جمعہ, فروری 27, 2015

"انتسابِ کُتب ۔۔۔ مستنصرحسین تارڑ"

مستنصر حسین تارڑ کی تمام کتابوں کا تعارف
جناب مستنصرحسین تارڑ کی 78 کتابیں شائع ہو چکی ہیں  اُن میں سے 56کتب اور اُن کے انتساب  درج ذیل ہیں ۔۔۔۔۔
٭1)نکلے تری تلاش میں(1971)۔
۔۔۔نیم لفٹین مبشر کے نام
٭2)اندلس میں اجنبی(1976)۔
۔۔۔کیپٹن پائلٹ ساجد نذیر  شہید کے نام


٭3)خانہ بدوش(1983)۔
۔۔۔۔اباجی کے لیے جو میری پہچان ہیں
(چوہدری رحمت خان تارڑ)
٭4)ہنزہ داستان(1985)۔
۔۔۔۔امی جان کے لیے
٭5)کےٹو کہانی(1994)۔
۔۔۔امی جی ابا جی
آپ کے جانے کے بعد
میری کمر پر کوئی تھپکی نہیں دیتا۔
مجھے کوئی بےوجہ دعائیں نہیں دیتا۔

٭6)پیار کا پہلا شہر(1975)۔
۔۔۔ میمونہ کے نام

٭7)پرندے(1984)۔
۔۔۔۔سلجوق،سُمیر اور قرۃ العین مستنصر کے نام

٭8)چک چک(2003)۔
۔۔۔سلجوق کے نام
٭9)راکھ( ایوارڈیافتہ1997)۔
۔۔۔سُمیر تارڑ کے نام
٭10)دیوسائی(2003)۔
۔۔۔لاڈو بیٹی عینی کے نام
٭11)برفیلی بلندیاں(2001)۔
۔۔۔سلجوق اور رابعہ کے نام

٭12)پُتلی پیکنگ کی(2009)۔
۔۔۔عینی اور بلال کے نا م
٭13)سُنہری اُلو کا شہر(2005)۔

۔۔اپنےنواسےنوفل اور پوتی مشال کے نام
٭14)مورت(1990)۔
۔۔۔زبیرحسین  تارڑ  کے لیے
جو میرے لیے اب بھی
: چھوٹا  ببو ہے
٭15)گزارا نہیں ہوتا(1987)۔
۔۔۔برادرِعزیز نیاز احمد کے لیے
٭16)جپسی(1987)۔
۔۔۔۔۔اعجاز احمد کے نام
٭17)چترال داستان(2004)۔

۔۔۔اعجاز احمد کے لیے

٭18)شمشال بےمثال(2002)۔
۔۔۔ پیارے افضال احمد کے نام
٭19)اےغزالِ شب(2010)۔
۔۔۔نیاز احمد کے نام


٭20)ہزاروں ہیں شکوے(1998)۔
۔۔۔شفیق الرحمٰن کے نام
٭21)یاک سرائے(1997)۔
۔۔۔احمد داؤد کے نام
٭22)سفر شمال کے(1991)۔
۔۔۔پسّو کے ماسڑ حقیقت کے نام
٭23)سنو لیک(2000)۔

۔۔۔تلمیذ حقانی کے نام
٭24)الاسکا ہائی وے(2011)۔
۔۔۔ چنار کے ایک خزاں رسیدہ پتے کے نام۔۔
کُونج کے نام جو میری سفری رفیق تھی۔۔
اور
 یار ِبےمثال تلمیذحقانی کے نام
٭25)نیپال نگری(1999)۔
۔۔۔گندھارا کے مہاتمابدھ کے نام

٭26)تارڑ نامہ 2۔۔ 
۔۔۔محمد خالد اختر کے نام
٭27)تارڑنامہ 3۔۔۔

۔۔۔کرنل محمد خاں کے نام 
٭28)الو ہمارے بھائی  ہیں(2007)۔

۔۔۔ دنیا بھر کے الوؤں کے نام
٭29)کالاش (وادی کافرستان کا ڈرامائی سفرنامہ) ۔
۔۔۔کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
  یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
      (اقبال ساجد)      
٭30)شہپر
۔۔۔پاکستان ائیرفورس کے نام
٭31)فاختہ1974۔

