اتوار, اگست 30, 2015

" صبحِ وطن"



مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
(افتخارعارف)
آزادی۔۔۔ انسان کا ایسا قیمتی خواب جو اس کے سارے خوابوں کے لیے جہاں آکسیجن کا کام کرتا ہے وہیں جب اس کی تعبیر بنا کسی بھاگ دوڑ کے پلکوں کو چھو لے تو آنکھ کھلنے کے بعد انسان اس کی اہمیت وضرورت سےہمیشہ بےخبر رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کی قدر آزاد ہواؤں میں آنکھ کھولنے والوں سےبڑھ کر وہی جانتے ہیں جن کے جسم وروح پرغلامی کی زنجیروں کے زخم ثبت ہوں۔۔۔ ایسے زخم جنہیں وقت کا مرہم مندمل کر بھی دے لیکن پھر بھی بےحسی کی آنچ کی ذرا سی تپش پا کر پھر سے رسنے لگتے ہیں۔
۔14 اگست 1947 میں قیام پاکستان کے بعد آج اگست 2015 تک بہت وقت بیت گیا۔ننھے پودے تناور درخت بن گئے۔۔۔ کچی کونپلیں اپنی خوشبو اپنا رنگ اوراپنی مہک نچھاور کر کے پیوندِ خاک ہوئیں۔ کتنے ہی گھنے سائبان اپنے حصے کا کام کر کے رخصت ہوئےاور آج ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں۔ یہی دنیا ہے اور یہی زندگی کہانی ہے۔ایسا ازل سے ہوتا آیا اور ہوتا رہے گا۔ لیکن اللہ نے انسان کو لفظ کی صورت ایسی نعمت عطا کی جس کے سہارے وہ اُن تمام لمحوں اور یادوں کو دوسروں کے لیے محفوظ کر سکتا ہے جن کے تلخ و شیریں احساس آنے والی نسل کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتے ہیں۔
ایسے ہی احساس کے جگنو کی روشنی میں اس سال 14 اگست کو"قیام پاکستان اورتقسیمِ ہندوستان" کے عنوان سے ایک محفل سجائی بہت سے لکھنے والوں نے اپنی اپنی یاد کی شمع روشن کی۔افراتفری اور شک وشبے کے اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں یہ لرزتی مدہم پڑتی لُو جہاں ایک گہری اداسی لیے ہوئے تھی وہیں اپنے آپ پر یقین،اپنی بنیاد کی سچائی اور پائیداری کی امین بھی تھی۔
وطن کے حوالے سے کچھ تحاریر جو اس دوران میرے مطالعے میں آئیں یا احباب نے اس میں شرکت کی۔ سچائی کی روشنائی سے لکھی جانے والی ہر تحریر بہت پراثر اور ناقابلِ فراموش یادوں کا ایسا گلدستہ ہے جس میں دل میں کھب جانے والے کانٹوں کی چھبن اگر درد کی شدت بیان کرتی ہے تو اپنی مٹی سے تعلق مضبوط بھی کرتی ہے۔
سب سے پہلے میری تحریر"قسم اس وقت کی" سے کچھ اقتباس۔۔جس میں اپنی اہلیت کے مطابق اپنا فرض نبھانے کی بات کی گئی۔
"قسم اس وقت کی"
تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان اور آج کے لکھاری۔
تاریخ تحریکِ پاکستان سے قیام پاکستان تک کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جس کے گواہ نہ صرف ہجرت کر کے آنے والے پاکستانی ہیں بلکہ پاکستان میں پہلے سے مقیم پاکستانی بھی بہت سے واقعات کےعینی شاہد ہیں۔ پاکستان کے قیام کو 68 برس مکمل ہوچکے۔اس وقت نہ صرف وہ نسل اپنی صحت کے مسائل سے نپٹتے ہوئےتمام واقعات بیان کر سکتی ہے جو اُن کی جوانی کے دور میں پیش آئے بلکہ اس دور میں ذرا سا ہوش سنبھالنے والے بچے جو آج اپنے گھروں کی عافیت میں ہمارے بزرگ ہیں اس بارے میں بہت کچھ کہتے بھی رہتے ہیں۔ ہر باشعور پاکستانی کے گھر میں اس کےبچپن میں یا کبھی نہ کبھی اس نے کہیں نہ کہیں پاکستان کہانی ضرور سنی ہو گی۔ آج کے لکھاری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ کانوں سے سنا وہ احوال سامنے لائیں جو کسی اپنے یا غیر کی آنکھوں نے دیکھا۔ان کی یاد میں سمٹےاحساس کو اپنے لفظ کی زبان دیں۔کوئی واقعہ کوئی بات جو ہم نے اپنے بڑوں سے سنی اور یقیناً سنی ہو گی۔اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ قیام پاکستان ایک معجزہ ہےاوراُس وقت ہوش وحواس کی دنیا میں سانس لینے والا ہر پاکستانی اس بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہے۔
۔۔۔۔۔

جولائی 29۔۔۔2015
۔۔۔۔۔
یکم اگست 2015
۔۔۔۔۔
اگست 2007
نومبر 2011
۔۔۔۔۔۔
 2013 یکم اگست
۔۔۔۔۔
  اگست 4 ۔۔۔2015
اگست 14 ۔۔۔2015
۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست 25۔۔۔2013
۔۔۔۔
اگست 7۔۔۔۔2015
۔۔۔۔۔۔
  اگست 8۔۔۔۔2015
۔۔۔۔۔
اگست 11۔۔۔2015
۔۔۔۔۔۔ 
اگست 10۔۔۔2010
۔۔۔۔۔
اگست 14۔۔۔2013
۔۔۔۔۔۔
اگست 13۔۔۔2015
۔۔۔۔۔
 اگست 13۔۔2015
۔۔۔۔۔۔
اگست 14۔۔۔2010
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ 
اگست 14۔۔۔2015
۔۔۔۔۔۔
اگست 15۔۔۔۔2015
اگست 29۔۔۔2015
حرفِ آخر
یہاں میں اپنے ابو کی ایک بات ضرور بتاؤں گا جو مجھے اچھی لگی ان کا کہنا ہے“مذہب،ملک اور برادری (خاندان) کے لئے اگر کچھ کرو تو اسے احسان سمجھ کر نہ کرو اور اس کے بدلے میں بھی کچھ طلب نہ کرو“۔


ہفتہ, اگست 29, 2015

" فیروزہ دائی "

ہمارے لیے ہماری زندگی کہانی ہمارے ماں باپ سے شروع ہوتی ہے۔ہم کبھی نہیں سوچتے کہ زندگی کی پہلی سانس ہم کس  کے ساتھ تھے؟کن مہربان ہاتھوں نے اُس لمحے نہایت احتیاط سے ہمیں اپنی آغوش میں لیا؟ہمارے بدن کو کس لمس کی گرمی نے لباس عطا کیا؟ یہ سب فضولیات سوچنےکا وقت کہاں اورکیوں۔ ہاں ہم میں سے اکثر اپنی جنم بھومی کے بارے میں ضرور حساس ہوتے ہیں اور  اکثر جانتے بھی ہیں شاید اس لیے کہ یہ ہماری پیدائش کی سند پر تحریر بھی ہوتا ہے۔جیسے جیسے عمر گزرتی ہے جانے کیوں اس جگہ سے ان دیکھی سی اُنسیت محسوس ہوتی ہے چاہے بعد میں اُس جگہ اُس علاقے سے کوئی تعلق بھی نہ رہا ہو۔اپنے آبائی علاقوں سے باہر پیدا ہونے والوں کے لیے تو  خاص طور پراپنی جائے پیدائش بہت اہمیت رکھتی ہے اور برصغیر میں بسنے  والوں کے بچوں کی  یورپ یا کسی اور ترقی یافتہ  ملک  میں پیدائش  ہو تو کیا ہی بات ہے کہ ہمیشہ کے لیے وہاں کی شہریت اور اس سے متعلقہ فوائد بونس میں ملتے ہیں۔ اسی طرح قیام پاکستان کی گولڈن جوبلی یعنی پچاس سال بھی کب کے ہو گئے لیکن ہمارے بزرگوں کی آنکھیں ہندوستان کے گلی محلوں کی یادوں اور دوستوں کی باتیں کرتے ہوئے اس طرح چمکنے لگتی ہیں جیسے کل ہی کی بات ہو۔
دنوں بلکہ سالوں کے الٹ پھیر میں ایک عمر ایک بھی آتی ہے جس میں کچھ گھنٹوں پہلے کی بات یاد نہیں رہتی اور برسوں پرانی بھولی بسری یادوں کی جزئیات تک یوں آنکھ کے پردوں پر رقص کرتی ہیں کہ محسوس کرنے والی نگاہ بےساختہ انہیں جذب کرنے کو مچلتی ہے۔بےشک یہ "ارذلِ عمر" ہے جس میں علم والے بھی بےعلم ہو جاتے ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ عمر کے اس پڑاؤ سے پیچھے رہنے والے ان کے تجرباتِ زندگی سے کیا کچھ کشید کرتے ہیں۔
برسوں پہلےہجرت کر کے آنے والے ہمارے بڑے اگر متحدہ ہندوستان میں ہندو سکھوں کے ساتھ گھل مل کر رہنے کے قصے سناتے ہیں،عام معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی رواداری کی بات کرتے ہیں تو قیام پاکستان سے پہلے موجودہ پاکستان میں بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہ تھی۔ہر شہر میں ہندوؤں اور سکھوں کے محلے اور ان کے بنائے ہوئے گھر آج بھی قابلِ رہائش ہیں۔دارالحکومت اسلام آباد سے متصل شہر راولپنڈی کی  اِس حوالے سے بھی اپنی ایک تاریخ ہے۔ راولپنڈی شہر نہ صرف قیام پاکستان سے پہلے کی ان گنت ان کہی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے بلکہ1947 کے بعد ہماری اس خونی تاریخ کا بھی عینی گواہ ہے جس سے رسنے والا لہو آج بھی دہائی دیتا ہے کہ اجل کی گرفت سے قطع نظر وہ ہاتھ اُسی طرح بےباک اور آزاد ہیں۔
راولپنڈی کا کمپنی باغ پاکستان کے قیام کے بعد جو 16 اکتوبر 1951 کو پہلے منتخب وزیرِاعظم خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 'لیاقت باغ" کے نام سے پکارا جاتا ہے اس کے صدر دروازے پر 27 دسمبر 2007 کو پہلی منتخب خاتون وزیرِاعظم محترمہ بےنظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ اس سے پیشتر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں 4 اپریل 1979 کو پاکستان کےمنتخب  وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے کے فیصلے کے نتیجے میں  پھانسی دے دی گئی۔محترمہ بےنظیر بھٹو جناب ذوالفقارعلی بھٹو کی سب سے بڑی صاحبزادی  تھیں۔
سن سینتالیس سے پہلے لیاقت باغ شہر سے کچھ ہٹ کر تھا۔راولپنڈی شہرکی حدود میں کرتارپورہ،کوہاٹی بازار،بھابڑا بازار،پرانا قلعہ،صرافہ بازار،موتی بازار،بوہڑ بازار،راجہ بازار،موہن پورہ اور نانک پورہ سکھ اور ہندو تاجروں کے اہم علاقے تھے۔اس کے بعد "نالہ لئی" شہر اور مضافات کو الگ کرتا تھا۔ یہاں سکھوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ ہندو اورمسلمان خاندان بھی مل جُل کر رہتے تھے۔انہی محلوں میں بوہڑ بازار کا نام اگرچہ اس علاقے میں "بوہڑ" کے بڑے سےدرخت کی مناسبت  سے پڑا لیکن اس کی اصل وجۂ شہرت یہاں دواؤں کا کاروبار بھی تھا اور آج بھی بوہڑ بازار دواؤں کی مرکزی مارکیٹ ہے۔
فیروزہ دائی بوہڑ بازار میں رہنے والے ایک مسلمان خاندان کی بیٹی تھیں جو کم عمری میں شادی کے بعد جلد ہی بیوہ ہو کر بھائی کے گھر آ گئیں ۔کچھ عرصے بعد بھائی بھی چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر چل بسا تو آبائی گھر اور زمین جائداد کے معاملات کی ذمہ داری ان پر آن پڑی۔ بڑی ہمت والی خاتون تھیں۔ کاروباری امور کے ساتھ ساتھ دائی کا سرٹیفیکیٹ کورس بھی کیا۔غریبوں سے پیسے نہیں لیتی تھیں اور سب کےدکھ سکھ میں شریک ہونے سے رفتہ رفتہ نام بنتا گیا۔آس پاس سکھوں اور ہندوؤں کے گھر تھے۔مذہبی تفاوت سے پرے بچے کی ولادت کے کٹھن مرحلے میں فیروزہ دائی کا کردار عام لوگوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا اور انہیں یکساں طور پر عزت وتوقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔
فیروزہ دائی ایک نیک دل ہندو ڈاکٹر کے ساتھ مل کر کام کرتی تھیں۔وہ  ڈاکٹر ہر سال اپنے خاندان کے ساتھ گرمیاں گزارنے ہندوستان کے پُرفضا مقام شملہ جایا کرتا اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے چابیاں اپنی معتمد فیروزہ کے سپرد کر دیتا۔ سال 1947 کی بات ہے کہ آنے والے کسی خطرے سے بےخبر ڈاکٹر معمول کے مطابق شملہ چلا گیا۔ فیروزہ ہمیشہ کی طرح اس دوران اس کے گھر  آ کر رہنے لگی۔ وہ اُس کی اجازت سے اُس کا چوکا (چولہا) استعمال کرتی اور اپنا کھانا  بھی بناتی۔ انہی دنوں سامنے والے گھر میں رہنے والے ہندو پڑوسی نے ڈاکٹر کو  خط لکھا کہ ایک ملیچھ عورت آپ کی رسوئی پلید کر رہی ہے۔ڈاکٹر نے فوراً فیروزہ کو ییغام بھیجا کہ گھر میں کام کرتے ہوئے پردے گرا دیا کرو یا کھڑکی بند کر دو کہ کوئی دیکھے اور نہ ہی کسی کو بات کرنے کا موقع ملے۔ فیروزہ ہر سال ڈاکٹر کے لیے اس کے گھر پر رہ کر آم کااچار ڈالتی جس کے لیے پیسے ڈاکٹر دے کرجاتا۔اس سال بھی اس نے کئی مرتبان اچار کے تیار کیے۔اسی دوران تقسیمِ ہندوستان کے فسادات پھوٹ پڑے اور اس ہندو خاندان کو کبھی واپس آنا نصیب نہ ہوا۔اچار کا تو جانے کیا بنا لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انتظامیہ نے آکر اس مکان پر اپنے تالے لگا دئیے۔ فیروزہ کے قریبی احباب نے  گھر پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اس  پر بہت زور ڈالالیکن اس کی امانت داری نے گوارا نہ کیا۔نہ صرف گھر کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا بلکہ اپنے ہاتھ سے ڈالے گئے اچار کو بھی چھوڑ دیا اور بعد میں بند گھر کی وجہ سے صرف اچار کی فکر ہی کرتی رہیں۔۔اسی محلے میں مسلمانوں کے گھر کم اور ہندو سکھوں کے زیادہ تھے۔ فیروزہ کے گھر والے اپنے پڑوسیوں کی ممکنہ دشمنی کے خوف سے آبائی گھر چھوڑ کر مسلمانوں کے محلے میں منتقل ہونے لگے تو سکھ پڑوسی ڈھال بن گئے اور کہا کہ واپس آ جائیں کوئی ہمارے اوپر سے گزر کر ہی آپ تک پہنچ سکتا ہے۔
اس کے بعد کون جانے کیا ہوا۔ جہاں ایک نظریے کی بنیاد پر قیام پاکستان کا معجزہ رونما ہوا وہیں پیار محبت، دوستی اور بھائی چارے کے مفہوم بھی بدل گئے۔ برسوں ساتھ رہنے والے، اپنے اپنے مذہب پر کاربند رہتے ہوئے دوسرے کے عقیدے کا احترام کرنے والے، ایک دوسرے کےخون کے پیاسے ہو گئے۔۔جس کا جہاں داؤ لگا اُس نے دوست کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ ہندوستان سے  لٹے پُٹے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے تو پاکستان میں رہنے والے ہندو سکھ اپنی جانیں بچا کر ہندوستان چلے گئے۔بچپن کی محبتیں خواب ہوئیں پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندو مسلم دشمنی کی ایسی داغ بیل پڑی کہ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ہندو رہنماؤں کو پاکستان کا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور لاکھ کوشش کے باوجود اُن کا بغض اور کینہ روز بروز فساد برپا کیے رہتا ہے۔
اللہ ہمارے وطن کو دُشمن کے شر سے بچائے۔ہمیں اپنے پرائے کی پہچان کا ہنر عطا فرمائے اور علم وعمل کے ہر میدان میں دُشمن کے مقابلے میں  فتح مبین سے ہمکنار کرے۔ آمین۔   

