پیر, دسمبر 31, 2012

" نیا سال "

اب کے برس آؤ گے 
اور مجھے نہ پاؤ گے
نئے سال میں مجھے کھوجنا
اُن سُبک شاموں میں
اُن خواب لمحوں میں
اُن ادھوری راتوں میں
اُن سلگتی سانسوں میں
اُن مہکتی کلیوں میں
میرے گھر کی گلیوں میں
اور پھر چُوم لینا
شگوفوں کی مہک جو مجھ کو چُھو آئی
وہ بہارتنہائی جو مجھ کو راس آئی
میرے اندر بارش تھی
میرا من پیاسا تھا
اَن کہی کو سُن لینا
آگہی کو چُن لینا
راستوں کو پرکھ لینا
جذبوں کو سمجھ لینا
کل پھر نہ جانے کیا ہو
آج کو برت لینا
اپنی راہ چل دینا
ایک نظر دیکھ لینا
کوئی منتظر تھا سرِ راہ
ہو سکے پلٹ آنا کہ
زندگی کی خواہش ہے
زندگی کو جانا ہے
زندگی تو ڈستی ہے
موت اِک بہانہ ہے
فنا کے سمندر میں
یوں ڈوب جانا ہے
زندگی تو رہتی ہے
زندگی کو پانا ہے
2013

" ایک یاد ایک اظہار "

 " ایک یاد ایک اظہار "
دسمبر ہمیشہ اداس کرتا ہے ،برف گرتی ہے تو احساس کی حدّت بڑھ جاتی ہے اور جذبوں کی تپش نئی منزلوں کی طرف گامزن رکھتی ہے - دسمبر ایک تنہا احساس ،ایک آخری کوشش لیکن ایک مکمل اظہار بھی ہے اپنی محبت کی سچائی کا ،اپنی محبت کی خوشبو کا جو آج بھی رگ ِجاں کو اسی طور معطر کرتی ہے کہ ہجر میں بھی وصال کی لذت چھلکتی ہے - دسمبر واقعی ستم گر ہے یہ اس سال بچھڑ جانے والوں کی یاد کا آخری آنسو بھی ہے اور اُن کی روشنی کا استعارہ بھی کہ محبت کو فنا نہیں اور اُن کی عظمت کا اعتراف بھی کہ ایک مکمل انسان کیسے اپنے ادھورے وجود میں کائنات سمو لیتا ہے۔
(اپنی امی کے لیے جو مارچ 4 ،2012 کو ہم سے جدا ہو گئیں )

پیر, دسمبر 24, 2012

" امام ِکعبہ شیخ عبدالرحمٰن السُدّیس "

" امام ِکعبہ شیخ عبدالرحمٰن السُدّیس "
بسم اللہ الرّحمٰن الّرحیم
"اولاد کے لیے دُعا " 
 شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ اے ماؤں اپنی اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہو،چاہے کتنا ہی غصّہ کیوں نہ ہو اُن کے لیے منہ سے خیر کے کلمے ہی نکالا کرو۔
اولاد کولعن طعن اور بددعائیں دینے والی  مائیں سُن لیں کہ والدین کی ہردُعا و بددُعا قبول کی جاتی ہے۔
یہ سب باتیں شیخ صاحب نےجُمعہ کے خُطبے میں اپنے بچپن کی باتیں دُہراتے ہوئے فرمائیں۔
 شیخ صاحب فرماتے ہیں ایک دفعہ ایک لڑکا ہوا کرتا تھا اپنے ہم عمرلڑکوں کی طرح شرارتی اورچھوٹی موٹی غلطیاں کرنے والا مگر ایک دن شاید غلطی اور شرارت ایسی کربیٹھا کہ اس کی ماں کو طیش آگیاغصّے سے بھری ماں نے لڑکے کو کہا"چل بھاگ ادھر سےاللہ تجھےحرم پاک کا امام بنائے"۔ یہ بات بتاتے ہوئےشیخ صاحب پھوٹ پھوٹ کررو دیئے۔ ذرا ڈھارس بندھی تو رُندھی ہوئی آواز میں بولے اُمتِ اسلام
دیکھ لو
وہ شرارتی لڑکا میں کھڑا ہوں تمہارے سامنے
" امام ِ حرم عبدالرحمٰن السُدّیس"

جمعہ, دسمبر 21, 2012

" نشہ "

٭کچھ لوگ۔۔۔ کچھ رشتے۔۔۔ کچھ تعلق۔۔۔ نشے کی طرح ہوتے ہیں۔ایک باراُن کا ذائقہ چکھ لیا جائے توجان چُھڑانا مشکل ہے۔مگر نشہ جب روگ بن جائےتو زہربن جاتا ہے بُرا پھر بھی نہیں لگتا کہ اس کی عادت جو پڑ جاتی ہے۔ نشے کا علاج نشہ ہی ہے کہ زہر کو زہر ہی ختم کر سکتا ہے۔
٭کچھ رشتے گھونٹ گھونٹ چکھتے جاؤ خمار چڑھتا جاتاہے۔۔۔جتنے پُرانے ہوتے جاتے ہیں۔۔۔ اُتنے ہی قریب آجاتے ہیں۔۔۔ پُرانی شراب کی طرح۔ شراب دُنیا کی نظرسے دیکھی جائے تو حرام ہے،ممنوع ہے۔ لیکن اس کا ذکریہ لفظ قُرآن میں بھی ہے کہ شراب تو جنّت میں بھی ملے گی۔۔۔ جس کے ذائقے جس کی لذّت کی تعریف لفظ کے اختیار میں نہیں۔اس لیے جو رزق لکھ دیا گیا۔۔۔ جہاں لکھ دیا گیا۔۔۔ چُپ کرکے اپنا حصہ لیتے جاؤ۔۔۔ سوال نہ کرو۔۔۔ جواز نہ دو۔ مل جائے تو لے لو ورنہ آگے بڑھ جاؤ کہ"دُنیا بہت بڑی ہے اور وقت بہت کم ہے"۔
٭نشہ نشہ ہوتا ہے اور جب نیند کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو وہ وقت دیکھتا ہے اورنہ ماحول۔
٭نشہ نشہ ہوتا ہے چاہے خوش فہمی کا ہو یاغلط فہمی کا اس لیے جتنا جلد اس کے دام سے نکل آؤ، اس سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
٭نشہ نشہ ہوتا ہے اوریہ اُتر ہی جاتا ہے چاہے وقت کی کڑوی دوا اثر کرے یا اپنے اندر کا عزم کام دکھائے۔
٭نشہ کبھی اہم نہیں ہوتا کہ یہ ہماری قوت ِبرداشت کا امتحان ہے اہم یہ ہے کہ کتنی جلدی اُترتا ہے سب سے بڑا نشہ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنا ہے۔
٭زندگی کی شراب کا ذائقہ کتنا ہی تلخ کتنا ہی بدمزہ کیوں نہ ہو بس آخری گھونٹ ۔۔۔اگلا جام اور کا خمار اس مےخانے کا اسیر رکھتا ہے۔
٭ کتاب کا نشہ جس کو ایک بار مل جائے وہ کبھی اس کے اثر سے باہر نہیں آ پاتا۔
 حاصل کلام یہ ٹھہرا کہ کوئی ساتھ بھی اپنا نہیں جب تک کہ ہم خود اپنے ساتھ نہ ہوں ۔اللہ ہم سب کو اپنے اپنے نشے اپنی اپنی طلب کی پہچان کا علم عطا فرمائے ورنہ بےخبری کا نشہ انسان کو دیمک کی طرح چاٹ کر یکدم عرش سے فرش پر بھی گرا دیتا ہے اور کہیں کا نہیں رہنے دیتا نہ دین کا نہ دُنیا کا ۔

بدھ, دسمبر 19, 2012

" آرکائیو "

     میں چاہتی ہوں کہ
 جب تُم مجھے پڑھو  
تو اپنے وجود کے 
 آرکائیو(Archive)
          میں لکھ لو 
 محفوظ کر لو
 میں رہوں یا نہ رہوں
 تم جب چاہے
 اپنے اندر جھانک لینا  
           اور مجھ سے مل لینا

منگل, دسمبر 18, 2012

" ملکیت یا امانت "