٭32)پکھیرو۔(1976)۔









٭33)نانگا پربت(1991)۔


٭34)بہاؤ1990۔

٭35)دیس ہوئے پردیس1994۔
٭36)رتی گلی2005۔

٭37)منہ ول کعبہ شریف(2006)۔










٭38)غارِحرا میں ایک رات(2006)۔

٭39)قلعہ جنگی2008۔














٭40)قربتِ مرگ میں محبت(2008)۔

٭41)ماسکو کی سفید راتیں(2009)۔


٭42)خس وخاشاک زمانے(2010)۔

٭43)ہیلو ہالینڈ2011۔


٭44) ڈاکیا اور جولاہا2012   ۔


٭45)لاہور سے یارقند تک2014۔ 




٭46)امریکہ کے سو رنگ(اگست2015)۔

٭47)آسٹریلیا آوارگی(اگست 2015)۔

٭48)راکاپوشی نگر(اگست2015   )۔

٭49)اور سندھ بہتا رہا2016۔

٭50)لاہورآوارگی(2017)۔


٭51)۔حراموش ناقابلَ فراموش۔2017۔
٭52)پیار کا پہلا پنجاب(جنوری 2017)۔
٭53)منطِق الطیر،جدید(اکتوبر 2018)۔


۔۔۔۔۔۔۔۔

٭54)صنم کدہ کمبوڈیا 
سفر  2018
اشاعت مارچ 2020
٭55)ویت نام تیرےنام
سفر۔۔ جون2018 
اشاعت۔۔مارچ 2020
 

٭56)تارڑ نامہ(7)۔ اگست 2020

٭57)جوکالیاں  (جوکالیاں ۔ ٹلہ جوگیاں۔ سٹوپوں کا شہر سوات، پنجاب کا واٹرلُو چیلیانوالہ اور جوکالیاں)۔
اشاعت دسمبر 2020
۔۔۔۔۔۔
 ٭58) کیوبا کہانی(دبئی،امریکہ،میکسیکو اور کیوبا کے سفر)
سفر2019
اشاعت اگست 2021
۔۔۔۔۔

منگل, فروری 24, 2015

"سوال کی موت"


"سوال کی موت"
سوال کی موت ۔۔۔طارق بلوچ صحرائی
صرف ایک بات کا خیال کیا جائے تو آپ کی اینگزائیٹی ختم ہو سکتی ہے۔وہ یہ ہے۔
زندگی میں کبھی خدا بننے کی کوشش نہ کرنا اور نہ کبھی رسول بننے کی۔
جو چاہا وہ ہوجائے،وہ خدا ہوتا ہے جو مانگا وہ مل جائے وہ رسول ہوتا ہے۔
بےچینی ۔۔۔صفحہ 144۔۔۔
کتاب سوال کی موت پڑھنے کے بعد میرا احساس ۔۔۔
سال 2014 کے آخری مہینے میں بغیر کسی خاص چاہ یا کوشش کے اچانک ملی اور پھر بقول شاعر۔۔
۔۔"چراغوں میں روشنی نہ رہی "۔
سوال کے جتنے بھی چراغ وجود کے ویران قبرستان میں ٹمٹمانے کی لاحاصل سعی کرتے تھے۔۔۔۔ ورق ورق پلٹنے پر یوں سامنے آتے گئے کہ لگا جیسے کسی نے وہ چوری پکڑ لی ہو جس کو دل کے سب سے اندھے گوشے میں اپنی نظر سے بھی بچا کر چھپایا گیا ہو۔
یہ کتاب کیا ہے ایک آئینہ ہے۔۔۔۔جس میں دیکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے تو چھوڑنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔۔۔ اگر اندر کا اندر دکھتا ہے تو ایک ایسا ساتھ بھی محسوس ہوتا ہے جو بن کہے۔۔۔ بنا جھگڑا کیے سوچ سفر کے ہر موسم میں روح کی پرواز کا رازداں ہے۔
اس کتاب میں کل 48 افسانے ہیں ۔ جودرج ذیل لنک پر کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں۔ اس لنک میں شروع کے نو افسانے موجود نہیں جن میں کتاب کے نام 'سوال کی موت' والا ایک بہت اہم افسانہ بھی شامل ہے۔
لنک
http://www.sehraei.com/
شروع کے نو افسانوں کے نام ۔۔۔
٭ 1) ظرف۔۔۔
٭ 2)ہجرت کا سکندر
٭3) کتاریس
٭4)اشرف ملنگ
٭5) علیم وخبیر
٭6) دوست
٭7) جنازگاہ
٭8)سوال کی موت
٭9)دائرہ
آخر میں جناب طارق بلوچ صحرائی کے الفاظ میں دعا ۔۔۔
اللہ ہم سب کو لاحاصل محبتوں کا ظرف عطا فرمائے۔آمین