جمعہ, اگست 28, 2015

" ڈیتھ ڈراپ۔۔۔ خواب سے حقیقت تک "

جسے بےخبری کی زندگی عطا نہیں ہوئی اُسے بےخبری کی موت کیونکر آ سکتی ہے۔
دنیا ایک جہانِ حیرت ہے جس میں آنکھ کھولنے کے بعد زندگی ہرآن نئی سج دھج سے سامنے آتی ہے۔۔۔کبھی عرش کی سیر کراتی ہے تو کبھی پاتال میں دھکیل دیتی ہے۔کبھی اجنبی زبان میں باتیں کرتی ہے تو کبھی ان کہی بھی سن لیتی ہے۔ غرض کہ آخری سانس تک بہروپ بدل بدل کر ملتی ہے۔لیکن یہ سفر یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اندر کی آنکھ کھل جائے تو آگے کی منزلوں کا کھوج انسان کو نئے جہانوں کے سفر پر لے جاتا ہے۔یہ سفر کہانی زندگی کہانی کے ساتھ پل پل رنگ بدلتی رہتی ہے۔انسان ایک محدود عمر میں لامحدود زندگی کے تجربات تک رسائی چاہتا ہے۔اللہ کے کرم اور اس کی عطا سے بہت کم کسی کو اپنے احساس کے بیان کے لیے لفظ کی نعمت عطا ہوتی ہے۔اُس میں سے بہت کم اس نعمت کو زندگی کے ہر ہر موڑ پر یوں ساتھ رکھتے ہیں کہ ساتھ چلنے والا اِس کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرتا چلا جاتا ہے۔
سال 2015جون کے مہینے میں جناب مستنصر حسین تارڑ  کے آفیشل فیس بُک پیج سے اچانک اُن کی سرجری کی خبر سامنے آئی اور اس کے بعد سب پڑھنے والے جہاں اُن کے لیے دعاگو رہے وہیں اس عرصے میں اُن کے شائع ہونے والے اخباری کالمز بھی خاص توجہ کا مرکز رہے کہ یہ کالمز جہاں جناب تارڑ کی تازہ ترین سوچ کے ترجمان تھے تو وہیں اُن کی جسمانی اور ذہنی صحت کی
 بحالی اور تازگی کے عکاس بھی تھے۔
اگست 2015 کی تصویر۔۔۔

اسی دوران شائع ہونے والے جناب مستنصر حسین تارڑ کے چند کالم۔۔۔ اور اُن میں سےکچھ اقتباسات۔۔مکمل تحریر کے لیےکالم لنک پر کلک کریں۔ 
 جون میں آنے والے دو کالم
٭من مور ہوا متوالا۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ 14/06/2015
’’مور کہاں ہے؟‘‘
’’اِدھر سائیں۔۔۔ ادھر چلے آؤ۔۔۔‘‘
 ان مندروں کے پچھواڑے میں وہی صحرائی شجر، پژمردہ جنگلی جھاڑیاں اور سروٹوں کے انبار تھے اور مور تھے۔
 واقعی وہاں مور ہی مور تھے۔۔۔ اتنے بے شمار کہ ہم تو موروں کی ایک سلطنت میں آنکلے تھے، راجہ بھی مور اور پرجا بھی مور۔۔۔ چونکہ ادھر کم لوگوں کاآنا ہوتا تھا تو وہ بے فکر اورنڈر مور تھے۔۔۔
 سروٹوں کے سائے میں ریت پر آرام کرتے۔۔۔ صحرائی گھاس میں سے ظاہر ہوتے۔۔۔ دھوپ میں ٹہلتے ہوئے، چھدرے درختوں کی سوکھی ہوئی ڈالیوں پر براجمان مور۔۔۔
وہ اتراتے پھرتے تھے۔۔۔
اس ریتلے فسوں میں ٹہلتے پھرتے تھے۔
 کبھی کوئی ایک مور کسی ڈالی پر براجمان پھڑپھڑاتا اور ایک طویل اڑان کے بعد کسی اور شجر کی ڈالی پر جا براجمان ہوتا۔
 میں جو فریدالدین عطار کی ’’منطق الطیر‘‘کا مرید ہوں تو اس لمحے مجھے عطار سے کچھ گِلہ بھی ہوا کہ اس نے سچ کی تلاش میں اڑانیں کرنے والے دنیا بھر کے پرندے شمار کئے پران میں مورنہ تھے، شاید اس لئے کہ یہ ایران کے باسی نہ تھے۔۔۔ صرف ہندوستان کے باشندے تھے۔
 اور یہاں کاسبو کے تھری قصبے سے بھی دور صحرا میں جب میں نے اتنے موردیکھے تو مجھے اونچے درختوں والی، گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والی بے مثال مغنیہ ثریّا یاد آنے لگی۔
 ثریّا نے جہاں گائیکی میں اوج ثریا کو چھو لیا تھا اور بے شمار لازوال گیت گائے تھے جن میں میری پسندیدہ نعت ’’بیچ بھنبور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ شاہِ مدینہ‘‘ بھی شامل ہے وہاں اس نے ایک ایسا گیت بھی گایا تھا جو بہت معروف نہ ہوا لیکن وہ اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے میرے بدن میں رقص کرتا رہا۔۔۔
من مور ہوا متوالا رے۔۔۔ یہ کس نے جادو ڈالا رے۔۔۔
 یہاں صحرائے تھر کے ایک قدیم مندر کے احاطے میں جھاڑیوں، سروٹوں، درختوں اور ریت پر نکلتے، اتراتے، پوشیدہ، ظاہر ہوتے، کبھی اس ڈال پر کبھی اس ڈال پر جا بیٹھتے تھے جتنے مورتھے، یہ وہی من کے مور تھے جو مجھ پرجادو ڈالتے تھے۔
جس کو دیکھا، خمار میں دیکھا
یہ معجزہ بہار میں دیکھا
تو میں نے بھی ایک معجزہ صحرائے تھر کے ایک قدیم مندر میں دیکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭من مور ہوا متوالا۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ 17/06/2015
ہمیں بہرطور موروں کی یہ دنیا چھوڑ جانا تھی۔
اور ہم اگرچہ اُس جدائی سے بہت دل گرفتہ ہوئے پر ہم رنگے جا چکے تھے۔
 گویا یہ موروں کی دیوالی تھی جس میں ہم نے شرکت کی تھی اور اُنہوں نے ہم پر رنگوں کی پچکاریاں پھینکی تھیں تو ہم رنگے جا چکے تھے۔
ہم واپس ہو رہے تھے۔
 کاسبو کے ریتلے راستوں پر ہماری پراڈو کے ٹائروں کے نشان نقش ہوتے جا رہے تھے اور میں دکھی ہو رہا تھا کہ ہم رُک نہ سکتے تھے۔۔۔ میں کچھ دیر کاسبو کی ریت کی گلیوں میں بھٹکنا چاہتا تھا، اور مجھے شام ہو جائے۔۔۔وہ مہتاب جو پچھلی شب تھر کے صحرا کے اندر ہمارے بدنوں پر ابھرا تھا اُس نے آج کی شب بھی تو انہی ریتلی گلیوں میں جھلکنا تھا۔۔۔ ان خاردار جھاڑیوں کی ریت کی گلیوں میں مجھے شام ہو جائے اور اگر فیض صاحب میرے ہمراہ ہوتے۔۔۔ اُن دو شبوں کی مانند جب وہ صبح کی اذانوں تک ہمارے رفیق رہے اور ہماری فرمائش پر اپنے شعر سناتے رہے اور جب کبھی میں اُنہیں کوئی ذاتی نوعیت کا سوال پوچھتا تو وہ کہتے ’’بھئی تارڑ، رہنے دیں‘‘ ۔ تو اگر فیض اس شب کاسبو کی ریتلی گلیوں میں میرے ہمراہ ہوتے اور مہتاب ابھرتا تو انہوں نے تو کہنا تھا کہ
آج تنہائی کسی ہمدم دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے میری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر ہیں ہم دونوں کہ مہتاب اُبھرے
اور جھلکنے لگے تیرا عکس ہر سائے تلے
 دن کی تلخ دھوپ میں ہم خوابوں، سرابوں اور خیالوں میں سے نکل آئے، کاسبو میں سے نکل آئے۔
 دھوپ میں ہمارے سب موروں کی دیوالی کے رنگ نچڑ گئے۔۔۔ ہم پھیکے پڑ گئے۔۔۔ ہمیں اُن سے بچھڑنا تھا سو بچھڑ گئے کہ ہم نے آج بہت دور جانا تھا۔۔۔ ہم نے جھیل کینجھر کے کنارے آج کی شب گزارنی تھی۔۔۔ آج ہمارے سندھ کے سفر کا اختتام ہونا تھا۔
سندھ کا صحرائی خواب گمشد۔۔۔ سفر تمام شد!۔
۔۔۔۔۔ اس کالم پر میرا احساس۔۔۔فیس بک پیج سے۔۔۔۔
۔( فیس بک پیج سے۔۔۔جناب تارڑ کی یہ تحریر جو سندھ سفر کی آخری کڑی ہے۔ اس کو دل کی آنکھ سےمحسوس کیا تو آنکھ کی نمی نے مہر ثبت کی۔۔اس تحریر کا لفظ لفظ اگر دل کے صحرا میں رنگوں کی برسات کرتا ہے تو ہر سطر میں اداسی کی پھیلتی دھند صاحب تحریر کے قلم کی عظمت کو سلام کرتی ہے۔یوں لگتا ہے کہ کمرہ نمبر 304 میں تکیوں سے ٹیک لگائے انہوں نے اس سفر کا احوال قلمبند کیا جس کی مسافت محض چند سو میل تو تھی پر جس کو طے کرنے کے لیے نگری نگری پھرنا پڑا۔ریتلے میدانوں کا یہ سفر جناب تارڑ کے لیے زندگی کا ایک خاص موڑ ضرور ہو گا۔اللہ پاک ان کو ذہنی اور جسمانی صحت والی زندگی عطا فرمائے آمین۔۔ نورین تبسم)۔