" ملکیت یا امانت "
ڈر۔۔۔خوف۔۔۔پریشانی۔۔۔بے چینی اُسی کا مقدر ہے جس کے پاس ایک بھرپور زندگی گُزارنے کے تمام لوازمات موجود ہوں۔۔۔ہر شے با افراط میسّر ہو۔ 
دیکھیں تو ان الفاظ میں تضاد جھلکتا ہے۔۔۔ سوچیں تو یہ ہماری عمر بھر کی وہ کمائی ہے جس کی قدروقیمت راستے میں آنے والی مٹی کی گرد سے بھی زیادہ نہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ جس کے پاس' بہت کچھ' ہو گا اس کے پاس کھونے کے لیے بھی بہت کچھ ہو گا۔۔۔ جس کے پاس اپنا کچھ ہے ہی نہیں وہ کیا گنوائے گا۔
ہاتھ خالی ہوں گے توملے گا بھری ہوئی جھولی کیونکرپھیلائی جا سکے گی۔ دولت ہو گی تو لُٹنے کا اندیشہ ہوگا۔۔۔اولاد ہوگی تو اس کی پرورش اُس کی تربیت کی فکرہو گی۔اُس کے بگڑنے کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ یہ صرف اور صرف ملکیت کا کھیل ہے کُفران ِنعمت ہرگز نہیں۔ ہوش سنبھالتےہی ہم دولت کے حصول کے لیےکوشش کرتے ہیں۔۔۔ ہموار زندگی کےلیے خاندان کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔ بچوں کو پالتے ہیں۔۔۔ چیزیں جمع کرتے ہیں۔ ہر شے پر اپنی مُہر لگاتے چلے جاتے ہیں۔ صحت کی خاطر تردّد کرتے ہیں۔۔۔اپنی خواہشات کی قربانی دیتے ہیں۔۔۔ایک کے بعد ایک چیزاپنی سہولت کے لیے سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ہم سب کُچھ اپنی مُٹھی میں قید کر لینا چاہتے ہیں۔ لیکن اس افراتفری میں سب سے قیمتی شے ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ وہ ہے"وقت"۔ ہم آگے بڑھ جاتے ہیں اور ہماراوقت پیچھے رہ جاتا ہے۔۔۔ وہ وہیں کھڑا ہمارا انتظار کرتا ہےکہ کب پلٹ کر اُسے آواز دیں۔ ہم تیزرفتار گھوڑے پر سوار سوچتے ہیں اگر پلٹ کر دیکھا تو پتھر کے بن جائیں گے۔ یہ تو پڑاؤ پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ زادِ سفر تو شاید کہیں دُور رہ گیا تھا۔
ہمیں صرف ایک کام کرنا ہے کسی بھی شے پراپنا تصرف جمانے کی بجائے اُس کا ایک امانت کے طور پرخیال رکھیں۔ضرورت پڑنے پراستعمال کریں تومالک کوآگاہ کردیں۔۔۔ اُس میں خیانت نہ کریں۔ اپنے تئیں مزید اضافہ کر کےمالک کو خوش کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔حساب کتاب صرف اُسی کا ہو گا جو دیا گیا ہے۔کاروبارمیں گھاٹا ہو جائے تو مالک کو بتائیں یہ نہ سوچیں کہ اُس کےخزانےمیں کون ساکمی آجائے گی ۔
اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان کوعلم کا بیش بہا خزانہ عطا کیا گیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی عقل سے کام لے کر اپنے آپ کو اس بارِگراں کا اہل ثابت کریں۔امانت کا امانت دار بن کر دکھائیں۔امانت کےساتھ دیانت فرض ہے اور خیانت سے نعمت زحمت میں بدل جاتی ہے۔ اس بال برابر فرق کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ 

"ملکیت"
کسی گھر پر تختی یا کتاب پر نام اور یہاں تک کے قبر پر کتبہ بھی ہمیشہ کسی ایک ہی شخص کے نام کا لگتا ہے۔ اب گھر میں خواہ ہزار مہمان آ جائیں، کتاب ان گنت لوگ پڑھیں اور قبر پر بےشمار ان جان حاضری دیں لیکن ملکیت اور حق صرف ایک کے پاس ہی رہتا ہے۔

" یاد کرنے کا رشتہ ملنے کے رشتے سے گہرا ہوتا ہے "

"یاد کرنے کا رشتہ ملنے کے رشتے سے گہرا ہوتا ہے "
ہر روزہم کتنے ہی لوگوں سےملتے ہیں کتنے ہمارے آس پاس موجود ہوتے ہیں۔اُن کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔یہ وقت کے سمندرمیں لہروں کی مانند ہیں جوآتی ہیں اورجاتی ہیں۔جب آتی ہیں تو ہمیں سرسے پیرتک شرابورکردیتی ہیں۔ ان میں ہمارے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا۔ محبت،نفرت،تعلق،لاتعلقی،ضرورت، مجبوری، سمجھوتہ،غرض کہ ہررویہ ان میں پنہاں ہوتا ہے۔ ہماری پور پوربھیگ جاتی ہے لیکن لہروں کا تو کام ہی ہے پلٹنا۔ جب یہ واپس ہوتی ہیں تو اپنا نشان تک نہیں چھوڑتیں۔ یہی گردشِ دوراں ہے۔اسی آنے جانےمیں  ہماری عمر تمام ہو جاتی ہے پتھر کے بُت کی طرح کھڑے رہ کر ہم اپنا تماشا خود ہی دیکھتےہیں۔ یہ تو ہمارے جسم کی خوراک ہے جوہمیں ملتی رہتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں کوئی تگ و دو نہیں کرنا پڑتی اچھا بُرا جیسا بھی ہوہماری ضرورت ہے۔ روح کی خوراک کے لیے ہمیں خود آگے بڑھنا پڑتا ہےلیکن اس کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔
ہم تمام عمر جسم کی طلب پوری کرنے میں بسر کر دیتے ہیں یہ احساس ساتھ ضرور چلتا ہےکہ کچھ ہے جو باقی ہے کوئی پیاس ہے جو بجھنی چاہیے۔اسی احساس کو سامنے رکھ کرہم اس تشنگی کو اُسی خوراک میں تلاش کرتے ہیں جو ہمارے جسم کوملتی ہے اوراسے لازمی انہی لہروں میں ملنا چاہیے اگر توسَیر ہوناہے کیونکہ ہم حرکت کرنے سے قاصر ہیں۔ یہی جبر وقدرکا فلسفہ بھی ہے۔اس عظیم سچ کے خلاف ہم آواز بلند کرتے ہیں۔۔۔احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن ہماری آوازصرف ہمارے اپنے کان ہی سن سکتے ہیں۔تازہ ہوا کے لیے اس گھٹن میں ہم جس کو پکارتے ہیں وہی ہماری روح کی خوراک ہوتی ہے،ہماری تسکین ہوتی ہے۔
یہ لذت کبھی ہمیں اللہ سےباتیں کر کے حاصل ہوتی ہے تو کبھی کسی کتاب میں سےکوئی بات پڑھ کر،کبھی کسی انسان کے خیالات جان کر،کر،کبھی کسی دور دیس میں رہنے والے اپنے پیارے کےبارے میں سوچ کر،اس کے لیے دعا کرکے، کبھی اپنے بچپن میں ملنے والی بے لوث محبتوں کو یاد کرکے تو کبھی اپنی اُن ان کہی ان سنی کہانیوں کوسوچ کر۔۔۔ جو رگِ جاں میں یوں سمائیں کہ دل ان کے طلسم سے باہرہی نہیں نکلتا کبھی اپنے چاہنے والوں کے کام آکر، کبھی کسی چھوٹے بچے سے اس کے اندازمیں باتیں کر کےغرض کہ ہماری خوراک ہمیں ملتی رہتی ہے۔ ہمیں اس کا اس طور ادراک تو نہیں ہوتا لیکن ایک خلا ہے جو پُرہوتا جاتا ہے۔سب سےخاص بات اس رشتے کی فاصلہ ہے۔۔ جتنا زیادہ فاصلہ ہو گا اتنی زیادہ شدّت سےاحساس کی لو
بھڑکے گی۔لیکن یاد رکھنے کی ایک اہم بات  یہ ہے کہ 
"خوشی کو انسان سے مشروط کبھی نہ کرو"۔کسی انسان کواپنےغموں کا مداوا جاننا اس کوآئیڈیل بنانا بسااوقات مایوسی کا باعث ہوتا ہے کوئی بھی مکمل نہیں ہوتا بلکہ ہم خود بھی اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر سکتے۔
مئی 2003،25

اتوار, دسمبر 16, 2012

"نکاح۔۔۔کاغذ کہانی"