"کیمیا گر"


ناول: ایلکیمِسٹ
مصنف: پالو کولہو
زبان: 60 سے زائد تراجم
مضمون: محمد احسن ۔تحریر 27جنوری2015
صاحب ِ تحریر نےیہ کتاب پڑھی۔۔۔ 25جنوری 2015
الکیمسٹ مجھے تب پڑھنے کا اتفاق ہوا جب میں اپنی چاروں کتب پبلش کروا چکا تھا… اور کچھ کرنے کو نہ تھا۔ تب میں نے اِسے
 پڑھا۔ الکیمسٹ حالانکہ ایک ایسے غیرمسلم کا ناول ہے جو غیرمسلم ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ڈسکور کر گیا۔ اِس کتاب کو پڑھنے   کے لیے باقاعدہ اشارات ملتے ہیں… مَیں متاثر ضرور ہوتا ہوں مگر تب جب کائنات اشارات دینا شروع کر دے الله علم کی پیاس رکھنے والے کا ضرور مناسب انتظام کرتا ہے۔۔"
میں یہ مضمون فِیڈ بیک کے طور پر نہیں لکھ رہا کیونکہ نہ تو میں کیمیاگر ہوں، نہ ساحر ہوں… مگر کچھ کیمیاگروں کو جانتا ضرور ہوں۔ بس یوں سمجھیں کہ ہسٹریائی انداز میں اپنے آپ سے مخاطب ہوں، خودگویائی پر مجبور ہوں۔
یہ ایک ناول ہے جو لفظ کی جادوگری سے تعلق رکھتا ہے… اور مَیں ہیری پورٹر کی طرح لفظ کی جادونگری کا ایک طفلِ مکتب ہوں… بس اسی مناسبت سے کچھ نہ کچھ کہنے کی خواہش رکھتا ہوں۔
میری چوتھی کتاب ”آئزک نیوٹن“ پڑھ چکنے والے بخوبی جان چکے ہوں گے کہ نیوٹن کو دنیا ریاضی دان اور طبیعات دان کے طور پر جانتی ہے، وہ بنیادی طور پر ایک زبردست کیمیاگر تھا مگر اُس نے کبھی کسی کو بتایا نہیں ورنہ تختہ دار پر ٹانگ دیا جاتا، اُس زمانے کا یہی رواج تھا۔ نیوٹن نے کائنات کو سمجھنے کے لیے ریاضی کی ایک مخصوص قِسم ایجاد کی جسے دنیا ”کیلکولس“ کہتی ہے۔ سائنسی تاریخ کے مطابق کیلکولس نیوٹن نے نہیں، یورپ کے ایک اور ریاضی دان لیبنیز نے ایجاد کی تھی۔ نیوٹن نے اصل میں کیلکولس کی ہمشکل ریاضی ”فلکس ژیون“ ایجاد کی تھی۔ نیوٹن اور لیبنیز دونوں عرصہ دراز تک پریشان رہے کہ دونوں میں سے کسی نے ایک دوسرے کو نہ تو نقل کیا تھا اور نہ ہی ایک دوسرے سے ملے تھے، نہ ایک دوسرے کو جانتے تھے، پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ دو انجان افراد مختلف سرزمینوں میں رہتے ہوئے ایک ہی چیز ایجاد کر لیں۔ بہرحال، یہ عقدہ ابھی صدیوں بعد کھلنا تھا مگر کیلولس نیوٹن کے نام ہوئی جو فلک ژیون ہی تھی۔
اِسی طرح ریڈیو کی ایجاد کے پیچھے بھی اِسی طرز کی کہانی ہے کہ مغرب میں مارکونی نامی اٹالیئن طبیعات دان نے ریڈیو ایجاد کیا جبکہ اُس وقت ایک ہندوستانی باشندہ جگدیش چندرہ بوس ہندوستان میں رہ کر ریڈیو ایجاد کر چکا تھا۔ چونکہ وہ ہندوستانی تھا، اِس لیے ظاہر ہے ایجاد کا سہرہ مغرب کے سر ہی پہنایا گیا۔
سوال یہ ہے کہ ایک ہی ایجاد دو مختلف علاقوں میں کیسے ہو جاتی ہے؟ بہرحال، اِس کا جواب آسان نہیں، مگر موجود ضرور ہے۔
ایک ہی ایجاد دو مختلف غیرمتعلقہ جگہوں پر معرضِ وجود میں آ جاتی ہے، یہ کائناتی شعور کا چکر ہےجو ہرجانداروبےجان میں بیک وقت موجود ہے۔