اگست 2015 کے کالم ۔۔۔
موت کی ٹیلی فون بک ۔۔مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 02/08/2015......
 مجھے اب اپنی بوسیدہ ہو چکی سیاہ جلد کی’ٹیلی فون اینڈ ایڈریس بک‘‘ سے خوف آنے لگا ہے۔اس کے ہر صفحے پر قبریں اُبھرنے لگی ہیں۔۔۔ یہ آج سے دس برس پیشتر کم کم تھیں پر اب ان کی تعداد اتنی بڑھنے لگی ہے کہ وہ زندوں کی نسبت تعداد میں زیادہ ہونے لگی ہیں۔ پہلے پہل تو یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی عزیز، شناسا، کوئی ادیب رخصت ہوتا تھا تو میں دل پر جبر کر کے اس کے نام اور فون نمبرپر سرخ مارکر سے ایک لکیر پھیر دیتا تھا لیکن جب میں نے دیکھا کہ ٹیلی فون بک کے ہر صفحے پر سرخ لیکروں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی چلی جا رہی ہے اور جب کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو نگاہ صرف سرخ لکیروں، تنسیخ شدہ فون نمبروں پر ہی جاتی ہے اور احساس ہوتا ہے کہ یہ سب لوگ مر چکے ہیں تو میں نے یہ منسوخ کرنے کا طریقہ ترک کر دیا۔۔۔ کیونکہ ہر سرخ مارکر سے منسوخ کیا گیا نام اور فون نمبر یکدم اپنی پوری حیات کے ساتھ میرے سامنے آجاتا تھا کہ اچھا۔۔۔ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا۔۔۔ اور اب ہمارے نام کو سرخ مارکر سے مٹا چکے ہو۔۔۔ کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا۔
 ۔"مجھے اپنی بوسیدہ ہو چکی سیاہ جلد کی ’ٹیلی فون اینڈ ایڈریس بک‘‘سے خوف آنے لگا ہے۔۔۔ عبداللہ حسین ابھی اس کالم میں زندہ تھا اور ابھی وہ بھی مر گیا ہے۔۔۔ اب مجھ سے اس کا نام تو نہیں کاٹا جاتا ۔اس پر موت کی سیاہی پھیر کر کیسے منسوخ کر دوں؟"۔






فرسٹ آف آل، تھینکس ٹو اللہ ۔۔۔ مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 09/08/2015 
 آج سے کوئی چار ماہ پیشتر ایک شب مجھ پر اِک عجب ساعت آئی جس میں مجھے ایک دستک سنائی دی، موہوم سی دستک، وہ ایک واہمہ تھا یا ایک حقیقت یہ طے کرنا ممکن نہ تھا لیکن بہرطور اُس دستک میں ایک بلاوا تھا۔۔۔ ایک ایسا بلاوا جو ہر ذی روح کو بہرطور آنا ہے۔۔۔ اور خاص طور پر ایک چھہتر برس کے شخص کو تو آج نہیں تو کل آنا ہی ہے۔۔۔ میں نہ ہراساں ہوا اور نہ ہی دل گرفتہ، مجھے اور کچھ نہ سوجھا اور میں نے اُس عجب ساعت کے محسوسات کو ایک نثری نظم کی ہیئت میں کاغذ پر درج کر دیا۔۔۔
مت دستک دے۔۔۔
میرے چہرے کو سرسوں کا کھیت نہ کر۔۔۔
میری بجھتی آنکھوں کو یوں نیم وا نہ کر۔۔۔ کہ وہ بند نہ ہوں۔
تاآنکہ کوئی ہتھیلی اُن پر بچھ کر اُنہیں ہمیشہ کے لئے بند نہ کر دے۔
موت، منتظر موت، ابھی ایسا نہ کر۔۔۔
اتنی بے صبر تو نہ ہو۔۔۔
مت دستک دے میرے بدن کے سالخوردہ کواڑوں پر۔۔۔
یہ کواڑ تیرے ایک لمس سے بُھر سکتے ہیں۔۔۔
خاک نشیں ہو سکتے ہیں۔۔۔
قضأ کچھ تو توقّف کر لے۔۔۔
ذرا سی مہلت دے کہ میں نے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔۔۔
جو میری غفلت سے ادھورے پڑے ہیں۔۔۔
مت دستک دے۔۔۔
 یہ اُس طویل نظم کا ابتدائیہ ہے۔۔۔ اور میں نہیں جانتا تھا کہ صرف دو ماہ بعد یکدم یہ قضأ کی دستک حقیقت کا روپ اختیار کر جائے گی اور میں زندگی اور موت کے ایک ایسے تجربے سے گزروں گا جسے میں بیان نہیں کر سکتا۔۔۔ مجھے یاد ہے جب کبھی کرکٹ کے شاندار کھلاڑی انضمام الحق کو مائیک پر بلایا جاتا تھا تو وہ ہمیشہ کہتا تھا۔۔۔ فرسٹ آف آل تھینکس ٹو اللہ۔۔۔ اور ہم اُس کے اس انگریزی اظہار کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن آج، دو ہفتے سے زائد ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈوں اور کمروں میں طویل آپریشنوں کے بعد جب کہ وہ دستک کبھی کانوں کو بہرا کرنے لگتی تھی اور کبھی مدھم پڑ جاتی تھی، اور اب میں واپس اپنے گھر میں زندگی کی جانب لوٹ رہا ہوں۔ میرے پاس سب سے اوّل اور دل کی اتھاہ گہرائیوں میں سے پکارنے والا ایک ہی اظہار ہے۔۔۔ فرسٹ آف آل تھینکس ٹو اللہ۔ 
۔۔۔۔۔۔ 
عجیب قوم ہے۔مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 12/08/2015
 ہربرس چودہ اگست کا دن مجھے ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کرتا ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ جس پاکستان کے پاکیزہ وجود کو گِدھ نوچتے چلے جا رہے ہیں، اس کے خون کے چھینٹوں سے یورپ اور امریکہ میں جائیدادیں دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں، سپین اور فرانس میں وسیع کاروبار قائم کر رہے ہیں۔۔۔جہاں دہشت گردی راج کرتی ہے۔ 
۔۔۔۔۔
وزیٹنگ کارڈ گیلری۔مستنصر حسین تارڑ
Posted Date : 16/08/2015
 ہر دو چار ماہ بعد جیسے باغبان پودوں اور درختوں سے سوکھی ہوئی ٹہنیاں کاٹ ڈالتے ہیں، غیر ضروری شاخوں کی قطع برید کرتے ہیں تا کہ ان کی جگہ نئی کونپلیں پھوٹیں تو کچھ اسی طور میں بھی اپنی سٹڈی میں ڈھیر کتابوں اور رسائل کی چھانٹی کرتا ہوں۔۔۔ اور اس کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے یہ کتاب پڑھ رکھی ہے تو کیا یہ اس لائق ہے کہ اسے سنبھال لیا جائے اور کبھی دوبارہ پڑھی جائے۔۔۔ اور کیا یہ کتاب ایسی ہے کہ میں آئندہ اسے پڑھوں گا، اگر نہیں تومیری مختصر سٹڈی میں گنجائش کم ہے تو اسے فارغ کر دیا جائے۔۔۔ اکثر میں ایسی کتابیں اور رسائل معذوروں کے ایک ادارے کو بھجوا دیتا ہوں جو انہیں فروخت کر کے کچھ رقم کما لیتا ہے۔ اس طور میں اپنی پرانی فائلوں، نوٹس اور مسودوں کی بھی چھانٹی کرتا رہتا ہوں۔۔۔ اس سلسلے میں سب سے اداس کر دینے والا کام، دل کو دکھ دینے والا کام، ان پرانے وزٹنگ کارڈز کی چھانٹی کرنا ہے جو محفلوں میں، پارک میں یا کسی دعوت میں لوگ مجھے عطا کر جاتے ہیں اور میں انہیں سنبھال لیتا ہوں لیکن جب ایک طویل عرصے کے بعد میں میز پر پھیلا کر ان کی کارڈ گردانی کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جنہیں میں کبھی جانتا تھا، ان سے ملاقات بھی رہتی تھی اور آج مجھے کچھ یاد نہیں کہ وہ کون تھے۔۔۔ حیات کے تمام پیشوں سے منسلک لوگ، آرٹسٹ، انجینئر، ڈاکٹر، بیورو کریٹ، جنرل اور صنعت کارلوگ، کچھ یاد نہیں کہ کون تھے۔۔۔ پچھلے دنوں ان وزٹنگ کارڈز کی چھان بین کر کے انہیں تلف کرنے کے دوران کچھ دلچسپ اور حیرت بھری کہانیاں وجود میں آئیں۔۔۔ 
وزٹنگ کارڈ گیلری۔۔ مستنصر حسین تارڑ 
19/08/2015
مجھے ابھی احساس ہوا کہ ابھی تو سینکڑوں کارڈ ہیں، ان سب کا تفصیلی تذکرہ محال ہے بلکہ ابھی ابھی میرے ذہن میں خیال کی آتش میں سے ایک چنگاری بھڑکی ہے کہ ۔۔۔ اول تو میں اپنی خودنوشت لکھوں گا نہیں کہ میرے سب سفرنامے میری حیات کا سفر ہیں اور بقیہ تجربات اور مشاہدات اور کردار سب کے سب ناولوں میں کاشت کردیئے گئے تو باقی کیا بچا ہے۔ تو جو کچھ میں لکھنا چاہتا ہوں وہ بوجوہ لکھ نہیں سکتا تو اگر کبھی میں نے اپنی خودنوشت لکھی تو اس کا نام ’’وزٹنگ کارڈ‘‘ ہوگا۔ میں ان ملاقاتی کارڈوں کے حوالے سے ان لوگوں کا تفصیلی تذکرہ کروں گا جن سے اس حیات میں ملاقاتیں ہوئیں، بہت سے بھول گئے، کچھ یاد رہ گئے۔ ادھیڑ عمر فربہ نتالیہ پریگارنیا ۔۔۔ جس نے روسی زبان میں غالب کی شاعری پر ایک بڑی کتاب لکھی۔۔۔ جب مجھے 2003ء میں دوہا قطر کا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا تھا تو نتالیہ کو اہم ترین تنقید نگار کے طور پر نوازا گیا تھا۔اشوک واجپائی، ازابیل شاء، صدر الدین ہاشوانی، پران نول، جاپانی یامانے، دوبئی کا شہزادہ سُمیل زراوی۔۔۔ سب کے ساتھ ملاقاتوں اور قربتوں کا حال اس مختصر تحریر میں کیسے سما سکتا ہوں
۔۔۔۔۔
جناب تارڑ کی کتابوں سے" موت" کے رومانس کی کچھ جھلکیاں۔۔۔ 
سنو لیک ۔۔۔صفحہ 390
 ہسپر گلیشئیر۔۔۔"موت اگر یہاں نہیں آئی تو پھر کبھی نہیں آئے گی۔۔۔موت کے بعد مرنے کا منظر۔۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔
یاک سرائے۔۔۔ صفحہ 207 تا 2017
"سیاہ پوش سے ملاقات"
اس کی یکلخت موجودگی نے مجھے آزردہ کردیا۰۰۰۰فنا کیوں تعاقب کرتی ہے۔وہ جانتی ہے کہ وہی آخری بازی جیتے گی۔وہی مات دے گی تو اس کے باوجود ٱن لمحوں میں کیوں اپنا آپ دکھاتی ہے جب انسان فنا سے ماورا ہونا چاہتا ہے۔یہ تو دھوکا دہی ہے۔فریب ہے۔میں نے ٱسے سخت ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا " یہاں ۔۔اِس پرُامن علاقے میں،جھیل کرومبر کے ےکناروں کے آس پاس دریائے شین پر معلق کوئی پتھریلی شاخوں والی گیلری نہیں ہے ۔۔۔ورگوتھ کے وہ نالے نہیں ہے جن کے منہ سےجھاگ نکلتی ہے ۔ کوئی عمودی چٹان یا واخانی نالہ نہیں ہے تو تم۔۔۔تم یہاں کیا کرنے آئے ہو۔۔۔یہاں تو جھیل کنارے ایک ہمدرد اور محفوظ راستہ ہے۔مارموٹ سیٹیاں بجاتے ہیں۔تو تم یہاں کیا کرنے آئے ہو ؟"
 "میں یہاں اس لیے آیا ہوں اگرچہ مجھے کسی بھی مقام پر پائے جانے کے لیے کسی جوازکی ضرورت نہیں لیکن میں یہاں خاص طور پر اس لیے آیا ہوں کہ تم اپنی مکمل تنہائی کی آزردہ خوشی میں اس منظر سے مکمل مسرت حاصل کرسکو"
 "تم یقیناً مزاق کررہے ہو۔۔۔موت کی موجودگی کسی منظر میں سے مسرت حاصل کرنے کا سبب کیسے بن سکتی ہے؟"
 "تم بھولتے ہو۔میں صرف موت نہیں محبت بھی ہوں۔۔۔اور دنیا کے کسی بھی نادیدہ اور دشوار ترین راستوں سے گزر کر سامنے آنے والے منظر میں جو مسرت پنہاں ہوتی ہے وہ صرف اور صرف فنا کے احساس سے جنم لیتی ہے۔اگر تمہیں حیاتِ جاودانی کا یقین ہو۔قبر کی قربت سے ماورا ہوجاؤ تو کُل کائنات تمہارے لیے بےمعنی ہوجائے۔۔۔دنیا کے سب سے دل میں اُلفت اور کشش بھر دینے والے منظر اور چہرے تمارے لیے بےحقیقت ہوجائیں کیونکہ۔۔۔تم اُنہیں کسی اور وقت کسی زمانے میں بھی دیکھ سکتے ہو۔۔کیونکہ وہ بھی ہمیشہ موجود رہیں گے اور تم بھی۔۔لیکن جب تم جانتے ہو کہ اگلے لمحے،کل تم نہیں ہوگے تب۔۔۔تم اپنی فنا کے احساس کے ڈر سے اُس منظر کی خوشی حاصل کرتے ہو۔۔۔میں تو تمہارا محسن ہوں"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور سے یارقند تک۔۔۔صفحہ32
 نیند کی عارضی موت میں دفن ڈورس ڈے کی مُدھ بھری آواز میرے رگ وپے میں گونجتی تھی۔۔۔جو بھی ہوگا۔۔۔ دیکھا جائے گا۔۔۔ہم مستقبل میں نہیں دیکھ سکتے۔ 
 ماسکو کی سفید راتیں ۔۔۔۔