ابتدائے انسانی سے دُنیا میں ایک انسان کا دوسرے انسان سے پہلا رشتہ یہی تعلق ہے تو دوسرے لفظوں میں یہی وہ تعلق ہے جو ہر رشتے کی بنیاد رکھتا ہے۔ ایسا تعلق جو حدود کے دائرے میں سفر کرنا چاہے تو صرف اور صرف ایک انسان سے ممکن ہے اور بےوزنی کی کیفیت میں اپنی کششِ  سے نکل جائےتو اگر کوئی رُکاوٹ نہیں تو کہیں قرار بھی تو نہیں۔
اپنے خالق ومالک سے قرب اگر ہر رشتے کی نفی کرتا ہے تو ایک اجنبی سے جڑتا یہ تعلق ہر رشتے پر حاوی ہوجاتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ گرچہ مرد اور عورت کا یہ ربطِباہمی بالکل ذاتی اور انتہائی نجی معاملہ ہے لیکن تہذیبی دُنیا کے ہر مذہب میں اسے ایک مقدس معاشرتی فریضے کے طور پر سرانجام دیا جاتا ہے۔
شادی اگر انسان کی دُنیاوی زندگی کا انتہائی عجیب وغریب پہلو ہے تو اس سے بھی عجیب تر اس کی کاغذی شکل "نکاح" ہے جو دو اجنبی مرد اور عورت کے ساری زندگی ایک چھت،ایک گھر اور ایک بستر پر ساتھ رہنے کا معاہدہ ہے ۔یہ زندگی کا وہ موڑ ہے جس میں کوئی "یو ٹرن" نہیں۔ بظاہر یہ بات لایعنی سی دکھتی ہے کہ زندگی میں تو کچھ بھی کبھی بھی حرفِ آخر نہیں۔عقل کی رو سےکہا جائے کہ یہ تعلق کتنا ہی خاص اور مضبوط کیوں نہ ہو صرف تین لفظ کہنے سے یوں نام ونشان کھو دیتا ہے جیسے ریت پر لکھی تحریر یا پانی پر بنا نقش۔
"تین لفظ"
حق تین لفظ کا نام نہیں ۔۔۔اورحق محض تین لفظ دہرانے سےحاصل نہیں ہوجاتا اور تین لفظ بول کر ختم بھی نہیں ہو جاتا۔ کسی پر حق جتانے یا منوانے کے لیے لفظ نہیں احساس کی ضرورت ہوتی ہے۔ لفظ کی اہمیت مسلّم ہے پراحساس لفظ سے نہیں عمل سے ہے۔ لفظ کے دام میں حق جتانا بعض اوقات زبردستی یا زیارتی کی حدوں کو چھونےلگتا ہےجبکہ احساس کی گرفت میں انسان بنا کسی گھبراہٹ کےخوشی خوشی اپنی ہمت سے بھی زیادہ بوجھ اٹھا لیتا ہے۔
کاغذی رشتوں کی اہمیت ،اُن کے تقدس سے انکار نہیں،وہ فرد سے فرد کی بقا اورنسلوں کی پاکیزگی کے ضامن ہوتے ہیں اور اُن کے لیے  باعثِ افتخار بھی۔ کاغذ پر بننے والا اورکاغذ پر ہی ختم ہونے والا حق اپنی گہرائی اورمعنویت میں اتنا مضبوط ہوتا ہےکہ یہاں تک کے آخر میں کاغذ سلامت رہ جاتا ہے اورانسان فنا ہو جاتا ہے۔اوراتنا معتبرکہ دنیا میں اس سے بڑھ کر اورکوئی رشتہ کسی اجنبی سےممکن ہی نہیں۔
یہ کاغذی رشتہ کاغذی پھولوں کی طرح ہے جس میں مشاق ہاتھوں کی کاری گری سے جتنے چاہو رنگ بھر لو۔۔۔جیسے چاہو موڑ لو۔۔۔ جیسی خوشبو دینے کی استطاعت ہو اس میں جذب کر دو۔۔۔ چاہو تو اصل کو بھی مات دے دو۔ایسے ایسے رنگ تخلیق کرو کہ دیکھنے والے سراہنے والے اصل نقل کا فرق بھول جائیں۔۔۔اس کی یہی تو شان ہے کہ جس زاویے سے دیکھو مکمل دکھتا ہے۔۔۔ ہرموسم سے بےنیاز۔۔۔ جہاں جی چاہے رکھ دیں ہمیشہ نگاہوں کو خیرہ کرتا ہے۔بنانے والوں ۔۔۔ برتنے والوں کا ساتھ چھوٹ بھی جائے پھر بھی نسلوں کی صورت ان کی یادگارعلامت کے طور پرقائم رہتا ہے۔
کاغذ پر بننے والا یہ رشتہ یہ حق جتنا نازک جتنا حساس ہوتا ہے یہ برتنے والے ہی جانتے ہیں۔ خواہشوں کی دیمک سے بچاتے ہوئے۔۔۔ سمجھوتوں کی پھوار کا چھڑکاؤ کرتے رہنے سے ہی تازگی ملتی ہے۔ کاغذ کی زندگی جیتے جاگتے انسان کی شخصی آزادی کا خراج مانگتی ہے۔۔۔قطرہ قطرہ نچوڑتی ہے پرکہیں نام ونشان نہیں چھوڑتی۔ نہ لینے والے پر اور نہ دینے والے پرکبھی حرف آنے دیتی ہے۔
بظاہر سادہ اور سہل دِکھتے اس بندھن میں وقت کے ساتھ کئی پیچیدگیاں  درآتی ہیں اور یہ زندگی کا ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر سامنے آتا ہے۔معاشرے کے حصار اور خاندان کی محبتوں کےسائے میں بننے والے اس خالص ذاتی احساس کو سمجھنا اور برتنا کبھی بہت دشوار ہو جاتا ہے۔حقوق وفرائض کے درمیان گردش کرتے اس بندھن کی بہت سی جہت ہیں جن میں سب سے اہم اور بنیادی کڑی اولاد کی صورت سامنے آتی ہے جس کے بعد سوچ وعمل کے زاویےیکسر تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ازدواجی بندھن کی مضبوطی اورطوالت صرف سمجھوتوں سےعبارت ہےاور ہر دو میں سے کسی ایک کو یہ بارِگراں اُٹھانا ہی پڑتا ہے۔ یہ اوربات کہ دونوں اپنی جگہ سمجھتے ہیں کہ اصل سمجھوتہ وہی کر رہے ہیں۔
غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اس تعلق میں بندھنے کے بعد جب ایک انسان کی ذات دوسرے فرد کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہے تو پھر اس کی اپنی شخصیت اپنی ذاتی زندگی سب کچھ بٹ کر رہ جاتی ہے۔ایک فرد کی زندگی اور ذات پر گہرے اثرات مرتب کرتے اس تعلق میں سکون وکامیابی کے لیے پہلی شرط اپنےسے زیادہ دوسرے کی خواہش،چاہت اور ارمانوں کو فوقیت دینا ہےاور سب جانتے بوجھتے ہوئے اپنی زندگی پر اپنا حق چھوڑ دینا ہی اصل امتحان ہے۔
دنیا میں اس تعلق کے علاوہ اور کہیں بھی کسی بھی رشتے میں اس طرح انسان کا انسان پر تصرّف رکھنا جائز نہیں۔ اس رشتے کی سب سے بڑی مضبوطی اور انفرادیت بھی یہی ہے۔
۔"خیال" رکھنے کا مطلب صرف جسمانی اور مادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور معاشرتی ذمہ داریوں سے انصاف کرنا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ذہنی معیار کونہ صرف سمجھنا اورقبول کرنا ہے جو ہم آہنگی اورسکون حاصل کرنے کا اصل راز ہے۔
آخری بات۔ 
ایک کامیاب ازدواجی زندگی کا سفرصرف جگمگاتے پہلے صفحے اوراُس سے بڑھ کرانتہائی شاندارآخری صفحے کی کہانی ہے۔
بیچ کون جانے کہ جب ہندسے ہی ثبوت ٹھہرے توحرف کی کیا مجال جو دخل اندازی کرے۔ جس کے پاس جو تھا وہی دے سکتا تھا اور دے بھی دیا! اب کچھ باقی نہیں کہنے کو۔
پر۔۔۔ ہم نادان ہیں۔۔۔ نہیں جانتے کہ آخری ورق لکھنے پر ہمارا اختیار نہیں اور یہ بھی کہ اگر کہانی پر لکیر سیدھی ہو جائے تو پھرکچھ باقی نہیں بچتا نہ قرار نہ انتظار، نہ گلہ نہ شکوہ۔۔۔
زندگی الجبرا کا سوال لگے تواُس کا جواب اگرمل بھی جائے تو ہمیشہ ایک ہی آتا ہے
۔

جمعہ, دسمبر 14, 2012

"غیبت "

 سورۂ الحجراتمدنی سورہ  (49)۔ آیت 12۔ترجمہ ۔۔
" اے ایمان والو بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے مال کا تجسُس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے ۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے اور اللہ سے ڈرو ۔بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے"
کسی کی غیرموجودگی میں اُس کی برائی کرنا یا اس کا ذکر ان الفاظ میں کرنا جو اسے ناگوار گزرے غیبت کہلاتا ہے۔اس بُرائی کی مثال یوں بتائی گئی ہےجیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔
دیکھا جائےتو یہ بہت بڑا گُناہ ہے۔لیکن غور کیا جائے توبہت معمولی سا گُناہ ہے۔۔۔اُس گُناہ کے مقابلے میں۔۔۔ جو اُس شخص سے انجانے میں سرزد ہو رہا ہے جس کی غیبت کی جا رہی ہے۔
سوچ کے دائرے کو وُسعت دی جائے توغیبت کرنے والے۔۔۔ اپنا کام کر کے۔۔۔ دسترخوان سمیٹ کر۔۔۔پیٹ بھر کر۔۔۔مطمئن ہو کر۔۔۔اپنی راہ لیتے ہیں۔ اُس برائی کے اثرات وثمرات تو وقت آنے پر ہی سامنے آتے ہیں۔اگر وقت سے پہلے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے تونہ صرف توبہ کا دروازہ کُھلا ہے بلکہ اگر اللہ حوصلہ دے دے تو بندوں سے بھی معافی کی گُنجائش موجود ہے۔ اس طرح اس گُناہ کا کفارہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
اس کے برعکس وہ شخص جسے معلوم ہو گیا کہ اُس کی غیبت کی گئی ہے۔ اُس کے سامنے تین راستے ہیں۔۔۔ایک یہ وہ کسی ہمدرد سے مل کراپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔
دوم صبر کے نام پر لڑائی جھگڑے سے بچنے۔۔۔ثبوت نہ ہونے کی بناء پرمعاملہ اللہ کے سپُرد کردےاورتیسرا اپنی آنکھوں سے دیکھ کر۔۔۔کانوں سے اپنے بارے میں دوسروں کی آراء سن کر۔۔۔ یقین کرلے کہ لوگ اُس کے دُشمن ہیں۔ جس کی برئی کی جائے اُس شخص کا  یہ طرزِفکراُس کے لیے ہمیشہ کی ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں۔وضاحت اس طرح جب ہم کسی کوہمدم وہمرازسمجھتے ہیں توانجانے میں اس کواللہ سےبڑھ کر فوقیت دے رہے ہوتے ہیں۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر اور کوئی دکھائی نہیں دیتا جو اِس زیارتی پرہمیں تسلی دے۔۔۔ہماری رہنمائی کرے۔
 دوسرے  کسی کو کچھ بتائے بغیرمعاملہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئےیہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہمارے کہنے سے پہلے ہی سب جانتا ہےسب دیکھ رہا ہے۔ یہ ہماری ناقص عقل ہےجوجلدبازی پرمجبور کرتی ہے۔اللہ پاک بہت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ وہ مشکل گھڑی میں اپنے بندے کو تنہا کیسے چھوڑ سکتا ہے۔
اسی طرح جب اپنے حواس پربھروسہ کرکے غمزدہ اوردل گرفتہ ہو جائیں   تو یہ بھی سنگین غلطی ہے۔حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ آنکھوں دیکھی اورکانوں سُنی ہربات عین حقیقت نہیں ہوتی۔ اور یہ دلوں کی بات ہے جوصرف اللہ جانتا ہےہم خود سے گمان کرکےاللہ کی عظیم صفت میں شرک کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیےکہ جب انصاف کےدن ہرمعاملہ کُھل کرسامنے آئے گا پھرمعاملہ دوسروں کےعمل اور ہماری عقل کے درمیان ہو گا۔عقل ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے۔

