۔شوال 1436 ہجری۔
ذہن پر تنگ ہوا جب بھی اندھیرے کا حصار
چند یادوں کے دریچے ہیں جو کام آئے ہیں
اے سحر! آج ہمیں راکھ سمجھ کر نہ اُڑا
ہم نے جل جل کے تِرے راستے چمکائے ہیں
عید !!! یہ تین حرفی لفظ خوشی کی علامت تو ہےلیکن اس خوشی کا مفہوم ہر انسان کی عمر کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔بچپن کی عید نئے کپڑوں اورعیدی کی سرخوشی ہے۔لڑکیوں کی عید مہندی کی خوشبو اور چوڑی کی کھنک سےمکمل ہوتی ہے تو مردوں اور لڑکوں کی عید صبح سویرے نمازعید کے لیے وقت پر پہنچنے کی بھاگ دوڑ سے شروع ہوتی ہے۔خاتونِ خانہ کے لیےعید اُن کی نماز سے واپسی سے پہلے پہلے کھانے پینے کے مکمل انتظام واہتمام کی فکر کرنے کا نام ہے۔ ہم جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں بیتی گئی عیدوں کے یہ لمحات ہماری یاداشت کے پوشیدہ خانوں میں محفوظ ہوتے جاتے ہیں۔ جب ہم کبھی کہیں بچے کی آنکھ میں چمک دیکھتے ہیں ۔۔عید کے روز رنگ برنگ غباروں کی بہار دیکھتے ہیں یا کسی کی عید کا احوال پڑھتے ہیں تو وہ سارے پل قطاردرقطار سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔
ایسے ہی کچھ لمحوں کی دُھند میں لپٹی یاد کی خوشبو ۔۔۔۔
پہلی یاد۔۔۔ بچپن کی عید ہمیشہ تین روز کی ہوا کرتی تھی۔ اور تین روز کے الگ الگ جوڑے بنتے۔عید پر ہم دو بہنوں کے ایک جیسے کپڑے امی خود سیا کرتیں ۔اورعید سے پہلے اپنے چھوٹے سے باورچی خانے میں پینٹ ضرور کرتیں۔ جو درمیانی کمرے میں آج کل کے امریکن کچن کی ایک دیسی شکل بھی تھا۔ چاند رات کو ہم اپنے اپنے کپڑے جوتوں اور دوسری چیزوں کے ساتھ الگ الگ صوفوں پر سیٹ کرتے۔ صبح کو آنکھ ابو کی با آوازِ بلند تسبیح سے کھلتی۔ہم سب جلدی جلدی تیار ہو کر تانگے میں بیٹھ کر لیاقت باغ کی عید گاہ میں نماز عید کو روانہ ہوتے۔ واپسی پر اپنے گھر کی بجائے دادی کے گھر جاتے۔ عیدی ملتی۔ جس سے میں کہانیوں کی کتابیں خریدتی۔ابو یا چچا کے ساتھ جھولے جھولنے جاتے اور پھر دوپہر کے کھانے کے لیے اپنی بڑی خالہ کے گھر جانا برس ہا برس کا معمول رہا۔
دوسری یاد۔۔ ذرا بڑی ہوئی توعید کا رنگ ہی اور تھا۔ مہندی کی خوشبو تو ہمیشہ سے مسحور کرتی رہی اور کانچ کی چوڑی تو خود میری زندگی کا استعارہ ٹھہری۔لیکن میرے لیےعید منانے کا بہترین انداز عید کے روز ایک نئی کتاب کا ہمراہ ہونا ہوتا چاہے وہ کوئی ڈائجسٹ ہی کیوں نہ ہو۔اور اس کے ساتھ عید کے لیے خاص طور پر بنے کھانوں کا انتظار چھوڑ کر شامی کباب اور ڈبل روٹی کے سینڈوچ کی خوشبو آج بھی اُسی طرح تازہ ہے۔جوعید کے دن کا ناشتہ ہوا کرتا۔ اسلام آباد کی عید سے جُڑی بہت خاص بات عید کارڈ اور عید کے تحفے بھی ہیں جو میں پنڈی میں اپنےپچھلے اسکول کی دوستوں کے لیے بڑے شوق سے لیتی۔ اسلام آباد کی جناح سُپر مارکیٹ میں اپنی پسندیدہ دکان "بُک فئیر" پر کارڈز کی سلیکشن کے لیے بہت سا وقت گزارانا عمومی طور پر کوئی کتاب یا نئے سال کی ڈائری اور پین ہوتے۔آج کل کے دور میں سوچا جائے تو ڈائری کی کوئی حیثیت نہیں دکھتی اور تقریباً ہر کمپنی کی طرف سے بےدریغ ملتی رہتی ہیں۔ لیکن اس زمانے میں یہ تحفے بہت قیمتی سمجھے جاتے تھے اور لینے والا انہیں ہمیشہ عزیزازجان رکھتا۔