منگل, اگست 25, 2015

"جاناں جاناں"

جاناں جاناں"
کتابِ زندگی۔۔۔حقیقی۔۔۔مجازی
ایک کتابِ زندگی وہ ہے جس میں سوچ کے معمولی نُکتے سے عمل کی لغزش کے ہلکے سے نقطے تک من وعن جتنی تُندہی سے لکھا جارہا ہے اُتنی ہی تیزی سے صوتی اور بصری طور پر محفوظ بھی کیا جا رہا ہے۔۔۔۔کسی اور کے لیے نہیں صرف اور صرف ہمارے اپنےلیے۔
ایسی تصنیف جسے ہم جانتے ہوئے پہچاننے سے انکار کرنے کی جئرات کر بھی دیں لیکن ایک ایسے وقت پر ایمان رکھتے ہیں جب اُسے جھٹلانے کی ذرا سی بھی گنجائش قطعاً نہ ہو گی۔
قضاوقدر کا فلسفہ بھی عجیب ہے کہ ہم جو کرتے ہیں جو سوچتے ہیں پہلے سے لکھ دیا گیا ہے اور جو لکھا جا رہا ہے اُسے چھپانا یا اُس میں ردوبدل کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔اس فانی دُنیا میں رہتے ہوئے انسانوں کے ساتھ رشتوں اور تعلقات کو برتتے برتتےسکون کی خاطر اُس کی چیزوں کے ساتھ بھی ہمارے رشتے بن جاتے ہیں۔۔۔۔کوئی روپے پیسے،زمین جائداد میں سکون تلاش کرتا ہے تو کوئی کاغذ قلم سے دوستی کر لیتا ہے۔کسی کے پیر میں پہئیے لگ جاتے ہیں وہ جہاں گرد ہو جاتا ہے تو کوئی اپنے اندر اُتر کر اپنی تلاش کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔
ہماری چاہ کے بغیر،غیرارادی طور پر کتابِ زندگی قلم بند ہونا اگر حقیقت ہے تو اپنی ذاتی ڈائری میں زندگی کی سفر کہانی لکھنا "مجاذ" ہوتے ہوئے بھی ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ مجازی کیفیت ہمیں اپنے اوپر یقین کی صلاحیت عطا کرتی ہے کہ آگے بڑھتے بڑھتے جب ہم ذرا دیر کو ٹھہر کے اس کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو اپنی کتھا اپنی ہی تحریر کسی اور جہان کی کہانی لگتی ہے جس میں خوشیاں محفوظ ہوتی ہیں تو غم بھی سانس لیتے ہیں ۔ ایسے سوال ملتے ہیں کہ وقت آگے چل کر جن کے جواب دے دیتا ہے تو ایسے جواب بھی حیرت زدہ کر دیتے ہیں جن کے سوال آنے والے وقت میں سامنے آتے ہیں۔
جب ہم اپنے احساس کو لفظ میں سمیٹ کر لکھتے ہیں وہ ہمارے اندر کا اندر ہوتا ہے۔۔۔ہمارا وہ رنگ جس سے ہم خود بھی واقف نہیں ہوتےاور ہمارا ظاہر تو وہی عام سا ہوتا ہے۔۔۔۔
رشتوں کے رنگ میں رنگا ہواَمصلحتوں کی ڈورمیں جکڑا ہوا۔رسموں رواجوں اور مذہب کی پابندیوں میں مستورومحفوظ ۔
یادوں کو لفظ میں سمیٹنے کا ہنر اللہ کی طرف سے ایک بہت خاص تحفہ ہے جس سے ہم اپنی ذات کی ان بھول بھلیوں سے آگاہ ہوتے ہیں جنہیں وقت کی گرد دھندلا دیتی ہے۔ اپنی ذات کی یہی خوبیاں اور خامیاں آنے والی زندگی میں ہمارے کردار کی بنیاد بنتی ہیں۔اپنی ذات کے اسرار کھوجنے اور اپنے اندر اُٹھنے والے سوالوں کے جواب ہمیں اپنے آپ سے بہتر کہیں سے نہیں ملتے۔
انسان وقت کے ساتھ پرانا اورناکارہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک روز سب چھوڑ کر خالی ہاتھ چلا جاتا ہے لیکن اُس کی چیزیں وہیں رہتی ہیں۔ہم سب کی ڈائری میں ایسا ورق ضرور ہوتا ہے جسے ہم اکثر دوسروں کو تو چھوڑیں اپنی نظر سے بھی بچا کر محفوظ رکھتے ہیں۔ کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے جب ہم اسےان جان کے سامنے سودوزیاں سے بےپروا ہو کربڑی بےنیازی سے پلٹ دیتے ہیں۔میری خاکی ڈائری آج اس وقت میرے ساتھ میرے پاس ہے۔۔ میری ٹائم مشین ۔۔۔جب چاہوں اس کے ورق پلٹ کر انہی زمانوں میں لوٹ جاؤں اور ان سب خوشبو لمحوں کو چھو لوں جو میری سوچ کہانی کے رازدار ہیں تو آج اس پل میرے اپنی سوچ پر یقین کا آئینہ بھی ہیں۔جس طرح ابھی نہ جانے کتنے لمحے زندگی جینا ہے اسی طرح اس ڈائری کے بھی بہت سے صفحات کورے اور ان چھوئے میرے منتظر رہتے ہیں۔ بہت قیمتی ڈائری ہے میرے حوالے سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے حوالے سے جن سے میں زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار ملی لیکن لفظ کی صورت اُن کا لمس اُن کے وجود کی گواہی بن کر ٹھہر گیا۔۔
میں لمحۂ موجود تک اپنے سب پسندیدہ شعراء سے ملی،اُن کو قریب سے دیکھا ،اُن کے لفظ کو ان کے لہجے میں محسوس کیا ان سے آٹوگراف لیے لیکن صرف احمد فراز سے نہ مل سکی۔ 80 کی دہائی میں وہ خود ساختہ جلاوطن تھے اورمیں نئی صدی کی اولین دہائی میں لفظ کی دنیا سے قطعی آؤٹ۔ جہاں ایک شدید تشنگی کا احساس ہے وہیں سکون بھی کہ شاید اچھا ہی ہوا جو ہوا اور ان کا جادواثر بُت ان چھوا رہا۔ اگرچہ لفظ اور خیال کے خوبصورت پیکر میں ڈھلا وہ بُت اتنا مکمل دکھتا تھا کہ شاید ان کی شخصیت اس میں دراڑ نہ ڈال سکتی۔لیکن یہ بھی حق ہے کہ بُت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اگر اس میں ذرا سی بھی خراش آ جاتی تو بہت کچھ بکھر سکتا تھا۔ بس میری ڈائری میں اُن کے ہاتھ کا لمس نہ ہونےکی اداسی یا ایک خلش سی ہے۔ ڈائری مکمل کرنے کی چاہ میں بہت بار اُن سے ملنے کا سوچا لیکن صرف سوچ سے کیا ہوتا ہے۔اُن کے جانے کے بعد جب ساری امید ختم ہو گئی تو ڈائری بہلانے کو اُن کے دستخط کا عکس کورے صٖفحے میں یاد کی گوند سے چپکا دیا۔ جانتی ہوں ڈائری میں محفوظ یادیں خوشبو دار پھول کی طرح ہی ہوتی ہیں جنہیں رکھتےتو بہت شوق سے ہیں لیکن بعد میں صرف یاد کے بھولے بسرے داغ ہی ملتے ہیں۔ لیکن پھر بھی خوش ہوں کہ لفظ کی خوشبو سے مہکتی ڈائری میں احمد فراز کا نام پہلے  صفحے پر جگمگایا تو ان کا لمس کہیں سے کسی طور تو ملا۔
بحیثیت انسان ہر ایک میں کسی نہ کسی خوبی کے ساتھ ساتھ بہت سی خامیاں اور تضادات بھی ہوتے ہیں۔اُن کے قریب آنے والے اپنی اپنی افتادِ طبع یا اپنے ظرف کے اعتبار سے فیض یاب ہوتے ہیں۔جب ہم لفظ کے رشتے سے کسی کی قربت محسوس کرتے ہی تو اکثر اس کی شخصیت کا تضاد ہمیں پریشان کر دیتا ہے۔ حالانکہ ہمیں صرف اپنی سوچ اور فکر کی تلاش کو ہی سامنے رکھنا چاہیے۔
زندگی میں اگر احمد فراز کی "خوشبو" نہ ہوتی اور پروین شاکر کے"جگنو" نہ دمکتے تو شاید زندگی گزر تو جاتی لیکن پھر بھی بہت کچھ ان کہا ان سنا ضرور رہ جاتا۔ اللہ اپنے عفووکرم کے صدقے دونوں کی آگے کی منزلیں آسان کرے۔ آمین۔
احمد فراز
تاریخِ پیدائش۔۔۔12جنوری 1931 بمقام کوہاٹ
تاریخ وفات۔۔۔25 اگست 2008بمقام ایچ ایٹ قبرستان اسلام آباد
احمد فراز کی تحریر کا عکس ۔۔۔میری ڈائری سے۔۔۔
اُس شخص کا مرقد ۔۔۔جس نےاپنی لازوال شاعری سے ہمارے ذہنوں میں زندگی کے رنگ اجاگر کیے۔