" ڈپریشن "

ڈپریشن ایک اندھا کنواں ہے لیکن اس کی تہہ میں جو انمول موتی ہیں اُن تک جان سلامت لانے والے ہی پہنچ سکتے ہیں۔اکثر کو تو راستے کی ٹھوکریں ہی نابینا کر دیتی ہیں ۔
ڈپریشن بارش کی جھڑی کی طرح ہے جو اگر سر پر سوار کر لوتو رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
 اس کا ایک مہمان کی طرح استقبال کرو تو یہ ایک مُہذب مہمان بن کر جلد رُخصت چاہتا ہے۔
ڈپریشن کو نرم پھوار سے موسلادھار بارش بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی ۔
یاد رکھو اگراُسے تمہارا ظرف پسند آگیا تو وہ تمہیں اپنےساتھ 'بیاہ' لے جائے گا۔
ڈپریشن اہم نہیں یہ اہم ہے کہ ہم کتنی جلد اس سے باہر نکلتے ہیں ۔
ڈپریشن کو اپنے اندر اتار لو لیکن خود کو اس کے اندر نہ اُترنے دو۔
2012 ، دسمبر 14

بدھ, دسمبر 12, 2012

" محبت سے محبت کرو "

"ہم اپنی تکمیل کےخواہش مند ہیں محبت کی تکمیل کے نہیں ،محبت کی تکمیل قول سے نہیں عمل سے ہے "
محبت  اللہ سے ہو یا اس کے بندوں سے خالص رکھو اور زندگی میں صرف ایک راستہ پکڑ لوتوتمہیں آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔انسان سے محبت کرنا ہماری جبلّت ہے۔۔۔ ہماری ضرورت ہے۔۔۔ ہماری وہ خواہش ہے جو ہمارے اختیار سے باہر ہے۔اس کو باہر آنے دو،اس سے نظریں نہ چُراؤ وہ اپنے راستے پر چلے تم اپنے راستے پراگر سچی ہوئی تو منزل ایک ہے۔ اور اگر نہ ہوئی تو راستے جدا ہی تھے جدا ہی رہے پھر افسوس کس بات کا۔محبت ہمیشہ یکطرفہ ہوتی ہے چاہے اللہ سے ہو یا بندوں سے۔ہم محبت کرتے ہیں اور محبت کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیشہ اس انتظارمیں رہتے ہیں کہ دوسری طرف سے کیا جواب آتا ہے۔ اس جواب کے انتظار میں ساری عمر گُزار دیتے ہیں، ناآسودہ ناخوش،اپنے آپ سے دست وگریباں،اپنی ذات میں خود کو تلاش کرتے ہوئے،اپناآپ مکمل کرنے کی چاہ میں۔ ہم نہیں جانتے کہ جواب اُسی لمحے آگیا تھا جب جب ہم نے محبوب کو دل سے پکارا تھا لیکن ہم اپنے گیان میں اتنا مگن تھے کہ خبر ہی نہ ہوئی اورمالامال ہو گئے یہ محبت ہے جو اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہے کہ دوسرے کو بھی اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ اپنے جیسے انسان کو داتا جان کر بھکاری کی طرح مانگتے چلے جاتے ہیں۔اندر کی بات یہ ہے کہ اُس کےپاس دینے کو کچھ نہیں ہوتا سوائےاپنی انا کے۔اور ہمارے پاس بھی صرف انا ہوتی ہے جو کسی اوردرجانے سے روکتی ہے۔ہم چاہتےہیں کہ کسی طرح اُس پارس کوچھو لیں جو ہمیں سونا بنا دے یا اپنی قیمت لگانے کےخواہش مند ہوتے ہیں کہ شاید یہی وہ تاج ہو جس کا نگینہ ہماری ذات ہو سکتی ہے۔وقت گُزرتا ہے،طمانچے پڑتے ہیں، تکمیلِ ذات کےلیے دردر بھٹکتے ہیں تو ساری انا سارا علم غبارے میں بھری ہوا کی طرح اُڑ جاتا ہے اور وجود کی شناخت تک باقی نہیں رہتی۔اُس وقت وہی یاد آتا ہے جو ہمیشہ ساتھ تھا لیکن ہم بھولےرہے۔ پر یہ سمجھ بھی اُسی کا کرم ہے جو ہر کسی کو عطا نہیں کرتا سوائے اُس کے جو آخری سانس سے پہلے اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر دے۔
اللہ سے محبت کرو،اللہ کی محبت سے محبت کرو۔ اس کی تخلیق سے محبت کرو۔
اپنے اندر کے انسان سے محبت کرو اپنے اندر کے اس ضدّی بچے سے محبت کرو جو اپنی خواہش کے حصول کے لیے تڑپتا ہے اور اُداس بیٹھا ہے۔
اپنی روشنی سے محبت کرو جو نہ صرف تمہیں بلکہ کسی اور کو بھی منور کر رہی ہے۔
اپنے اندھیرے سے محبت کرو جو تمہیں بتاتا ہے کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے جو جانتا ہے وہ تمہارا رب جانتا ہے۔
اپنی وفا سے محبت کرو جو کسی دل کی دھڑکن ہے۔۔۔
اپنی بےوفائی سے پیار کرو جو تمہیں کہیں رُکنے نہیں دیتی ۔۔۔ بےقرار رکھتی ہے۔
اپنی ناکامی سے پیار کرو،جو سوچ کے نئے در کھولتی ہے۔۔۔ اپنی کامیابی سے پیار کرو،جو تمہیں چلنے پراُکساتی ہے۔
اپنی عقل سے پیار کرو،جوتمہیں چوٹ لگنے کا سبب بتاتی ہے۔اپنی ناسمجھی سے محبت کرو جو تمہیں مکروفریب کےجالے میں اُلجھا کر اتنا بلند کر دیتی ہے کہ تمہاری روح غارِثور کے دروازے پر پہنچ جاتی ہے۔
اللہ سے محبت کرو وہ تمہیں بندوں سے محبت کا قرینہ سکھا دے گا۔
بندوں سے محبت کرو وہ تمہارے لیے سانپ ہیں تو سیڑھی بھی ہیں۔۔۔ پیاس ہیں تو دریا بھی ہیں۔
اپنے آپ سے محبت کرو،خود کو پہچانو گے تو اپنے رب کو جان جاؤ گے۔
اپنے رب کی "محبت" سے محبت کرو۔اُس محبت کی جھلک بھی کبھی اگرمحسوس کرلی تو بیڑہ پار۔
ورنہ دردربھٹکتے رہو اور بےسمت بےنوا چلتے جاؤ۔

"مالک کی رضا سے جُدا محبت جھوٹ ہے"


"جسم کی محبت کو جسم میں اور روح کی محبت کو روح میں تلاش کرو"
اللہ کی محبت کو اللہ میں اور بندوں کی محبت کو بندوں میں تلاش کرو۔ کبھی اللہ سے بندوں کی محبت نہ مانگنا - اللہ سے اللہ کے لیے محبت کرو تو وہ تمہیں بندوں سے محبت کا راستہ دکھا دے گا ، بندوں کے پاس  پہنچا دے گا۔ لیکن  اصل سچ یہی ہے کہ اگر بندوں سے محض بندوں کے لیے ہی محبت کی تو وہ تمہیں سیراب توکردیں گے لیکن راستہ بند بھی کردیں گے، منزل کھوٹی بھی کر دیں گے۔
یاد رکھو اللہ سے محبت منزل ہے اور بندوں سے محبت راستہ ہے۔ راستے پر رُکا جائے تو منزل نظر نہیں آئے گی۔
راستے پر چلتے جاؤ،اُس کی پہچان رکھو،اُس کا احترام کرو، اُس کی قدر کرو، قدم بڑھتے جائیں گے، راستے کھلتے جائیں گے۔
دسمبر 12، 2012

منگل, دسمبر 11, 2012

" زندگی کا سارا کھیل جذب ہونے میں ہے"