کائنات بہت وسیع معنی رکھتی ہے. 96.7% عالمِ غیب ہے اور 3.3% ظاہر. لہذا جو کچھ بھی ہے.. جتنی بھی جہتیں ہیں.. سب کائنات ہے۔
ہر انسان نے لاشعوری طور پر کسی دوسرے انسان کی میگنیٹک فیلڈ میں کچھ وقت گزارنا ہوتا ہے تاکہ بلندیوں کی کچھ انرجیز یا تو لے سکے یا دے سکے… سب لاشعوری طور پر سرانجام پاتا ہے۔
……… علم کائنات ہر کسی پر اِسی لیے آشکار نہیں۔ بڑا بوجھ ہوتا ہے۔ الله اتنا مہربان ہے کہ بندوں پر علم کا بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہتا جب تک کسی کو اِس قابل نہ کرے۔ جب علم اور تخیل اپنی معراج پر پہنچ کر گھٹنے ٹیک دیں تو تب کائناتِ حیرت طاری ہوتی ھے.. تو پھر حیرت سے آگے اور کونسا مقام ہو گا؟ ہاں، مقامِ عشق اُس کے بعد آتا ہے اور پھر فنا. "اب کسی کا کسی سے ملنا... ایک کائناتی منصوبہ بندی ہے.. کیسے؟ یہی اس کتاب کا موضوع ہے۔
میں نے پالو کا صرف الکیمسٹ ناول پڑھا ہے۔ میں الف لیلیٰ داستان بھی پڑھ چکا ہوں۔ عرب معاشرہ دکھانے کے لیے تھوڑی بہت مماثلت ضرور پیدا کی ہو گی… یہی ناول کی تعریف ہے کہ کسی علاقے کی تاریخ اور لوک داستانوں کو بموقع استعمال کیا جائے۔ سفرنامہ میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، جہاں تاریخ یا لوک داستان کا تذکرہ کرنا ہو، سیدھا سیدھا بتانا ہوتا ہے کہ یہ بات فلاں کتاب میں درج ہے۔ تارڑ صاحب کا ناول ”خس و خاشاک زمانے“ حضرت فرید الدین عطار کے ناول ”منطق الطیر“ کے کچھ حصے رکھتا ہے۔
یہ اوپر کی گئی کچھ باتیں محض تمہید ہیں۔بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مَیں اپنی کتاب کائنات (داستانِ کائنات، انگلستان میں سو رنگ) میں کچھ برس قبل انفرادی و کائناتی شعور پر بات کر چکا ہوں جو کہ ہوبہو الکیمِسٹ ناول میں ”روحِ کائنات“ اور ”زبانِ کائنات“ہے اور اِسی تناظر میں ایک فرد کی حیثیت پر کہانی تخلیق کی گئی ہے۔ ایسے لگا کہ میں اپنے ہی خیالات کو ذرا تخیلاتی انداز میں اپنے کسی معتبر معلم کی زبانی سُن رہا ہوں۔اور یہ معتبر معلم پالو کولہو برازیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ترجمہ کیے جانے والے مشہور ترین ناول نگار بننے سے پہلے آپ موسیقار بھی رہے، جہاں گرد بھی رہے اور کئی برِاعظمی مسافتوں کے گلزار و صحرا پیادہ پا سفر کیا… پھر ہِپی (بھٹکے ہوئے درویش کہہ لیجیے) بن کر لمبے لمبے بال بھی رکھے، نیپال اور دیگر غریب ممالک کی سڑکوں پر سوتے، اور خوب خوب سُوٹے لگاتے۔ بعد میں اِنہوں نے کئی ناولز لکھے جن میں الکیمِسٹ کو دوام حاصل ہوا۔
مجھے امید ہے کہ احباب کو یہ ناول ضرور پسند آئے گا… اِسی وجہ سے میرا سفرنامہ ”انگلستان میں سو رنگ“ بھی سمجھ آ جائے گا۔ وہ سوال کہ ایک ہی ایجاد دو مختلف علاقوں میں کیسے ہو جاتی ہے؟ اِس کا جواب ”کائنات“ اور ”ایلکیمِسٹ“ دونوں میں موجود ہے… اور دونوں کی یہی کہانی ہے… اور یہ صِرف چند مثالیں ہیں، یہ کائنات مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اگر آپ اِس ناول کو پی ڈی ایف میں پڑھنا چاہیں تو لنک مندرجہ ذیل ہے۔