٭ "جاناں جاناں"
کے مسحورکن ترنم اور خیال کے بعد
٭"سنا ہےلوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں"۔
کے درمیان ہر لفظ بےمثال اور لازوال ہے۔ لیکن اول وآخر کا نشہ تو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہ ہی زنجیر بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھا تھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
ہم، کہ روٹھی ہوئی رُت کو بھی منا لیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سب ہی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعروشاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں‌ اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌ کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں‌ اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌
۔۔۔۔

پیر, اگست 24, 2015

"بھاگ لگے رہن"

"بھاگ لگے رہن"
زندگی حرکت کا نام ہے۔ کائنات کی ہر شےکا  بلا رُکے،مسلسل اپنے مقررکردہ افعال سرانجام دینا زندگی ہے۔انسان اس کائنات کا ایک پُرزہ ہے۔اس کا ہر کام بھی پہلے سے طےشدہ ہے۔پلک کی جُنبش سے لے کر آخری سانس کی آخری سوچ تک ایک روبوٹ کی مانند جیتا ہےاور کام ختم کر کے چلا جاتا ہے۔قضاوقدرکی بیڑیاں پہنے زندگی کی بند گلی میں"می رقصم"۔ کولہو کے بیل کی طرح گھومتے جانا اگر قسمت ہے تو فرار کی ازلی خواہش "بھاگنا"جبلت تو اس سے ڈرنا فطرت ہے۔ وہ جبلت جو ماں کی کوکھ میں محفوظ ومامون ہوتے ہوئے بھی بےقراری سے باہر آنے پر اُکساتی ہے توان جان رستوں کا خوف چِلّانے پر مجبور کر دیتا ہے۔قید انسان کی سب سے بڑی مایوسی سب سے بڑی خلش اور سب سے بڑا ناکامی کا احساس ہے۔ یہ احساس جو نومولود کی آکسیجن کے حصول کے لیے پہلی چیخ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ چیخ اگر سلامتی کی گواہی ہے۔۔۔بقا کا اعلان ہےتو انسان کی کمزوری اور بےبسی کا اظہار بھی ہے۔آزادی زندگی کی پہلی نعمت۔۔۔وہ گراں قدر عطیہ جو ایک بار مل جائے تو انسان ساری زندگی اس کی قدر سے بےنیاز ہو جاتا ہے۔پھر انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے قدم قدم پر جسمانی اور جذباتی سمجھوتوں کی قید میں زندگی گزارتا چلا جاتا ہے۔اپنی زندگی اپنی مرضی سے جینے اور اپنے فیصلے خود کرنے کے سرابِ صحرا میں کھو جاتا ہے۔ وہ بچہ جو اپنے وجود کی تکمیل کے بعد اپنے گوشۂ عافیت سے نکل بھاگا ذرا بڑے ہونے پر اپنے قریبی رشتوں سے بھاگ کر ان جان رستوں کی جانب بھاگتا ہے۔۔۔سمجھ دار ہوتا ہے تو معاشی اور معاشرتی تقاضے اُسے کسی اور سمت بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جسم کی تسکین کی جستجو کرتا ہے تو روح کی پیاس بےچین رکھتی ہے روح کی آواز پر کان دھرتا ہے تو جسم کی ناآسودگی تھکاوٹ میں بدل جاتی ہے۔سمجھوتوں کی بند گلی اُسے اپنے آپ سے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
بقول شاعر ؎۔
خود اپنے سے ملنے کا یارا نہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے 
دن کی روشنی اگر اندھادھند بھگاتی ہے تو رات کی تاریکی نیند آنکھوں سے بھگا دیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ نیند تو سولی پر بھی آ جاتی ہے لیکن آنکھ کھول کر سونا ایسا عذاب ہے جو اپنی شناخت اپنے مقصدِحیات کے کھوج میں بھاگنے والے ہی جان سکتے ہیں۔ دُنیا کے کامیاب ترین انسان غیرشعوری طور پر اپنے اندر اسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتے ہیںلیکن اُن کی ذات کے گرد محنت مشقت،ارادے اور یقین کے مضبوط خول اُنہیں کسی حد تک مایوسی سے بچاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی توانائی عطا کرتے ہیں۔ایک بھرپُور زندگی گُزارنے والے بھی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی کمی یا پچھتاوے کے آسیب میں مُبتلا نظر آتے ہیں۔ہر انسان اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی درز ضرور ڈھونڈ لیتا ہے جہاں سے آنے والی ناآسودگی کی لُو اُسے اپنے ٹھنڈے کمرے میں بھی کروٹیں بدلنے پرمجبُور کردیتی ہے۔غرض یہ کہ زندگی کے آخری سانس تک وہ خوب سے خوب تر کی تلاش کے سفرپر گامزن رہتا ہےاوراِسے ایک کامیاب زندگی کا فلسفہ بھی گردانتا ہے کہ زندگی ٹھہرے پانی کا نام نہیں بلکہ آگے بڑھنے اورترقی کرتے رہنے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔
گر دُنیا میں قدم رکھنے میں ہماری مرضی کا قطعاً عمل دخل نہیں توبچپن کی کمزوری ،جوانی کے لااُبالی پن اور بڑھاپے کی لاچاری کے علاوہ بھی،مکمل ہوش وحواس کے ساتھ اور خودمختار ہوتے ہوئے بھی، ہمیں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنےکا حق یا موقع کبھی نہیں ملتا۔ ہماری زندگی ہمارے ساتھ جڑے رشتوں کے حصار میں اوران کے رنگ میں رنگتی گزر جاتی ہے.ہم اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے تقدیر کا لکھا کہتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ ہماری مایوسی کی انتہا بس یہی ہوتی ہے کہ روتے ہوئے آنا اگر زندگی کا پہلااحساس ہے تو تقدیر سے لڑتے چلے جانا زندگی کے آخری سانس کی داستان ہے۔ ساری عمر زندگی سے دست وگریباں تو رہتے ہیں لیکن پھر بھی اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ہم ہمیشہ جینے کی لایعنی خواہش رکھتے ہیں۔زندگی کے لیے زندہ رہنے کی خواہش بنیادی شرط ہے۔جب زندگی سے مزید کچھ پانے کی طلب نہ رہے اور کھونے کا خوف ختم ہو جائے تو زندگی اور زندہ رہنے کی تمام کشمکش قرار پا جاتی ہے۔ایسا بہت کم کسی کی زندگی میں ہوتا ہے۔"اور اور" کی حسرت آنکھ میں پتھرا کر رہ جاتی ہے تو دُنیاوی نعمتوں اور لذتوں کے حصار پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر زندگی کے آخری لمحے تک رقصِ لاحاصل  میں اُلجھائے رہتے ہیں۔
حرفِ آخر
زندگی ایک میرا تھن دوڑ ہے جس میں ہر شخص اپنی اپنی صلاحیت ،اپنی اپنی قسمت ،اپنی اپنی خواہش ،اپنی اپنی ہوس کی رفتار سے بھاگ رہا ہے ،دیکھنے والی آنکھ جس کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتی ہے وہ حرف ِآخر ہرگز نہیں فیصلہ آخری انسان کی آخری سانس سے پہلے ممکن ہی نہیں- ہمیں ملنے والی محبتیں شفقتیں راستے میں آنے والے سنگ ِمیل اور حوصلہ افزائی کرتے مہربان اجنبیوں کی طرح ہوتی ہیں جو کبھی پانی کی بوتل پکڑاتے کبھی تھپکی دیتے ملتے ہیں ایک پل کا ساتھ نئی توانائی دے جاتا ہے اور ہم پھر رواں دواں ہو جاتے ہیں- فاصلوں کی دوڑ میں لمحہ لمحہ اہم ہوتا ہے -قیام اتنا ہی کرنا چاہیے کہ دوڑ میں شامل بھی رہیں اور پیچھے بھی نہ رہ جائیں - خواہشوں کی پیاس حاوی ہو جائے تو رفتار سُست پڑ جاتی ہے اور اگر خواہشوں سے کسی طرح فرار حاصل کر کے بھاگا جائےتو شاید دوڑ تو جیتی جا سکتی ہے لیکن دلی اطمینان نہیں مل سکتا ۔

اتوار, اگست 16, 2015

" یہ زندگی کے میلے"