 پانی جب زمین میں جذب ہو جاتا ہے تو اس کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے،رُک جائے کھڑا رہے تو بیماریاں پھیلاتا ہے۔۔۔بہتا جائے تو راستے میں آنے والی ہرشے کوسیراب کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی ذات کی نفی کرکےسمندرمیں گُم ہوجاتا ہے۔ لیکن! پانی کا ایک مخصوص راستہ،ایک گُزرگاہ ہونا ضروری ہے۔اپنی حدوں سے تجاوزکرے تو تباہی وبربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔یوں نہ صرف اپنی شفافیت کو مسخ کرتا ہے بلکہ دوسروں کے سرسے چھت اور پاؤں سے زمین بھی چھین لیتا ہے۔اسی طرح انسان ساری زندگی کتابیں پڑھتا رہے،امتحان دیتا رہے بڑی سےبڑی ڈگری حاصل کر لے،نت نئی ایجادات کرے، دُنیا کے اعلیٰ سے اعلیٰ ایوارڈ بھی اُسے مل جائیں لیکن جب تک وہ اس علم کو اپنی ذات پر اپلائی نہیں کرے گا۔۔۔اس علم کے پس منظر پرغور نہیں کرے گا۔۔۔اپنی ذات میں اس کے بل بوتے پرتبدیلی نہیں لائے گا یہ علم ایک بھاری بوجھ کے سوا اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکے گا۔

پیر, دسمبر 10, 2012

"ہماری زندگی ہمارا دین"

   "اقرا"وہ پہلا حکم، وہ عظیم بنیاد ہے جس پر تمام احکام اور اعمال قائم ہیں۔
اپنےآپ کو اللہ کے حوالے کر دو تو اللہ کی مصلحتیں،اُس کی حکمت خودبخود سمجھ میں آنے لگتی ہے اور مشکل سے مشکل 
سوالوں کے  اتنے آسان جواب بھی ہو سکتے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔
 "اللہ الصمد" بےنیازی  اللہ پاک کی وہ صفتِ خاص ہے جس کا   اللہ کی وحدت کے  فوری بعد ذکر کیا گیا ہے۔
ہماری زندگی دراصل ہماری درسگاہ کی کہانی  ہے۔زندگی کے تعلیمی ادارے میں داخلہ تو آرام سے مل جاتا ہے لیکن ساتھ ہی
پراسپیکٹس بھی ملتا ہےجس میں قواعد وضوابط بتائے جاتے ہیں اُن کوسمجھ جائیں پھر نصاب پر آتے ہیں ۔ 
 قواعد و ضوابط  ارکانِ اسلام ہیں اورنصاب ہمارا قُرآن پاک ہے اور پراسپیکٹس ہمارا دین ہے۔
ہر ارکانِ اسلام کسی بھی عام درس گاہ کے اصولوں پر منطبق ہوتا ہے جیسےکہ
توحید و رسالت : یہ ہمارا انٹری ٹیسٹ ہے ۔
نماز: وقت کی پابندی سے مشروط ہے۔
روزہ : دوران ِ کلاس کھانے پینے کی ممانعت ہے۔
حجّ : لباس کی پابندی ہے۔
زکٰوۃ : اپنی استطاعت کے مطابق درس گاہ کا انتخاب ہے اور اپنے وسائل میں رہ کر فیس کی ادائیگی ہے۔
نصاب خود بھی پڑھا جا سکتا ہےکہ کتاب تواپنے پاس ہے جب چاہوکھول کر دیکھ لو۔لیکن اچھے نمبر لینے اوراعلیٰ درجے میں پاس ہونے کے لیے ایک ماہراُستاد بہت ضروری ہے ۔
2012، 4  نومبر




اتوار, دسمبر 09, 2012

" قرض "

"آئی ایم ایف" ہم اور
قرض لینا اور قرض ادا کرنا
 صرف معاشیات کا مسئلہ نہیں
 یہ ہماری سرشت ہے
 محبتیں ہمیں 
قرض کی صورت ملتی ہیں
 لوٹانا ہمارا فرض  ٹھہرا
 یہ ہزاروں سال پرانا دستور ہے
 جنس کے بدلے جنس
 کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
 کہ ابھی ادا بھی نہیں کیا ہوتا 
 کہ اور مل جاتا ہے
 بن مانگے بن چاہے
 (یہ جھوٹ ہےکہ چاہ کبھی ختم نہیں ہوتی)
 ادائیگی صرف ایک قسط میں ہے
 کہ تپتے آسمان تلے برگد بن جاؤ
 کاش یہ کڑی شرط نہ ہوتی
 کچھ دیر تو سستانے دو
                " ابھی لمبا سفر ہے"

19 دسمبر , 2003

" ادھوری کہانی"

"مرکزِثقل"
سائنس کے مضامین پڑھنے والی لڑکی کو جب یہ احساس ہواکہ وہ خود سینٹر آف گریویٹی ہے تو اُس نے اس معمے کو جاننے کے لیے لائبریری میں پناہ لی۔وہ گھنٹوں انسانی جذبات کے تجزیہ نگاروں کو پڑھتی۔منٹو سےعصمت چُغتائی تک اس نے عجیب وغریب تجربات کیے۔ جو اُس کے لیے یا جن کے نتائج اس کے لیے قابلِ قبول نہ تھے۔ 
 اس کی بُزدلی کہیں یا معاملہ فہمی کہ وہ عملی تجربات سے ہمیشہ دُور رہی۔ زندگی اس کے آس پاس ہردلکش پیراہن میں بکھرتی پر وہ آنکھیں بن کیے اپنی ذات ہی پڑھتی رہی۔
وہ واقعی سینٹرآف گریویٹی تھی اپنی جگہ قائم۔۔۔ سیب اس کے آس پاس گرتے گئےلیکن وہ آگے بڑھ ہی نہ سکتی تھی لیکنً !آخر کب تک۔۔۔اسے نصابی کُتب بھی تو پڑھنا تھیں سو اپنا آپ اندر چھوڑ کرباہر آنا پڑا۔۔۔۔ امتحان بھی دینا تھے۔۔۔پھروہ امتحان شروع ہوئےکہ اُس گوشہ عافیت میں جانےکی مہلت ہی نہ ملی۔ تازہ دم ہونےکے لیےاِس رازکو بھولنا بھی چاہتی لیکن یہ معمہ حل ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔ایک ایسا سوال تھا کہ جس نےبرسوں سے اس کی ساری شخصیت کا گھیراؤ کر رکھا تھا۔ یہ احساس شِدّت سے بڑھ رہا تھا کہ اب وقت ختم ہوا چاہتا ہے۔۔۔وہ مہلت جو زندگی کا پرچہ حل کرنے کے لیے ملی ہے اس کا کاؤنٹ ڈاؤن بس شروع ہونے والا ہےاوراصل امتحان کی تیاری تو کی ہی نہیں۔۔۔ یہ تو ایک بڑے امتحان کو سرانجام دینے کے لیے فقط ضمنی امتحان تھے۔۔۔ان کے کُل نمبرملا کر بھی اتنے نہ بن سکیں کہ بس پاسنگ نمبر ہی آجائیں۔اسی بات نے مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دیا۔ وہ ڈوب رہی تھی کہ روشنی نظر آئی۔۔۔ وہ روشنی جس میں اُسے اپنے سالوں پرانے سوال کا جواب مل گیا۔
یہ اُس پیچیدہ سوال کا ایسا جواب تھا جو سوال کے اندر ہی پوشیدہ تھا۔ سوال یہ تھا کہ سوالی اس سے کیوں مانگتے ہیں؟ کیوں روحیں اس کا طواف کرتی ہیں؟ اس میں ایسی کون سی کشش ہے ؟جسے وہ خود بھی نہیں جانتی وہ کچھوے کی طرح ایک مضبوط خول میں بند ہے پھر کیوں باربار دستک ہوتی ہے؟ اس نے تو نو ویکنسی کا بورڈ لگا رکھا ہے پھر کیوں درخواستیں جمع ہوتی ہیں ؟جواب ملا کہ سوالی بن کرتودیکھو، سیب بن کر تودیکھو،جھولی پھیلا کر تو دیکھو،بھیک مانگ کر تو دیکھو۔ یہ ایسا جواب تھا کہ جس نے اسے شانت کر دیا اس کی پُورپُورمیں رچی تشنگی کودور کردیا۔
واقعی وہ اُونچے مقام پر تھی لیکن مکمل نہیں تھی،وہ کسی لمس سے ناآشنا تھی لیکن جب یہ احساس اس کے اندر بیدار ہوا کہ کوئی ہے جسے چھو کر وہ مکمل ہو سکتی ہے تو اس احساس نے اس کی دنیا ہی بدل دی۔ اسے معلوم ہو گیا کہ دینا کیا معنی رکھتا ہے اورمانگنے میں کیا جادو ہے۔
زندگی کے دائرے میں بہت تھےجو اُس کے سہارے کھڑے تھے۔۔۔اُس نے ایک ہاتھ سے تھام رکھا تھا۔۔۔ پراسے بھی کسی سہارے کی ضرورت تھی۔۔۔اس کا دوسرا ہاتھ تو خالی تھا۔ یہی وہ رازتھا جس کی وجہ سے وہ معلق تھی۔ جب ہاتھ تھاما تو دائرہ فوراً مکمل ہوگیا۔ زندگی کا یہ اصول بھی اُسے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں ہم جوحاصل کرتے ہیں وہ یہیں رہ کرلوٹانا بھی ہوتا ہے۔ 
 "ہماری محرومیاں ہماری خوشیاں ہمارے ساتھ پروان چڑھتی ہیں اورہمارے ساتھ ہی فنا ہوجاتی ہیں"۔
ہم سائنس کے طالب علم ہیں،لائبریری کے خواب آور ماحول میں کتابیں پڑھتےہیں۔۔۔ایشو نہیں کرا سکتے۔۔۔کیونکہ اُن کا ہمارے نصاب سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ وقفے وقفے سے گھنٹی بجتی ہےتو ہم چونک جاتے ہیں۔۔۔ بھاگ کر کلاس لیتے ہیں ۔۔۔ شعوربیدار ہو جائےتودل جمعی سے پڑھتے ہیں کہ یہی ہمارا اصل ہے۔۔۔اسی میں سے سوالنامہ تیار ہو گا۔
کامیاب وہی ہوتے ہیں جو اُس ماحول کر یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں لیکن جو کوئی کہانی ادھوری چھوڑ آئیں اُن کا دل واپسی کے لیے ہمکنے لگتا ہے۔ مہلت ختم ہونے سے پہلے ادھوری کہانیاں پڑھ لی جائیں تو باقی زندگی کے نصاب میں پاس ہونے کے لیے وقت مل ہی جاتا ہے۔
جنوری 25،  2002

