور سفر"۔۔۔ سفر انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔   انسان سمجھتا ہے کہ   یا تو  حالات اُسے ہجرت پر مجبور کر دیتے ہیں     یا   وہ اپنی مرضی سے، باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے  سفر  پر روانہ ہوتا ہے۔کبھی  وہ  زندگی کی لگی بندھی  رفتار سے  اُکتا کر بس     ہوا کے بےپروا جھونکوں کی مانند  اُڑنا چاہتا ہے۔  ایسا ہرگز نہیں۔   سفر صرف "بلاوا " ہے،  جسم کا بلاوا۔۔۔ اُس  مقام کی "مِٹی" اور اُس جگہ کے "رزق"  کا۔ جو اُسے  اپنی  جانب  بلاتا ہے تو  اپنے پاس روک بھی لیتا ہے۔ رزق   وقت کے دائرے میں شانت کر کے واپسی کی راہ  دِکھاتا ہے تو مٹی اپنی آغوش میں چھپا کر ہر نقش مٹا دیتی ہے ۔ رزق  صرف روزی ، روزگار،کھانے پینے کاہی نام نہیں۔ رزق  علم ہے تو تجربہ بھی۔رزق خوشی ہے تو سکون کا احساس بھی  ہے۔ رزق پانے کا نام ہے۔رزق سیرابی کی کیفیت ہے۔ 

۔۔۔۔

٭"ہجرت”محض ایک عمل ہی نہیں،ایک بہت بڑا انسانی رویہ ہےچاہے اپنی رضا سے ہی کیوں نہ اختیار کیا جائے۔ہجرت ابتدائی طور پر انسان  کا اعتماد صفرکر دیتی ہےجب اسے نئی جگہ نئے ماحول میں قدم قدم پر سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں۔

۔۔۔۔۔

٭دیکھنے والی آنکھ وہی منظر دیکھتی ہے جو اس کی آنکھ کے دائرے میں گردش کرتا ہے۔
۔۔۔
٭ ہم وہی دیکھتے ہیں جو نظر آتا ہےاور پھر وہی کہتے ہیں جو نوشتۂ دیوار دکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔ 
٭انسان ہمیں کچھ بھی نہیں دے سکتے لیکن جو بھی ملتا ہے انسان کے وسیلے سے ملتا ہے۔اکثر دینے والا خود بھی نہیں جانتا کہ کیا دے رہا ہے اور کیوں دے رہا ہے۔
۔۔۔
٭اپنی مایوسی اور کمزوری کوصبر کا نام دے کر محض وقتی تسلی مل سکتی ہے لیکن صبر کے اصل مفہوم کو جان کر ہی شکر کے سکون کی لذت حاصل ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔
٭محبوب کے ساتھ کا ایک پل ہی کافی ہے چہ جائیکہ ہم اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشوں کا کاسہ دراز کرتے چلے جائیں۔
۔۔۔
٭علم ڈگری میں نہیں اور نا ہی ڈگری سے علم ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔
٭اپنی نظر میں اپنی پہچان اہم ہے دوسرے کبھی بھی ہمیں مکمل طور پر جان نہیں سکتے۔
۔۔۔۔۔۔ 
٭اندر کا موسم اچھا ہو تو باہر کے موسم بھی اچھے لگتے ہیں۔
۔۔۔۔۔

٭خوبصورتی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک بامعنی نہ ہو۔اور معنی ہر ایک پر اس کے ظرف کے مطابق اترتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭اصل خوبصورتی دیکھنے والی آنکھ میں ہے منظر میں نہیں۔
۔۔۔۔۔۔ 
٭ محبت پر بات وہی کر سکتا ہے جو محبت کرنے والا ہو چاہے وہ اپنے آپ سے ہی محبت کیوں نہ کرتا ہو۔
۔۔۔۔
٭محبت انسان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہرگز نہیں بلکہ روٹی روزی کی فکر میں صبح وشام کرتے انسان کے لیے یہ ذہنی عیاشی یا مسائل سے فرار کے سوا کچھ بھی نہیں۔
۔۔۔۔
٭ ہم انسانوں کی بےاعتباری کی سب سے بڑی وجہ "غلط فہمی"کے تیزی سے بڑھتے جالوں سے جنم لیتی ہے اور رفتہ رفتہ اپنے حصار میں بری طرح جکڑ کر ہمیں اپنی ذات کے اندر قید کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔
٭ انسانی سوچ دل اور دماغ کے باہم ربط سے تشکیل پاتی ہے۔ دل کی اوّلیت سے انکار نہیں کہ یہ انسان کی جبلتوں،جذبات اور فطرت کی نمائندگی کرتا ہے۔لیکن اہم کام دماغ کا ہے جو اس پر مہرِِتصدیق ثبت کرتا ہے۔اور کسی بھی مہر کے بغیر کوئی وزنی سے وزنی دلیل یا قیمتی سے قیمتی احساس بےمعنی ہے۔
۔۔۔۔
٭جب انسان کو کوئی قطب نما دکھائی نہ دے تو آپ اپنا رہبر بننا پڑتا ہے بجائے اس کے بےسمتی کے کمزورجواز سے اپنے آپ کو بری الذمہ کر کے راہ فرار اختیار کی جائے ۔
۔۔۔۔۔
٭پزل چاہے کھیل کی ہو یا زندگی کی ایک خاص ٹکڑا ہی خالی جگہ بھرتا ہے۔ ذرا سا بھی بڑا یا چھوٹا ہو خواہ کتنا ہی دلکش ہو ہمیشہ مس فٹ ہی رہتا ہے۔ ہر تعلق کی اپنی جگہ ہے، زندگی کی پزل گیم میں ہم ایک ٹکڑا بھی اِدھر سے اُدھر کرنے کے مجاز نہیں۔
۔۔۔۔ 
٭عورت صرف خیال کی اڑان میں ہی تنہا پرواز کر سکتی ہے۔ زمینی حقائق میں وہ اپنے رشتوں کے حصار سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکال سکتی ۔
۔۔۔۔
٭یہ وقت کی طاقت ہے جو ہماے اثاثوں کو دوسروں پر آشکار کرتی ہے ورنہ ہم تو خود بھی نہیں جانتے کہ"ہماری اوقات کیا ہے"۔
۔۔۔۔
٭دُنیا میں کچھ بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ ہر چیز جب لکھ دی گئی ہے تو پھر ہم نے صرف اُس کو اپنی زندگی کی سلیٹ پر نقل کرتے جانا ہے۔ خود سے ردوبدل کر کے تحریر بہتر کرنے یا بدلنے کی خواہش پالنا وقت کا ضیاع ہے۔

پیر, مارچ 07, 2016

"آبرو"


 
سمندر نہیں جانتا
پانی کے قطرے کی قدر
ایک سیپ کب تک
!!!گُہر کی آبرو چاہے

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...