یومِ آزادی۔۔۔۔ 
زندگی آزادی کا نام ہے ۔۔۔۔ کسی وجود کی گہری پرتوں میں محفوظ و مطمئن رہنے کے بعد ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکل کر رنگ و روشنی میں جیتے جاگتے جسم کے سانس لینے کی آزادی اور پھر مقررہ سانسوں کے حساب کتاب کے بعد اپنے ہی جسم کی گھٹن سے نجات پا کر کائنات کی بےکراں وسعتوں میں دربدری کی آزادی۔
کیا ہے یہ انسان ؟ اور کیا ہے یہ سب گورکھ دھندا؟ آزادی کی  طلب اسے قید سے فرار کی خواہش پر اکساتی ہےتو ایک چھوٹی   قید سے بڑی قید میں جانا اس کی جبلت اور فطرت میں شامل ہے۔
زندگی اسی کا نام ہے اور زندگی کے ہر رنگ کو سمجھنا اور برتنا نہ صرف اپنی زندگی سہل بناتا ہے بلکہ انسان دوسروں کے لیے بھی آسانیوں کا باعث بنتا ہے۔آزادی کا مفہوم خوشی ہے لیکن خوشی زندگی سے عبارت ہے ۔جب تک زندگی رہے خوشی لینے کا خوشی پانے اور خوشی دینے کا احساس بھی زندہ رہتا ہے۔ یہ صرف سانس کے آنے جانے کا کھیل ہے۔ سانس کے ساتھ آس کا رشتہ ہی زندگی کے رنگوں کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ جیسے ہی روح و جسم کی ڈور ٹوٹتی ہے۔۔۔کائنات میں بکھرا ہر رنگ ہر کہانی اور ہر تصویر تو اسی جگہ موجود رہتی ہے بس ہمارا اپنا ربط اس سے ختم ہو جاتا ہے دوسرے لفظ میں ہم اس تصویر کے چوکھٹے میں سے نکل جاتے ہیں۔ اس وسیع وعریض تصویر میں ہماری حیثیت ایک ذرے سے بھی کم تر ہے اور سوائے ہماری اپنی ذات کے کسی کو اس کمی کا احساس نہیں ہوتا سوائے ہمارے اپنے پیاروں کے وہ بھی محض گھڑی دوگھڑی کے لیے۔
اسلام آباد کے خوبصورت موسم  میں چودہ اگست کے رنگوں اور چہل پہل کی بہار ہمیشہ کی طرح اپنے حصار میں لیے ہوئے تھی۔ برسوں سےسب کچھ ویسا کا ویسا ہی تھا۔۔۔بچوں کی خوشی۔۔۔سڑکوں،گلیوں بازاروں اور گھروں میں پورے جوش وخروش سےجابجا لہراتے قومی پرچم،آتش بازی دیکھنے اور خود اپنے طور پر چراغاں اور آتش بازی کے لیے رات کاانتظار۔
 تہذیب بیکرز پرلوگوں کا ایسا جمِ غفیر کہ لگتا تھا آج سب کچھ مفت میں مل رہا ہے۔اونچی آواز میں ملی نغموں کی مست کر دینے والی دھنوں میں سب کھنچے چلے آ رہے تھے۔بڑی بڑی گاڑیوں پر بڑے بڑے پرچم لہرا رہے تھے تو خواتین برانڈڈ اور بڑے چھوٹے بچے ہرے اور سفید کپڑے پہن کر شاداں تھے۔اندربیکری کا اسٹاف سبز رنگ کی ٹی شرٹ میں سرو کر رہا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ۔۔" ہم ہیں پاکستانی" ۔ سارے دن کا تو پتہ نہیں لیکن رات 10 بجے کے قریب یہ عالم یہ تھا کہ کھانے پینے کے سب کاؤنٹر خالی ہو چکے تھے۔صرف گرما گرم پزے دھڑا دھڑ بک رہے تھے اور رش کا عالم یہ تھا کہ ہر سو کے بعد ٹوکن نمبر دوبارہ صفر سے شروع کیا جاتا اور نہ جانے کتنے ہزار ہو چکے تھا۔۔تہذیب کی خاص آئس کریم پر خوب رش تھا اور بغیر قطار کےسب خاص وعام پاکستانیوں میں دھکے دیتے ہوئے ٹھنڈ ڈالنے کے لیے جدودجہد جاری تھی اور شدید رش کے پیشِ نظر صرف ایک اسکوپ سے زیادہ نہیں دیا جا رہا تھا۔سب خوش تھے۔۔"اپنے خرچے پر"
ایک طرف یہ عالم تھا تو دوسری طرف محض چند قدم کے فاصلے پر کچھ گھروں میں محرم کی سی اداسی اور شام غریباں کی سی شام اتری تھی۔کہیں وقفے وقفے سے آنے والے پٹاخوں کی آوازیں ماں کا سینہ برچھی کی طرح جھید کر رکھ دیتیں تو کسی گھر میں چھوٹے چھوٹے معصوم خوفزدہ بچے نادیدہ قاتل سے سہم کر گھر کے درودیوار میں پناہ لیتےجس کی دہلیز اُن کے باپ کے لیے جائے مقتل ثابت ہوئی۔
یوم آزادی کے جوش وخروش  اور گہما گمہی سے چند روز پہلے کی ان بےربط کہانیوں کا دور کا بھی واسطہ نہیں لیکن جانے کیوں پھر بھی جشن آزادی کا ذکر ان کے بنا ادھورا سا دکھتا ہے۔
اگست کے شروع کا ذکر ہے کئی روز کے حبس کے بعد رات کی طوفانی بارش سے اسلام آباد کے ندی نالے زوروشور سے بہنے لگے۔ صبح کے وقت موسم بہت خوشگوار تھا ہلکی بارش کا لطف اٹھانے سب بچے گھروں سے نکل آئے۔ بارہ سالہ سعد خلافِ معمول جلدی اٹھ گیا اور تیزی سے ناشتہ کر کے باہر کی طرف بھاگا۔آج جانے کیا بات تھی کہ سعد کو بارش اچھی لگ رہی تھی ورنہ وہ تو ہمیشہ سے بارش اور پانی سے خوف کھاتا تھا۔ باہر چند دوست مل گئے اور باتوں باتوں میں پتہ ہی نہ چلا کہ سب اپنے گھر سےکچھ دور ایک پل پر موجود تھے۔گھر کے قریب اس پل سے روز تو گزرنا ہوتا تھا کہ اس کے دوسرے سرے پر ساتھ ہی اپنا اسکول بھی تھا۔ پل سے جھانکا تو نیچے بہتے چھوٹے سے نالے میں پانی اس قدر تیزی سے بہہ رہا تھا جیسے کہ کسی دریا کا بند ٹوٹ گیا ہو۔ سال بھر بڑے بھائی نےآگے جانے سے منع کیا لیکن کچھ بےپروا دوست نیچے اتر کر نالے کو نہ صرف قریب سے دیکھنا چاہتے تھے بلکہ کسی خطرے کا احساس کیے بنا پار بھی کرنا چاہا۔۔سعد نے پہلےتو آگے بڑھنے سے انکار کر دیا لیکن جب دوستوں کا ایڈونچر دیکھا تو ان کے ہمت بندھانے پر ہاتھ پکڑ کر پتھروں پر چند قدم چلا کہ بہتے پانی کے خوف نے قدم روک دئیے۔دوستوں سے ہاتھ چھوٹنا تھا کہ پانی کاخوفناک ریلہ آیا تو اگے جانے والے دونوں دوستوں کے ساتھ خود بھی لمحوں میں پانی میں جا گرا اور دیکھتے ہی دیکھتے بےرحم پانی اسے بہا لے گیا اور کنارے پر کھڑا بھائی چیختا رہ گیا۔ اتنے میں قریبی ٹال سے کچھ نیک لوگوں نے پانی میں چھلانگ لگائی اور کسی نہ کسی طرح آگے جانے والے دو دوستوں کونکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن سعد نے نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔بہت سے لوگ پہلے سے پل پر بپھرے پانی کا تماشا دیکھنے کھڑے تھے جہاں بہت سے لوگوں نے پانی میں چھلانگیں لگا دیں وہیں میڈیا میں بریگنگ نیوز کی پٹی بھی بن کر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اُدھر آنے والے سانحے سے بےخبر ماں پر عجیب گھبراہٹ طاری تھی۔اس کے یہی دو بیٹے اور ایک بڑی بیٹی تھی۔ اور بچوں کے اتنا بڑا ہونے کے باوجود وہ انہیں اپنے سےدور نہ جانے دیتی اور نہ ہی کبھی اُن کوگھر پر تنہا چھوڑا۔ اپنی کم ہمتی پر اکثر گھر والوں کی باتیں سننا پڑتیں۔ کسے پتہ تھا کہ ماں کے یہ بےنام خدشے کبھی سفاک حقیقت کا روپ دھار لیں گے۔اس پہلے لمحے کی کہانی بیان سے باہر سے جب بھائی نے آ کر ماں کو خبر دی کہ بھائی پانی میں گم ہو گیا۔ قصہ مختصر طوفانی بارش میں بچہ ہزار کوشش کے باوجود نہ ملا۔ اگلے تین روز بارش تو رُکی رہی لیکن لاحاصل تلاش ختم نہ ہوئی۔ اسلام آباد سے آگے سواں کیمپ تک بڑے بڑے جال ڈال دئیے گئے لیکن سب بےسود۔ یہ تین دن سب گھر والوں اور ماں کے لیے امید اور وسوسوں کے مابین پل پل مرنے کے برابر تھے۔انہی دنوں کسی کے کہنے پر ماں نے آدھی رات کو اٹھ کر اللہ کے نام کا ورد کیا اور سو گئی۔ صبح آنکھ رات کے عجیب سے خواب کی گھبراہٹ سے کھلی کہ جیسے سعد کسی اندھیری جگہ قید ہے اور مدد کے لیے بلا رہا ہے۔ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ کسی ناقابلِ شناخت لاش کے ملنےکی اطلاع آئی۔ نالے کے کنارے اگی بےترتیب جھاڑیوں اور ریت مٹی کے ڈھیر میں دبی اس مسخ شدہ لاش کا ایک ہاتھ کسی کو اتفاقاً دکھائی دے گیا۔ صرف ہاتھ سے باپ نے جانے کس طرح پہچانا اور یوں وہ ہنستا چہرہ کسی کی نظر میں آئے بغیر تابوت میں بند مٹی کے سپرد ہو گیا۔
دوسرا واقعہ ایک عام اور معمول کی "ٹارگٹ کلنگ " کا شاخسانہ دکھتا ہے۔ جس میں ایک جی دار اپنے گھر کے دروازے پر گھات لگائے ہوئے قاتلوں کا نشانہ بنا۔اُس کے چھوٹے بچے چیختے رہے اور آڑے وقت میں ساتھ دینے والا وفادار کتا بندھا رہ گیا۔ ہر روز کتنی ہی ناگہانی اموات اور قتل وغارت گری کی خبریں ہمارے سامنے سے گزرتی ہیں لیکن جو واقعات اپنے شہر میں پیش آئے ہوں ان کا احساس کچھ ایسے ہوتا ہے جیسے اپنے گھر اپنے آپ پر یہ سانحہ گزرا ہو۔ اللہ پاک ہم سب کو ہر آزمائش میں ثابت قدم رکھے اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ ہر مشکل وقت کا جئرات سے سامنا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخری بات
 موت برحق ہے۔ جو آیا اُس نے جانا ہی ہے۔ لیکن"کچھ لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں اور کچھ مر کر زندہ ہوتے ہیں"۔۔۔ اور کچھ اس ایک مختصر سی زندگی میں ہی اتنے سفر طے کر لیتے ہیں کہ زندگی اُن کے پاؤں سے لپٹی چلی جاتی ہے اور راستوں کی دھول مقدر کا ستارہ بن کر جگمگانے لگتی ہے۔
یہ زندگی کے میلے۔۔۔میلہ ۔۔۔محمدرفیع
یہ زندگی کے میلے
دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
 افسوس ہم نہ ہوں گے!!
اک دن پڑے گا جانا
کیا وقت کیا زمانہ
کوئی نہ ساتھ دے گا
سب کچھ یہیں رہے گا
 جائیں گے ہم اکیلے
دنیا ہے موجِ دریا
قطرے کی زندگی کیا
پانی میں مل کے پانی
انجام یہ کہ پانی
 دم بھر کو سانس لے لے
ہوں گی یہیں بہاریں
اُلفت کی یادگاریں
بگڑے گی اور چلے گی
دنیا یہیں رہے گی
 ہوں گے یہی جھمیلے
یہ زندگی کے میلے
دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
 افسوس ہم نہ ہوں گے
۔۔۔۔
"،یہ زندگی کے میلے،،"۔۔اقتباس۔ تارڑ نامہ 2 ازمستنصر حسین تارڑ
بچپن میں فلمی گانے ہمارے کچے دماغوں اور کچے بدنوں پر بہت اثر کرتے تھے۔ کوئی فلمی گانا سنا تو خواہ مخواہ اور پہروں اداس رہے یا بے وجہ خوش ہو گئے۔ان دنوں محمد رفیع کا گایا ایک گیت ،،یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گئے،،
افسوس ہم نہ ہوں گے
بے حد پاپولر تھا۔اور عام لوگوں کے علاوہ یہ فقیر حضرات کا بھی بے حد پسندیدہ تھا۔ جو اسے گلی گلی الاپتے دست سوال دراز کرتے تھے تب مجھے یہ گیت اچھا لگتا تھا لیکن ایک بات سمجھ نہ آتی تھی۔ کہ یہ تو درست ہے کہ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گئے لیکن آخر میں یہ کیا ہے کہ افسوس ہم نہ ہوں گئے۔بھلا ہم کیوں نہ ہوں گے ۔ اگر گھر نہیں ہوں گے سکول میں ہوں گے کہیں نہ کہیں تو ہوں گے تو افسوس کاہے کا
ابھی تک یہ احساس نہ ہوا تھا کہ یہ زندگی خوبصورت اور مزے کی زندگی بالاآخر اختتام کو پہنچتی ہے۔ انسان ایک چارپائی پر رخصت ہو جاتا ہےاور میلے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
۔۔۔