https://drive.google.com/file/d/0B5nw1ai4SYYSa3Fhbll5dUlnU1E/view?usp=sharing‎
۔"الکیمسٹ" اردو میں پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں ۔  ۔
http://aiourdubooks.net/alchemist-novel-paulo-coelho-urdu-pdf/
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  جناب محمد احسن کی اس پوسٹ پر میرا احساس ۔۔۔۔اور جناب محمد احسن کے جواب
فروری 15 ۔۔2015
کیمیاگر۔۔۔۔ پڑھنے کے بعد میرا بےساختہ اظہار۔۔۔
وہ سوال کہ "ایک ہی ایجاد دو مختلف علاقوں میں کیسے ہو جاتی ہے؟ اِس کا جواب ”کائنات“ اور ”ایلکیمِسٹ“ دونوں میں موجود ہے… اور دونوں کی یہی کہانی ہے… اور یہ صِرف چند مثالیں ہیں، یہ کائنات مثالوں سے بھری پڑی ہے"۔۔۔۔۔ 
سوال جواب کی یہ کہانی ہزار مثالوں سے بھی سمجھا دی جائے لیکن صرف "صاحب حال " ہی اس کا اصل مفہوم جان سکتا
ہے۔یہاں میں صرف جناب پروفیسراحمد رفیق اختر کا ایک جملہ لکھنا چاہوں گی کہ اُس پانچ حرفی جملے میں ہر سوال کا جواب اور ہرالجھن کی تشفی موجود ہے۔۔۔۔۔ " علم کی انتہا حیرت نہیں"۔۔۔
علم کی انتہا حیرت نہیں۔ لیکن اپنی ذات کا علم ضرور ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
محمد احسن۔۔۔
حیرت.. جب علم اور تخیل اپنی معراج پر پہنچ کر گھٹنے ٹیک دیں تو تب کائناتِ حیرت طاری ہوتی ھے.. تو پھر حیرت سے آگے اور کونسا مقام ہو گا؟ ہاں، مقامِ عشق اُس کے بعد آتا ہے اور پھر فنا. آپ کے خیال میں علم کی انتہا کس کیفیت پر ختم ہوتی ہے؟
میں ۔۔۔۔
میرا خیال!!! صرف میری خودکلامی یا سرگوشی کہہ لیں جو صرف میرے کان ہی سن سکتے ہیں یا محسوس کر سکتے ہیں ۔ پھر بھی آپ نے پوچھا تو کہے دیتی ہوں ۔میرے نزدیک علم کی انتہا ۔۔۔۔ حق الیقین کی وہ کیفیت ہے جو دنیا میں آنکھ بند ہونے کے آخری لمحے آنکھ پر وارد ہوتی ہے۔ کہ اس لمحے اندر کی آنکھ کھل جاتی ہے۔اس کیفیت کا بیان پاک کتاب اور احادیث رسول ﷺ سے تو ثابت ہے لیکن فانی انسان۔۔۔۔ جو اس کیفیت کا امین ہے۔ وہ اظہار کی قدرت کھو دیتا ہے۔
محمد احسن۔۔۔
حق الیقین تو فنا کی کیفیت ہے... زبردست
میں ۔۔۔
ہمارا اپنا دل اور دماغ اس کو کس حد تک تسلیم کرتا ہے۔ ہماری مقدس کتاب کا موضوع انسان ہے اور انسان کے پڑھنے کے لیے اس میں صرف ایک پیغام ہے ۔۔۔ "غور کرو"۔
اللہ آپ کی عمر میں برکت عطا کرے اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ انسانیت کے لیے بھی علم کے حوالے سے ایسے رازوں سے پردہ اٹھا سکیں جن کا جاننا ہمارے لیے باعث نجات اور ہمارا مقصد تخلیق بھی ہے۔

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...