جمعرات, دسمبر 06, 2012

" سکّے "

ہمارے دوست سِکّوں کی طرح ہوتے ہیں۔ سِکّے جمع کرنا بھی ایک عجیب مشغلہ ہے۔ سِکّے بھی کیا شے ہیں کہ کبھی خراب نہیں ہوتے۔دیکھا جائے تواِن پُرانے سِکّوں کی کوئی پہچان،کوئی رنگ وروپ،کوئی قدروقیمت،کوئی زمانہ نہیں ہوتا۔ انسان نِت نئی چیزوں کا طلب گار ہوتا ہے۔ ہم ان سِکّوں کو کسی ڈبے میں رکھ کربھول جاتے ہیں۔۔۔کبھی کبھار نکال کر اُلٹ پلٹ کر لیتے ہیں۔ یہ جیسے ہوتے ہیں ویسے ہی رہتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ لیکن اپنی شناخت برقراررکھتے ہوئے۔ہرایک کی اپنی پہچان ہوتی ہے۔۔۔کوئی کسی سے برتر نہیں ہوتا۔فرق یہ ہے کہ کوئی کم مالیت کا ہوتا ہے اورکوئی زیادہ۔ لیکن یہ بازار میں چلنے والی کرنسی نہیں کہ کم مالیت سے کم سودا ملےگا اور زیادہ رقم ہو گی تو زیادہ چیزیں خریدی جا سکیں گی۔ کبھی ایک ہی مالیت کے کئی سکّے ہوتے ہیں اورکبھی گنتی کے چند سکے بھی ہوتے ہیں جو انمول ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا فقط شوق ہیں اس میں کسی لالچ کسی صلے کسی حساب کتاب کی طلب نہیں ہوتی۔۔۔ بس سِکّے ہیں اورہمارے ہیں یہی کافی ہے۔
کسی اورکے پاس بھی یہی سِکے ہو سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں۔زندگی اپنی رفتار سے گزرتی جاتی ہے،یہ ہماری چاہت کے لاکرمیں محفوظ رہتے ہیں۔ہم اپنی یادوں کی چھڑی سے چھو کر انہیں محسوس کرتے رہتے ہیں کہ اچانک سفر کے کسی انجان مقام پرجب ہم اپنےآپ کوخالی ہاتھ دیکھتے ہیں تویہی سکے ہمارا بنک بیلنس ثابت ہوتے ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ ہمارے دوست وہ سکے ہیں جواستعمال کے بعد بھی خرچ نہیں ہوتے۔۔۔ جب ہم ان کےحصارمیں چلے جاتے ہیں توہمارا دُکھ اپنے کاندھوں پراُٹھا کرہرفکرسےآزاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے بلکہ ایسا ہی ہے کہ ہمارے سارے اثاثے ساری دولت مل کر بھی سکون کا ایک لمحہ نہیں دے سکتے پھر ہم مجبوراً اُس آخری سہارے کو پُکارتے ہیں جوہماری سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہی اصل بات ہے۔۔۔ہمارا خالق ہمارے سب سے زیادہ قریب ہے ہمارا ساتھ کبھی بھی نہیں چھوڑتا۔۔۔ہم اللہ کو چھوڑ کر بندوں سے لو لگاتے ہیں اور جب ٹھوکر لگتی ہے تو پھر اللہ کو یاد کرتے ہیں۔۔۔
ہمیں اپنی ترتیب دُرست کرنا ہے۔" اللہ ہمیں اپنے اثاثوں کی شناخت کا علم عطا فرمائے "

میرے سکے۔۔۔



    

بدھ, دسمبر 05, 2012

"باغ و بہار "

"باغ و بہار "
میرا اورتمہارا تعلق باغ اوربہارکا ہے۔۔۔پھل اورلذت کا ہے۔۔۔پھول اور خوشبو کا ہے۔۔۔ لمس اور احساس کا ہے۔۔۔ تصویراورنظر کا ہے۔۔۔ خیال اورفکر کا ہے۔۔۔ ادا اورنازکا ہے۔۔۔قول اور عمل کا ہے۔۔۔ محبت اورعزت کا ہے۔۔۔صبح اور شام کا ہے۔۔۔ سورج اورچاند کا ہے۔۔۔رات اوردن کا ہے۔۔۔زمین اورپھوار کا ہے۔۔۔ محنت اور قیمت کا ہے۔۔۔ خواب اورحقیقت کا ہے۔۔۔ راستے اورمنزل کا ہے۔۔۔جسم اور روح کا ہے۔۔۔عورت اور بچے کا ہے۔۔۔ مرد اورعورت کا ہے۔۔۔عورت اور مرد کا ہے۔۔۔عاشق اورمحبوب کا ہے۔۔۔محبوب  اور عاشق کا ہے۔
"اس لیے مجھے تمہاری ضرورت ہے اور تمہیں میری"
ہم دونوں مل کر ہی اپنا مقصدِ تخلیق حاصل کرسکتے ہیں۔میں تمہارے بغیراپنی جگہ پرقائم تو ہوں۔۔۔میری قدرت میں کوئی کمی نہیں۔ لیکن یہ سوچو باغ میں بہارنہ آئے تو کیا ہو؟ تصویر پر نظر نہ پڑے تو کیا ہو؟ پس سوچتے جاؤ اور یقین کر تے جاؤ۔۔۔تم میرے لیے لازم ہو اور میں اپنے ثمر اپنی زمین کی زرخیزی کے لیےتمہاری پھوار کا طلب گار ہوں۔
یاد رکھنا !!! وجود کا آئینہ دُھندلا جاتا ہے جب تک اس پرذات کا عکس نہ پڑے۔اس لیے اپنے اپنے مقام پراپنے اپنے آئینوں کی قدر کرو۔۔۔اُن کوسنبھال لو۔۔۔اُن میں اپنا عکس کھوج لو۔۔۔اُن کومکمل کردو تو خود بھی مکمل ہو جاؤ گے۔ پھردربدری اورکشکول سے نجات مل جائے گی۔خود مکمل ہو جاؤ اس سے پہلے کے وقت آگے بڑھ کراپنی مرضی کے رنگ لگا دے اور تم دیکھتے رہ جاؤ۔
"دیتے جاؤ اورپاتے جاؤ اس سے پہلے کہ نہ تم دے سکو اور نہ پا سکو "
دسمبر 5 ، 2012

منگل, دسمبر 04, 2012

" کن فیکون "