اتوار, اگست 02, 2015

"الحمرا کے افسانے "


’الحمرا کے افسانے ‘‘ ازمحمود الحسن
اتوار 2 اگست 2015
نامورادیبوں کی کتاب سے جڑی ان مٹ یادوں کا بیان ۔
ممتازادیب غلام عباس نے 1930ء میں امریکی لکھاری واشنگٹن ارونگ کی کتاب “ٹیلزآف الحمرا”کا آزاد ترجمہ ’’الحمرا کے افسانے ‘‘کے عنوان سے کیا،تواسے بےحد پذیرائی ملی، اوریہ کتاب اس عہد کی مقبول کتاب بن گئی۔
اسے پڑھنے والوں نے جس طرح یاد رکھا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ کتاب کے قارئین میں ایسے بھی تھے، جنھوں نے آگے چل کرادب میں اونچا رتبہ پایا اور یہ ان کے ناسٹلجیا کا حصہ ٹھہری۔ان ناموروں کے اس کتاب کے بارے میں تاثرات ،سامنے لانے کا خیال ہی زیرنظرمضمون کا باعث ہے۔
ادیبوں کی رائے کی طرف ہم بعد میں جائیں گے،پہلے مترجم غلام عباس کا بیان پڑھ لیں جو معروف نقاد وفکشن نگارآصف فرخی کے ان سے انٹرویوکے ذریعے سامنے آیا’’ ایک عجیب بات بتاؤں،میں نے دارالاشاعت میں ملازمت 1928ء میں کی تھی۔اس زمانے میں ایک آدھ سال بعد میں نے واشنگٹن ارونگ کے افسانوں کونئے سرے سے اردومیں ڈھالنے کا تجربہ کیا۔ میں اردو کے کلاسیکی ادب سے بچپن ہی میں خوب متاثرہوگیاتھا چنانچہ الحمرا کے افسانوں میں،میں نے اصل سے بےنیاز ہو کر قصہ گوئی کا مشرقی اندازاپنایااوراس کوبڑے مرصع اندازمگرسادہ نثر میں لکھا ۔ محمد حسن عسکری جن کا اس وقت بچپن ہوگا،انھوں نے مجھے بتایاکہ انھوں نے اسے پندرہ پندرہ اوربیس بیس مرتبہ پڑھا۔ویسی نثراگرمیں اب لکھنا چاہوں تواب نہیں لکھ سکتا۔‘‘

غلام عباس کے کہے کوپڑھ لیاتواب معروف ڈراما نویس اوراس کتاب کے ناشرامتیازعلی تاج کے دیباچے سے یہ اقتباس ملاحظہ کرلیں۔"آج سے ایک صدی قبل جب امریکا کا نامور انشاپردازواشنگٹن ارونگ قصرالحمرامیں پہنچاتواسلامی شوکت وتجمل کے اس باوقارکھنڈرکودیکھ کراسے طلسم وافسوں کے پراسرار افسانے سوجھے،جنہیں نہایت خوش اسلوبی سے لکھ کراس نے ان کے مجموعے کا نام الحمرا رکھا۔

ان افسانوں میں سے میرے دوست غلام عباس صاحب نے پانچ بہترین افسانے منتخب کر کے مناسب تغیروتبدل کے بعد شستگیٔ مذاق اوررنگینیٔ بیان کے ساتھ سلیس اور رواں اردومیں ایسے مرغوب ومحبوب انداز سے تحریر فرمائے ہیں کہ مجھے یقین ہے ان کا مطالعہ ہرعمراور ہرذوق کے شخص کے لیے بے حد دل چسپی اورلطف اندوزی کا موجب ہوگا۔‘‘
غلام عباس اورامتیازعلی تاج کی آراء بیان ہوگئیں تو اب ہم ان ادیبوں کی رائے کی طرف مڑتے ہیں، جنھیں اس کتاب نے مسحورکیا۔ اردوکے جیدنقاد محمد حسن عسکری نے جب یہ کتاب پڑھی تواس وقت ،ان کوکیا معلوم تھا کہ آگے چل کرغلام عباس سے ان کی دوستی ہوجائے گی۔وہ ان کے افسانوں پرمضمون لکھیں گے۔اور خاکہ بھی۔جس میں بتایا’’ذرااوربڑے ہوئے تو ان کی کتاب ’’الحمرا کے افسانے‘‘پڑھنے کوملی۔اس عمرمیں اس بات کی کیا خبرتھی کہ اچھی نثرکیسی ہوتی ہے اوربری نثرکیسی،لیکن اس کتاب کی عبارت میں ایسی مٹھاس تھی کہ جادوساکرتی تھی۔
ہمارے خاندان میں یہ مقبول ترین کتاب تھی۔میرا کوئی بھائی ایسا نہیں، جس نے اسے دس مرتبہ نہ پڑھا ہو۔میرا ایک بھائی صولت تومہینوں اسی کتاب کوپڑھتارہا۔اسے لے کر لیٹتا تو کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہتا۔ خود میرایہ حال رہا کہ انٹرمیڈیٹ میں پہنچ گیامگراسے بچوں کے سے اشتیاق کے ساتھ پڑھتارہا۔‘‘

معروف نقاد ڈاکٹر آفتاب احمد کا غلام عباس سے قریبی تعلق تھا،جس کا اندازہ اس خاکے سے بہ آسانی ہوجاتا ہے،جوان کی کتاب ’’بیادصحبت نازک خیالاں ‘‘میں شامل ہے،اوراسی سے یہ اقتباس پڑھنے والوں کی نذرہے’’ واقعہ یہ ہے کہ میرے بچپن کے زمانے میں ہراردو پڑھنے والے بچے کی سب سے پہلے جس لکھنے والے سے غائبانہ ملاقات ہوتی تھی، وہ غلام عباس تھے۔
اس لیے کہ وہ ’’پھول‘‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور ’’پھول‘‘ ہر گھر میں ہفتہ وارسوغات کی طرح آتاتھا۔میری بھی غلام عباس سے غائبانہ ملاقات اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ غلام عباس کوبچوں اورنوجوان پڑھنے والوں کے دلوں میں گھرکرنے کا فن آتا تھا۔ ’’پھول ‘‘کا دورگزرجانے کے بعد میری بہنوں نے اورمیں نے ’’الحمرا کے افسانے‘‘کس ذوق وشوق سے پڑھے تھے، گھر میں چھینا جھپٹی کا عالم رہتاتھا۔ابابھی ہمارے ساتھ اس میں شریک رہتے تھے،اس لیے کہ ان کو غلام عباس کی نثربہت پسند تھی۔‘‘

'''
صاحب طرز قلم کار محمد خالد اختراور صاحب اسلوب ادیب شفیق الرحمن کی بچپن سے یاری تھی۔ دونوں کتابیں پڑھنے کے رسیا۔خالد اخترنے برسوں پہلے ’’نقوش‘‘ شخصیات نمبر کے لیے شفیق الرحمن کاخاکہ لکھا،جس سے دونوں کے شوق مطالعہ کی بابت اندازہ ہوجاتا ہے۔ان کے بقول’’ہم گھر والوں سے چوری چھپے دارالاشاعت پنجاب سے کتابیں منگواتے۔ان کی وی پی چھڑانے کے لیے ہم اپنے جوڑے ہوئے پیسوں سے پول کرتے۔کیا ہم بادشاہوں کی طرح خوش نہ ہوتے تھے،جب کتابوں کا بنڈل ہمارے قبضے میں ہوتا تھا؟ اور کس دھڑکن اوراضطراب سے ہم اس بنڈل کوکھولتے تھے؟ اور کیسی خوبصورت کتابیں وہ ہوتی تھیں۔ ’’قصر صحرا، عمر عیار، جنوبی سمندرکی کہانی،الحمراکی کہانیاں‘‘میں نے ایسی کتابیں پھر نہیں پڑھیں اورنہ کبھی پڑھوں گا۔وہ لڑکے خوش قسمت ہیں جنہوں نے اپنے لڑکپن میں انھیں پڑھاہے۔شفیق اکثرکہتاہے کہ وہ جوکچھ ہے انہی کتابوں کی بدولت ہے۔انھوں نے ہمیں اصل ادب کے حسن اورلطافت سے روشناس کیااورہمارے تخیل کو جلادی۔ ہم دونوں میں سے ایک بھی ابھی تک ان کتابوں کے سحرسے نہیں نکل سکا…شفیق کو جوکتاب سب سے اچھی لگی وہ غلام عباس کی الحمرا کی کہانیاں تھیں۔ان کہانیوں کے اسرار، جادو اور رومان نے اسے بالکل مسخرکرلیااور پھراس کتاب میں رنگین تصویریں بھی تھیں۔ ان دنوں میں بھدی سے بھدی تصویریں بھی کس قدرحقیقی اور جاندار لگتی تھیں۔ہم دونوں کے دل پرابھی تک وہ عجیب تصویریں نقش ہیں جوان کتابوں کے متن کوالسٹریٹ کرتی تھیں۔ویسے آرٹسٹ آج کل کیوں نہیں ہوتے۔‘‘
آٹھویں جماعت پاس کرکے شفیق الرحمن بہاول پورسے بہاولنگر چلے گئے۔چھٹیوں میں ایک باروہ بہاول پورآئے توخالد اخترنے دوست کوایک کتاب دی۔وہ لکھتے ہیں’’میرے والد صاحب کی کتابوں میں واشنگٹن ارونگ کی انگریزی کتاب ’’الحمراکی داستانیں‘‘کی ایک جلد نکل آئی۔اسے میں نے شفیق کو دے دیااور وہ چھٹیوں کے بعد اسے اپنے ساتھ بہاول نگرلے گیا۔ اس نے اس میں سے دوتین کہانیوں کے آزاد ترجمے کئے۔ میرا خیال ہے وہ’’عصمت‘‘میں چھپے۔وہ بڑے خوبصورت ترجمے تھے۔شوخ اورشگفتہ اوربے تکلف۔‘‘
آگے چل کربتایا ’’الحمرا کی کہانیاں‘‘نے جنھیں اس نے اسکول کے زمانے میں پڑھا تھا،اسے بےحد متاثرکیا ہے اوروہ ابھی تک اس کے جادوکے اثرسے(خوش قسمتی سے)نہیں نکل پایا۔مجھے یقین ہے کہ اگرکوئی اچھی خواہشیں پوری کرنے والی پری اسے اس کے لڑکپن کے زمانے کی چند گھڑیاں واپس دینے پرتیارہوجائے توان گھڑیوں کوچنے گاجن میں وہ الحمراکے رومانوں کی پراسراردنیا میں کھویاہوتا تھا۔ایک لکھنے والے پراس کے بچپن اورلڑکپن کی پڑھی ہوئی کتابوں کے اثرکا اندازہ کرنا بڑا مشکل ہے،مگراس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کا اثرگہرا اوردیرپا ہوتا ہے۔شفیق کی سنجیدہ کہانیوں میں رومانیت اورحسن ’’الحمرا‘‘کی دین ہے۔‘‘


شفیق الرحمن اوراس کتاب کے تعلق کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ان کی بےمثال تحریر ’’برساتی‘‘میں بھی ’’الحمرا‘‘کا ذکر ہے ’’ ایک دھند سی چھاگئی،چشمے کا شوردھیما ہوگیا،دھوپ پھیکی پڑ گئی،وہ سب نقوش ذہن میں ابھرنے لگے۔میں اورمیرا دوست رودباد انگلستان عبورکررہے تھے۔ہم ہسپانیہ جائیں گے۔
میں اب وہ شرارتی اوربےچین لڑکا تھاجس نے اسکول سے بھاگ کر ایک باغ میں واشنگٹن ارونگ کی کتاب’’الحمراکی کہانیاں‘‘ پڑھی تھی،جسے اندلس نے مسحورکردیاجس کے خوابوں میں وہ سہانی فضائیں بس گئیں۔‘‘
شفیق الرحمٰن، نامورادیب مستنصرحسین تارڑ کے محبوب مصنف ہیں، ’’برساتی‘‘ انھیں اس قدرپسند ہے کہ کہتے ہیں، وہ اس میں سے نکلے ہیں۔یعنی اس تخلیق نے ہی انھیں سفرنامہ نگاربننے کی طرف مائل کیا۔پہلی بارانھوں نے واشنگٹن ارونگ کی کتاب کے بارے میں ’’برساتی‘‘ ہی میں پڑھا،اور جب برسوں بعد اندلس کا سفرنامہ لکھنے کا مرحلہ آیاتوپھراس کی تلاش شروع ہوئی۔