تیسری یاد۔۔۔ شادی کے بعد عید بالکل ہی مختلف گزرتی کہ صاحب کی عید کے پہلے روز ڈیوٹی لگتی ۔۔دوسرے لوگ تو ہچکچاتے لیکن صاحب کے ایک ٹکٹ میں دو مزے والی بات کہ دفتر جاتے ہوئے مجھے میرے گھر چھوڑ دیتے اور اگلے روز کی عید اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارتے۔یوں وہ عید جو میرے لیے اپنے کمرے میں اپنے ساتھ گزارنے کا نام تھی بھاگ دوڑ اور سفر کی نذر ہو جاتی۔ پھر بچوں کی مصروفیت۔ زندگی آہستہ آہستہ دریا کے دوسرے کنارے کی طرف سفر کرتی چلی گئی۔ اور وہی پرانی ساری کہانی دہرائی جانے لگی۔
برسوں اسی ڈگر پر چلتے چلتے پھر یوں ہوا کہ پہلے امی انتقال کر گئیں اور اس سال ابو بھی چلے گئےاور پھر جیسےعید بھی ساتھ ہی چلی گئی۔ اُن کے جانے کے بعد پتہ چلا کہ عید صرف ماں باپ کے دم سے ہوتی ہے چاہے بچپن کی عید ہو یا جوانی کی۔ ہم بچے ہوتے ہیں تو ماں باپ ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیاں ان کی آنکھ میں جگنو کی سی چمک لاتی ہیں۔ اور جب ہم اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ خود ماں باپ بن جاتے ہیں پھر بھی ان کی نگاہِ خیال کے دائرے سے دور نہیں ہوتے۔ اُن کی مہربان تشویش پل میں ساری تھکن اُتار دیتی ہے۔ یہ تو اُن کے جانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اب اس طرح خیال رکھنے والا کوئی نہیں۔ بس اب خود سے وابستہ رشتوں کے لیے اپنی پیاس نظرانداز کرکے دیہاڑی دار مزدور کی طرح روز اپنا کنواں آپ کھودنا ہے اور چلتے جانا ہے۔زندگی کے بنے بنائے دائروں میں سفر کرتے ہوئے احساس ہوا کہ عید کے لیے تو حکومتِ وقت بھی چھٹیاں دے دیتی ہیں اور حکمرانِ گھریلو امور کو ڈبل شفٹوں میں بنا تنخواہ کا اوور ٹائم کرنا پڑتا ہے۔ کاروبارِ خانہ داری عید کے دن پوری رفتارسے جو رواں رہتا ہے۔
انسان ہونے کے ناطے خوابوں کی کرچیاں زخمی تو کرتی ہیں لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو زندگی کے یہ میلے انسانوں اور رشتوں کے دم سے ہی ہیں۔ کبھی کہیں میزیں سجی رہ جاتی ہیں اور نہ کھانے والے ہوتے ہیں اور نہ ہی آنے والے بس ایک انتظار باقی رہ جاتا ہے۔روزِعید ہر ایک کے لیے خوشی کا دن نہیں ہوا کرتا۔۔۔ زندگی کے معاشی مسائل میں جکڑے لوگوں کے لیے عید کا دن دوہرے عذاب کا باعث بنتا ہے۔ معاشرے کی ناہمواریوں اور محرومیوں کے باعث کسی کے لیے ہر روز روزِ عید تو ہر رات شبِ برات کے مصداق گزرتی ہے تو کسی کو عید کے روز بھی عید ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ کبھی پردیس میں رہتے ہوئے وطن اور اپنوں سے دوری کے باعث کوئی اپنی تنہائی میں عید کی مانوس مہک سے دور رہتا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سارا سال عید منانے والےعید کی اصل خوشی کی گرد بھی نہیں پا سکتے۔
حرفِ آخر
عید صرف یاد اوراحساس کا نام ہے کسی کے لیے خوشی کا تو کسی کے لیے غم کا۔