" سورہ یٰسؔ (36) ۔۔۔۔ آیت۔۔ 82 "
ترجمہ !
"اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اُس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔"
لفظ اوّل ہے اور لفظ ہی آخر ہے۔ رب کا  لفظ "کُن"ہےاور انسان کے لیے پہلا لفظ "اقرا"ہے۔ رب کا لفظ کائنات کے لیے اورزمان ومکاں کی ہر شے کے لیے تھا اس کا ثمرفیکُون ہے۔ اور انسان کا لفظ انسان کے لیے تھا اُس پرعمل نہ صرف انسان کا پہلا اور بنیادی فرض ہے بلکہ یہ وہ الف ہے جو سارے اعمال سارے نظریات کی بنیاد ہے۔ اقرا پہچان کا نام ہے،پڑھنے کے بعد ایمان کا نام ہے۔ہم لفظ نہیں دیکھتے،معنی نہیں دیکھتے، اُس کے اندر نہیں اُترتے، ہم اُس پر بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔۔ ایک بیش قیمت جُزدان میں لپیٹ کر اُونچے مقام پررکھ دیتے ہیں،آنکھیں بند کر کے اُس کا طواف کرتے ہیں اپنے ہاتھوں سے چُھونا تو درکنار اس بارے میں سوچنے کا بھی وقت مشکل سے نکالتے ہیں۔اگر دل میں اُتر جانا ہی اپنی لگن ،اپنی توجہ کا سب سے بڑا راستہ ہوتا تو پھر کتاب کی کیا ضرورت تھی۔کتاب اس لیے ہےکہ ہم بار بار پڑھیں ہر بار نئے معنی تلاش کریں پھر ہمیں اس میں نئے معنی اور بروقت راہنمائی نصیب ہو گی۔
لفظ کی حُرمت یہ ہے کہ جو پڑھے یہ جانے کہ یہ وحی اُس کے لیے اُسی وقت اُس کے دل پر نازل ہوئی ہے۔اللہ   کے ہر حرف میں ایک جہان ِمعنی آباد ہے جس کا ہماری سوچ احاطہ بھی نہیں کرسکتی۔ ہم صرف اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں سے معنی اخذ کرتے ہیں تو پھرانسان جو اللہ کے نور کا پرتو ہے اُس کے حرف کے اندر بھی کئی معنی پوشیدہ ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں یہ اس کا شرف ہے لیکن لکھنے سے پہلے وہ ان معنی کو خود بھی نہیں جان پاتا یہ اس کی"حد" ہے۔
اللہ   کی کتاب پڑھنے والے اُس میں جہانِ معنی تلاش کرتے ہیں،یوں تو ہر حرف عبادت ہے، سعادت ہے لیکن ہم جلد باز کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کی جُستجو میں رہتے ہیں ،ہم وہ بانصیب بدنصیب ہوتے ہیں جو مہلتِ زندگی کو کم جانتے اور کاروبارِ زندگی کو سمیٹنا اوّلین ترجیح گردانتے ہیں۔یہ دنیا اگر کھیل تماشا ہے تو اس سے جان چھڑانے سے پہلے اپنی تلاش میں   رہتے ہیں۔ہم ربِ کائنات کے ہر حرف پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں،اسی لیے بھٹکتے پھرتے ہیں،اسمِ اعظم کے کھوج میں، اس پارس کی چاہ میں جو کُندن بنا دے، اپنی قیمت لگانے کے خواہشمندنہیں جانتے یہ اللہ کی دین ہے، اصل حقدار وہی ہے جو اپنے آپ کو اس بارِ گراں کا اہل ثابت کرے۔
 محبت کی کتاب کا بھی اسمِ اعظم ہوتا ہے وہ جو در در بھٹکتی روح کو تسکین  دیتا ہے تو خیال کی لَو کو یوں مہمیز کر دیتا ہے کہ درد کی مدہم تپش جلتے وجود میں بھڑکتی آگ کو مزید گہرا کر دیتی ہے۔یہ آگ جھلساتی ضرور ہے پر روح کو کُندن بنا دیتی ہے۔
لفظ میں وہ طاقت ہے جو کبھی کم نہیں ہوتی۔یہ وہ مقناطیس ہے کہ جس کی کشش ہمیشہ سے ہے چاہے وہ کلامِ الٰہی ہو یا پکارِ آدمیت ،سچا ہے دل سے نکلا ہے تواُس کی خوبصورتی اورمعنویت کبھی ماند نہیں پڑتی ۔ وہ ہردل کی صدا بن جاتا ہے۔ کہنے والا خدا نہیں عام انسان ہوتا ہے لیکن یہ شرف بھی ہر انسان کو حاصل نہیں کہ اس کا کہا صدیوں سے ہو اوراس کی گونج ہواؤں میں رہے اور ایسا پاک ایسا آسمانی صحیفہ لگے جیسے ابھی اسی وقت پڑھنے والے کے لیے ہی اتارا گیا ہے۔
 محض لفظ کی خوبصورتی،اُس کی گہرائی اہم نہیں بلکہ اس کا وقت،اس کا مقام اور وہ منبع زیادہ اہم ہے جہاں سے سوچ کے دھارے پھوٹتے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ لفظ کہنا لفظ لکھنا رب کی وہ انمول عطا ہے جو بہت کم کسی کا نصیب ہے۔ انسانوں کے اس ہجوم میں زبان وبیان کی فصاحت وبلاغت اور لفظ کی مہک اپنی جگہ خود بنا لیتی ہے۔دوام صرف اس لفظ،اس بیان کا خاصہ ہے جو وقت کی پکار بن جائے اور جس کی جگمگاہٹ ہر زمانے میں روشنی پھیلاتی رہے۔لفظ کو زوال نہیں یہ وہ وحی ہے جو سچے دل سے پڑھنے والے کی روح پر الہام ہوتی ہے اور اُس کے لیے خاص ہے جو پورے اعتماد سے اس کے اندر اُتر کر اپنا آپ تلاش کرے۔جسم کو فنا کیا جاسکتا ہے، لُوٹا کھسوٹا جا سکتا ہے، سوچ پرپہرے بٹھائے جا سکتے ہیں لیکن لفظ کی حُرمت اس کی سلامتی مستحکم ہے۔ جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ اورجو لکھا گیا وہ جس قابل ہوا اسی طور تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔
جس طرح اس دُنیا سے پرے ایک اور دنیا ہے، اس کائنات سے ماورا اورکائنات, اس جہان سے الگ ایک اورجہان یہاں تک  کے انسان بھی وہ نہیں جو دکھائی دیتا ہے،ہم خود اپنے آپ کو نہیں جانتےکس وقت کس قسم کا رویہ اختیار کرسکتے ہیں- اس طرح لفظ بھی وہ نہیں جو پڑھے جاتے ہیں حتٰی کہ اُن کے معنی بھی وہ نہیں جو نظرآتے ہیں-الفاظ کے معنی کا بھی ایک اورجہان ہے جس میں بظاہر سیدھے سادھے عام سے لفظ اگر کسی اور نظر سے دیکھے جائیں تو بات کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہے۔یہ صرف ہمارے سوچنے کا، محسوس کرنے کا رویہ ہے۔یہ وسعتِ نظر ہے جو اگر ہمیں فرش سے عرش تک پہنچا دیتی ہے تو تنگ نظری ہمیں اپنے ہی خول میں بند کر کے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی طالبِ علم کتاب کا ایک ایک لفظ خوب اچھی طرح رٹا لگا کریاد کر لے اور امتحان میں کامیاب بھی ہوجائے لیکن اگر اُسے ان الفاظ کو سمجھانا پڑ جائے تو وہ کبھی بھی دوسروں کو مطمئن نہیں کر پائے گا کیونکہ وہ ان کی حقیقت سے واقف ہی نہیں ہو گا۔ اب یہ ہم پر منحصرہے کہ کامیابی کا معیار کیا ہے ؟ عام امتحانوں میں پاس ہونا یا کسی بڑے امتحان کے داخلے میں پاس ہونا - اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے پہلے سامنے جو دریا دکھائی دے رہا ہے اسے عبور کرنا ضروری ہے کہ اس کے بغیر آگے کا سفر طے نہیں کر سکیں گے۔ یہ سرابِ نظر بھی تو ہو سکتا ہے جوصرف دکھائی دیتا ہے،قریب جانے اور قدم رکھنے کے بعد حقیقت کُھلتی جاتی ہے۔ اللہ ہمیں چیزوں کی اصل کا علم عطا فرمائے آمین۔ 
آخری بات
اللہ یقین کے ساتھ لفظ اُتارتا ہے اورہم لفظ لکھ کراُس پر یقین کرتے ہیں۔لفظ لکھنے کے بعد ہمارے اندر اُترتا ہے اورہم اُس   میں ڈوب جاتے ہیں جبکہ اللہ کے اُتارے ہوئے لفظ جب ہمارے اندر اُترتے ہیں تو ہمیں ڈوبنے نہیں دیتے بلکہ پار لگا دیتے ہیں ۔

پیر, دسمبر 03, 2012

" رات کے راز"