اِن کے بقول’’’’اندلس میں اجنبی‘‘کے لیے تحقیقی مواد جمع کرنے کے دوران مجھے پنجاب پبلک لائبریری کے تہہ خانے میں ارونگ کی اس کتاب کا ایک قدیم نسخہ دستیاب ہوا جس کے ورق اتنے خستہ تھے کہ ذرا سی غفلت سے بھرنے لگتے تھے۔۔۔ میں محترم شفیق الرحمن کو ہمیشہ نہ صرف اپنے ذاتی بلکہ تخلیقی کاموں میں شریک کرلیاکرتا تھا توانھوں نے مجھے ’’الحمرا کی کہانیاں‘‘کا ایک نایاب مصورنسخہ تحفے میں بھیج دیاجومیری لائبریری میں کہیں نہ کہیں محفوظ ہوگا۔‘‘
مستنصرحسین تارڑ وہ خوش نصیب ہیں جنھوں نے واشنگٹن ارونگ کا گھربھی دیکھ رکھا ہے۔اس کی خبر ہم کوان کے سفرنامے ’’نیویارک کے سورنگ‘‘سے ملتی ہے۔’’میں ٹیری ٹاؤن کے خوش نظرخاموش سے قصبے میں دریائے ہڈسن کے کنارے امریکا کے پہلے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے مصنف ’’ٹیلزآف الحمرا‘‘کے خالق واشنگٹن ارونگ کے قدیم گھر سنی سائڈکے برآمدے میں ایک آرام کرسی پربراجمان، میامی والابراؤن ہیٹ پہنے، ایک نیکرمیں ملبوس سامنے پھیلے وسیع ہڈسن کے پانیوں میں نظریں جمائے ایک عجیب سی طمانیت اورہیجان سے دوچارتھاکہ میں نے کبھی تصورنہیں کیا تھاکہ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ میں ایک ڈھلتی دوپہرمیں کبھی ’’الحمرا کی کہانیاں‘‘ لکھنے والے کے گھرمیں اسی کرسی پربیٹھ کردریائے ہڈسن کا نظارہ کروں گاجس کرسی پروہ براجمان ہوکرآخری عمرمیں پہروں پانیوں کوتکتارہتاتھا۔‘‘
ہم نے اوپرمحمد خالد اخترکے قلم سے شفیق الرحمن کے جس خاکے کا ذکر کیا ہے، جب وہ چھپا تو لکھنؤمیں مقیم مایہ نازافسانہ نگار نیرمسعود کی نظروں سے بھی گزرا۔برسوں بعد محمد خالد اخترکے نام خط میں انھوں نے لکھا ’’بہت پہلے ’’نقوش‘‘ کے شخصیات نمبر میں شفیق الرحمن پرآپ کے مضمون میں یہ پڑھ کربڑی خوشی ہوئی تھی کہ آپ دونوں دارالاشاعت والی الحمرا کے عاشقوں میں ہیں۔میں توبڑے اطمینان سے کہہ سکتاہوں کہ بچپن سے لے کرآج تک جوکچھ بھی پڑھا ہے،اس میں اس الحمرا سے زیادہ کسی کتاب نے مجھ کومسحورنہیں کیا۔‘‘
دارالاشاعت پنجاب کی کتابوں کا برصغیربھرمیں چرچا رہا۔ نیرمسعود ان کتب کے سحرسے کبھی نہ نکل سکے،بچپن میں ان کتابوں تک پہنچ کا ذریعہ معروف افسانہ نگارالطاف فاطمہ کا گھر تھا، جس کے ساتھ ان کی دیوارسے دیوارملی تھی ۔تقسیم کے بعد وہ اس خزینہ سے جن حالات میں محروم ہوئے،اس بابت محمد خالد اخترکو نیر مسعود نے خط میں لکھا ’’ بچوں کی کتابیں مجھے پڑوس میں بہن الطاف فاطمہ صاحبہ کے یہاں پڑھنے کوملتی تھیں۔شیشے لگی ہوئی ایک چھوٹی سی الماری میں دارالاشاعت پنجاب کی کتابیں اوربچوں کی دوسری کتابیں سلیقے سے سجی رہتی تھیں اورکبھی کبھی میرا پورا دن ان کتابوں کی سیرمیں نکل جاتاتھا۔تقسیم کے بعد یہ خاندان پاکستان چلا گیا،جس کے کچھ دن بعد اس گھرکا سامان نیلام ہوا۔نیلام کی صبح یہ سامان باہرنکال کررکھا گیا توکیا دیکھتاہوں کہ میزوں،کرسیوں اورپلنگوں کے ساتھ کتابوں کے خزانے سے بھری ہوئی یہ محبوب الماری بھی رکھی ہوئی ہے۔دوڑا ہوا والدہ کے پاس پہنچاکہ اس کی بولی میرے نام چھڑوائی جائے۔مشکل یہ تھی والد صاحب(پرانا سامان خریدنے کا شوق رکھنے کے باوجود)ایسا سامان کبھی نہیں خریدتے تھے ،جوان کے کسی عزیزیا واقف کارکومجبوراً فروخت کرنا پڑجاتاہو۔میری خود ان سے کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔والدہ کووکیل بنایا۔انھوں نے وکالت کا حق اداکردیالیکن مقدمہ نہ جیت سکیں۔ایک دیوار پر بیٹھ کرمیں نے نیلامی کا منظردیکھا۔الماری کی باری آئی اوربالاآخرچارروپے ایک، چارروپے دو،چارروپے تین، بلکہ، چار روپے(کھٹ)تین کی آوازسنتے ہی میں نے خود کودیوارسے نیچے گرادیا(یہ گویا خودکشی فرمائی تھی)‘‘
نیرمسعود کوعمارتوں کے محراب سے خاص دل چسپی ہے، جس کے بارے میں بتاتے ہیں ’’محراب سے گویا مجھ کوکچھ ذاتی طورپرعجیب سی کیفیت ہے کہ مجھ کوبڑی خیال انگیزمعلوم ہوتی ہے۔علامت میں اس کونہیں کہوں گاکیونکہ علامت ولامت نہیں ہے وہ کسی چیزکی،لیکن اس میں ایک بڑی کیفیت ہے۔ہرمحراب میں کئی داستانیں پوشیدہ ہیں۔کچھ اس کا سبب غالباً یہ بھی ہے کہ واشنگٹن ارونگ کے الحمرا والے افسانے مجھ کوبہت پسند تھے اوراس میں محراب کا ذکر باربارآتا ہے۔
یوں بھی محراب کی یہ صفت بھی ہے کہ پوری عمارت مٹ جائے گی،محراب اپنی ساخت کی وجہ سے باقی رہ جاتی ہے۔‘‘
الطاف فاطمہ نے بھی بچپن میں دارالاشاعت پنجاب کی کتابوں کوخوب پڑھا۔ان سے ایک ملاقات میں ہم نے ’’الحمرا کے افسانے‘‘کا ذکرکیا توبتایا کہ یہ کتاب انھوں نے غلام عباس کے ترجمے کی صورت میں نہیں بلکہ براہ راست انگریزی میں پڑھی۔وجہ اس کی یہ بنی کہ ان کے ماموں زاد بھائی اور معروف افسانہ نگاررفیق حسین کے بیٹے شاہد حامد جوپاک فوج میں اعلیٰ عہدوں پررہے، تقسیم سے قبل سینڈھرسٹ پڑھنے گئے توواپسی پر الطاف فاطمہ کے لیے واشنگٹن ارونگ کی کتاب لائے۔
یہ ان کتابوں میں سے ہے،جس کی یاد ہمیشہ ذہن میں جاگزیں رہی۔سرزمین اندلس سے محبت عمربھران کے ساتھ رہی
مستنصرحسین تارڑ کا سفرنامہ ’’اندلس میں اجنبی‘‘ پڑھنے کے بعد ان کوخط میں لکھا ’’مستنصرمیں نے بچپن میں ارونگ کی”ٹیلزآف الحمرا”پڑھیں اورپھرلڑکپن میں قاضی ولی محمد کا سفرنامہ اندلس پڑھا۔اس وقت سے بہت پہلے میری والدہ نے مسدس حالی کے اشعارکوئی قرطبہ کے کھنڈرجاکے دیکھے والے تمام بند زبانی یاد کرائے تھے۔
اس سب کا یہ اثرتھا کہ میں اپنے بچپن میں بہت بارخواب دیکھتی تھی کہ غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈروں میں بھٹکتی پھرتی ہوں۔۔۔کچھ اتنا واضح نظربھی نہیں آتا تھا۔ مگرجیسے روح بھٹک بھٹک کرادھرہی کوجاتی تھی۔ پھر میں نے طالب علم کی حیثیت مسجد قرطبہ پڑھی۔استاد کی حیثیت سے پڑھاتی رہی۔اوربےتابی بڑھی۔میری روح اب بھی اکثروادی الکبیراورغرناطہ کے اطراف میں سرگرداں ہو جاتی ہے۔‘

شاعراورنقادجیلانی کامران کو غلام عباس کی نثراس قدر اچھی لگی کہ وہ یہ رائے قائم کرنے پرمجبورہوئے ’’الحمرا کے افسانے جس زبان میں لکھے گئے ہیں،وہ بہت حد تک منفرد ہے اور واشنگٹن ارونگ کی زبان سے کئی گنابہترہیں۔‘‘جید ادیب شمس الرحمن فاروقی نے بھی اس کتاب کوبچپن میں پڑھااورپسند کیا۔گذشتہ برس شائع ہونے والے اپنے ناولٹ ’’قبض زماں ‘‘کے پیش لفظ میں ارونگ کا حوالہ آیاتوانھوں نے بتایاکہ ’’واشنگٹن ارونگ کا نام میری عمرکے اردوخوانوں کواس کی کتاب "ٹیلز آف الحمرا"کی وجہ سے یاد ہوگا۔غلام عباس نے اس کا ترجمہ’’الحمرا کے افسانے‘‘کے نام سے کیا تھا۔‘‘


ممتاز ادیب محمد سلیم الرحمن بھی اس کتاب کے بچپن میں قاری رہے ،انھوں نے اب دوبارہ یہ کتاب پڑھ کر اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کئے۔
’’الحمرا کے افسانے‘‘نامی کتاب میں نے غالباً 1940ء یا1941ء میں پڑھی تھی۔اردومیں اس طرح کے قصے کہانیاں کہاں پڑھنے کوملتے تھے۔میں حیرت زدہ رہ گیاتھا۔ایسا لگاجیسے الف لیلہ کی کہانیوں کوکسی نے نئے اندازمیں لکھ دیا ہے۔بوڑھے نجومی اورابن ہابوس کا قصہ مدتوں یاد رہا۔لیکن سب سے زیادہ ترس سحرزدہ سپاہی پرآیاجسے ہرسوسال بعد تین دن کے لیے رہائی ملتی تھی اور جو انتظارکرتا تھا کہ کوئی اسے طلسمی قید سے چھٹکارا دلائے۔اتنا ہی زیادہ غصہ اس پادری پرآیاجس کے ندیدے پن کی وجہ سے سحرزدہ سپاہی آزاد ہوتے ہوتے رہ گیا۔
اس وقت مجھے لگتاتھا کہ دنیا کا سب سے اچھا مصنف یہی ہے جس نے"الحمرا کے افسانے"لکھے ہیں۔اب 75برس بعد اس کتاب کو دوبارہ دیکھنے کا موقع ملاتومایوسی نہیں ہوئی۔ان افسانوں کی کشش آج بھی قائم ہے۔ ‘‘ اورآخرمیں چلتے چلتے یہ بتادیں کہ " ٹیلزآف الحمرا"کا ترجمہ معروف نقاد وقارعظیم نے بھی کیاجو ’’قصص الحمرا‘‘ کے نام سے چھپا۔عمدہ ترجمہ ہے۔ نیرمسعود نے ایک خط میں اس کتاب کے سردارعلی علوی کے قلم سے ہونے والے ترجمے کی بھی تعریف کی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...