رات کبھی ہماری مرضی سے ہم سے اجازت لے کرنہیں آتی۔وہ بس آ جاتی ہے کب کوئی چمکیلی صُبح، ایک بھری دوپہر مقدر کے مُہیب بادلوں کی زد میں آکر ایک برستی کالی رات بن جائے ہم نہیں جانتے۔ ہم تو اس سے بھی انجان ہیں کہ آنے والی رات کس کے ساتھ گزرے؟ کہاں گزرے اس پر بھی ہمارا اختیار نہیں۔دن کو ہوش ہوتا ہے، بھاگ  سکتے ہیں،فرار کا حوصلہ  بھی مل  جاتا ہےکچھ نہ بھی ملے اپنی مرضی سےآنکھیں بند توکرسکتے ہیں۔۔۔بھیگنے کے بعد اپنے آپ کوسنبھال  سکتے ہیں۔رات کی بارش تو سب بہا لے جاتی ہے۔رات گزرہی جاتی ہے۔۔۔دبے پاؤں چپ چاپ۔ کبھی درد کی ایسی آخری رات بھی آتی ہے کہ لگتا ہے جس کے بعد تاریکی ہی تاریکی ہے اور یہ رات کاٹے نہیں کٹتی ۔  
زندگی رات دن کے دائروں میں سفر کرتی بالاآخر ختم ہو جاتی ہے،کئی روشن دن اندھیری راتوں کی آغوش میں غروب ہو جاتے   ہیں۔ دن اگر پہچان ہے،شناخت ہے تو رات کی تاریکی بھی اپنے اندر اُجالے سمیٹے ہوئے ہے۔سورج کی روشنی ہماری آنکھیں چُندھیا دیتی ہےجبکہ رات کے اندھیرے میں آنکھیں بند ہونے کے بعد یکایک جب کھلتی ہیں تو ایسی روشنی روح میں اترتی ہےکہ  نئی دنیا، نئے منظر سامنے آجاتے ہیں ۔ 
 انہی  روز وشب کے اُتار چڑھاؤ میں کبھی نہ بھولنے والی راتیں بھی آتی ہیں۔ کچھ راتیں زندگی میں صرف ایک بار اُترتی ہیں اسی لیے وہ ہمیشہ ہمارے پاس رہتی ہیں ۔کردار بدلتے ہیں رشتے بدلتے ہیں لیکن رات ایک ہی ہوتی ہے۔ شب کی تاریکی عرفانِ ذات کی وہ منزلیں طے کراتی ہے جس کے دن کی چمک دمک میں صرف خواب ہی دیکھے جا سکتے ہیں ۔
کبھی شبِ دیجور فراقِ یار میں عشق کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے تو کہیں وصال ِ یار کے رمز وآداب سکھاتی ہے۔
کبھی یہ ہجر میں وصال کی لذت سے آشنا کرتی ہے تو کبھی ملن کی انمول گھڑیوں میں جدائی کے نغمے سناتی ہے۔
کبھی بار بار ملنے کی تڑپ پیدا کرتی ہے تو کبھی ایک بار مل کر ساری زندگی پر محیط ہو جاتی ہے۔
کبھی یہ محفل میں کٹتی ہے تو کبھی ذات کی انجمن میں ۔
کبھی عشق ِمجازی کے دھوکے میں تو کبھی عشق ِحقیقی کی چاہ میں ۔
کبھی کسی انجان کے پہلو میں توکبھی کسی نادان کی راہ میں۔
کبھی اپنے آنسوؤں کی حدّت میں توکبھی قہقہوں کی شدّت میں۔
کبھی سفر میں تو کبھی حضر میں۔
کبھی اجنبی راستوں پر نئی منزلوں کی تلاش میں تو کبھی دیکھے بھالے راستوں پر دھوکے کی چاہت میں ۔
کبھی دوست کی قربت میں تو کبھی دشمن کی قدرت میں ۔
کبھی پورے یقین کے ساتھ ہمسفر کے سنگ توکبھی کسی پردیسی کے ساتھ آگہی کے سفر میں ۔
کبھی محرم تو کبھی نا محرم کے تذبذب میں ۔
کبھی مہربان ساعتوں کی نوید لیےکسی کی کائنات کی قربت میں۔ 
تو کبھی ان چاہی منزلوں کے خوف میں اپنے وجود کی چادراوڑھ کرایک عالم ِتنہائی میں ۔
کبھی بے وفائی کی خلش لیے تو کبھی امیدِ صبح نو کی تلاش میں ۔ 
کبھی اپنوں سے دُور اپنے پن کے کھوج میں تو کبھی اپنی محبت کی آزمائش میں ۔
کبھی کسی اندھیرے مدفن میں تو کبھی ابدی عطا کی لذت میں۔
کبھی یہ رات پوری زندگی پر پھیل جاتی ہے توکبھی  ایک پوری زندگی اس رات میں سما جاتی ہے اور پھر وصل ہی وصل، یکجائی ہی یکجائی۔۔۔ نہ دن نہ رات بس وقت ہی وقت اورتصور حقیقت بن کر روح جگمگا دیتا ہے اور وہی رات ہمیشہ خاص ہوتی ہے کہ اس رات کی صبح نہیں ہوتی ۔۔۔ اس رات کی روشنی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی ۔۔۔ یہ ہمارے دن کی تابانی بن کرہمارے خون میں دوڑتی ہے اور آنے والی  راتوں کی تنہائی کا خوف دورکردیتی ہے۔وہ رات جو  رات کے ختم ہونے کی گواہی ہےتوکبھی ایک نئی صبح کی آمد کی پیش رو بھی ہے۔
ہر رات کا اپنا حُسن اپنی دلکشی اپنی لذت ہوتی ہے ایسی راتیں ہم میں سے ہر شخص کی زندگی میں اترتی ہیں ۔۔۔کوئی بےخبر رہتا ہے اور کوئی اُن کے ایک ایک لمحے کو کشید کر کے اپنے اندر اتار لیتا ہے۔
 جس طرح زندگی میں کوئی رات پہلی بار آتی ہے۔ اسی طرح سفر تمام ہونے یا ایک نیا سفر آغاز ہونے سے پہلے کی آخری راتیں بھی ہوتی ہیں۔ایسی آخری ہر رات بہت خاص ہوتی ہے لیکن ہر آخری رات کا ادراک ہمیں نہیں گرچہ لاشعوری طورپرکسی حد تک جان لیتےہیں۔ وہ رات جو لوح ِمحفوظ پر تو رقم ہے پر جب ہمارے جسم و جاں پر اُترتی ہے تو پھر ہی ہمیں اس کے اسرار ورموز سے آگاہی ہوتی ہے۔
ہماری زندگی میں دستک دینے والی دو آخری راتیں ایسی ہیں کہ جب ہم پر گزرتی ہیں تو صرف ہمارا لاشعور ہی اُن کا راز جان پاتا ہے۔ ان راتوں میں ایک رات تو دُنیا میں سانس لینے سے پہلے کی وہ آخری رات ہے جب بچہ اندھیرے سےروشنی کے سفر کی جستجو میں ہوتا ہے اور دوسری اس آئینۂ رنگ وبو کو برت کر  ہمیشہ کے لیے اندھیروں میں ڈوب جانے سے پہلے کی رات ۔ عجیب سی مماثلت ہے ماں کی کوکھ اور دھرتی ماں کی آغوش میں۔ان اندھیروں میں اگر ذرے سے زندگی کی نمو ہے تو فنا ہوتے ہوئے جسم کی ابدی بقا کا پیغام بھی ہے۔ ہماری عقل کی روشنی کبھی بھی ان اندھیروں کے راز نہیں جان سکی اورنہ ہی اُسے اس کی استعداد عطا ہوئی ہے۔
رات اورساتھ لازم وملزوم ہیں۔ وجود کی تکمیل کی گواہی ایک رات سے بڑھ کر کوئی نہیں دے سکتا۔ ہمارا اوّل وآخر وجود کی شناخت ہے جس کے حصول کے لیے کبھی محبت، کبھی عشق،کبھی ہوس،کبھی ضرورت تو کبھی مجبوری کے لبادے اوڑھ کر ہم دردر بھٹکتے ہیں۔ایک روگ ہے جو جان نہیں چھوڑتا۔کبھی کسی در کےسوالی تو کبھی خود داتا کا بھیس بدل کراپنی خواہش کےبھکاری، کبھی زرق برق ملبوسات اور بیش قیمت بناؤسنگھار میں اپنی تکمیل کے خواہش مند۔جان کر بھی اَن جان بنتے ہوئےکہ یہ نشہ ہے خمار ہے جو وقتیہے۔آنکھ آگہی کے اُس لمحے کُھلتی ہے جب رات گُزر جاتی ہے اورزندگی باقی رہ جاتی ہے۔اورہم حیران پریشان اپنے وجود کے چیتھڑے سمیٹے پھرکسی نئی منزل کی تلاش میں گھسٹتے چلے جاتے ہیں۔ہماری عقل بس یہیں تک ساتھ دیتی ہے کہ ہم اپنے آپ سے باہر نکل کر کبھی نہیں جھانکتے۔
اللہ کے کرم سے خیال کی طاقتِ پرواز بُلند ہو جائے توروشنی کے جھماکے میں آنکھ یوں کُھلتی ہےکہ سب اُلٹ پلٹ ہو کر رہ جاتا ہے۔پھر خیال آتا ہے کہ یہ ساری تلاش تو فقط گنتی کے دن رات پر محیط تھی جسے ہم نےاپنی زندگی کے لامحدود وقت پر ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ طلب بڑھتی گئی اوروقت گھٹتا گیا۔اصل ساتھ تو اس رات کا ہونا چاہیےتھا جس کی تنہائی حشر تک پھیلی ہوئی ہے۔وہ رات جو اپنے اندر اتنے عجائبات رکھتی ہے کہ کسی ہمدم کی قربت کے بناءان سے نبردآزما ہونا محض خسارہ ہی خسارہ ہے۔

اس رات کا انتظار ہماری روح کوشاید تخلیق کے پہلے لمحے سے ہوتا ہے اور تکمیل کے آخری پل تک اس کی چاہ مکمل نہیں ہوتی۔اس کی جُزیات تک جاننے کے باوجود ہم اس کی آمد کے احساس سے بھی بےخبر رہتے ہیں ۔اس لمس کا خوف تو ہماری رگ رگ میں سمایا ہوا ہے اس کی شدّت ہمیں ڈراتی بھی ہے اور اپنی جانب کھینچتی بھی ہے ہم ساری زندگی "ہاں یا ناں" کے بیچ گزار دیتے ہیں۔
کبھی اپنا آپ سنوارتے ہیں ۔ محبوب کی پسند میں ڈھالتے ہیں اپنے آپ کو اُس کے قابل بنانے کی سعی کرتے ہیں ۔ آئینے میں جائزہ لیتے ہیں کہ جب بلاوا آئے تو ناز وادا کا کون سا جلوہ محبوب کو پسند آئے گا۔کبھی تھک ہار کر اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتے ہیں جب محبوب بےنیاز ہے،بااختیار ہے تو ہم جوبھی کر لیں وہ راضی ہو یا نہیں یہ اس کی صوابدید ہے۔ کبھی ہم اپنی زندگی آپ جیتے ہیں بے خبر ان جان یوں چلے جاتے ہیں کہ کوئی تکرار نہیں کوئی جھجھک نہیں  اور کبھی روتے پیٹتے لڑتے جھگڑتے زبردستی کا سودا کرتے ہیں۔۔۔ جیسے ناخوش دن گزارے رات بھی ویسی ہی کٹے کون جانے۔
یہ رات راز کی وہ رات ہے جو آشکار تو ہےلیکن اس کیحقیقت صرف اورصرف "میں اور تو" میں پنہاں ہے۔کوئی شراکت نہیں ۔۔۔ کوئی خیانت نہیں ۔ جس وجود پر چھا جاتی ہے وہی اس کا" امین "ہے اور وہی" حق الیقین " ہے۔
اپنی زندگی میں آنے والی ہررات کی قدر کرو اس کو اپنا لوتو تمہیں کئی اندھیری راتوں کےآسیب سے پناہ مل جائے گی۔
"اللہ ایسی ہر اندھیری رات کے بعد ایک روشن صبح طلوع کرے" آمین یا رب العالمین۔
یکم دسمبر ، 2012

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...