جمعرات, نومبر 22, 2012

"اللہ اور ماں"

"ماں اللہ سے قُربت جانچنےکا پیمانہ ہے۔"
انسان جتنا ماں کومحسوس کرتا ہے۔۔۔لاشعوری طور پراُتنا ہی اللہ سےقریب ہوتا جاتا ہے۔ یہ کوئی مُشکل فلسفہ یا عجیب بات نہیں۔اللہ اورماں میں مُشترک قدر"تخلیق"ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں فقط"وسیلہ"ہے۔۔۔ تخلیقِ انسان میں اُس کی حیثیت مشین کے ایک پُرزے سے زیادہ نہیں اور اس میں بھی اس کا کوئی کمال یا ہنر شامل نہیں۔ اللہ کی طرف سے عطاکردہ ایک ذمہ داری ہے۔۔۔جسے چاہتے ہوئے یا نا چاہتے ہوئے سرانجام دینا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کائنات میں اس جیسا   دوسرا پُرزہ ملنا محال ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
مُختصر یہ کہ ماں 
اللہ کے شاہکارکو سامنے لانے کاایک وسیلہ ہے،ایک ذریعہ ہے۔اس سے زیادہ اُس کی کوئی بڑائی نہیں۔ عام دُنیاوی شاہکار بھی خواہ  وہ  کسی مُصورکےفن پارے ہوں یا انسانیت کےفلاح کی خاطر کی گئی ایجادات واختراعات،تخلیق کےبعد سامنے نہ لائے جائیں تو اُن کی قدرومنزلت یا افادیت کا کبھی تعیّن نہیں کیا جاسکتا۔
خالقِ کائنات نے ماں کوعظیم رُتبہ ایک مقام عطا کیا ہے کہ وہ اس کے تخلیقی عمل کومُنتقل کرنے کا ذریعہ ہے۔اللہ نے اپنی ذات کی عظیم صفت محبت کا پیمانہ بھی ماں کو بنایا کہ"اللہ اپنی مخلوق سے ماں سے ستر گُنا زیادہ مُحبت کرتا ہے"۔
ماں کے توسّط سے جب  ملتا  ہے تو دل بےاختیارجھوم جاتا ہے کہ ماں ہماری سوچ۔۔۔ہماری خواہش سےاتنا قریب ہے۔۔۔ تو معبودِحقیقی جو ماں سے سترگنا زیادہ اپنی مخلوق کو چاہتا ہے اُس کے لُطف وکرم کی کیا حد ہو گی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جو انسان اپنی ماں سے قریب ہےوہ اللہ سے قریب ہےیہ شعورکا کھیل نہیں لاشعور کی بات ہے۔جیسے جیسے انسان اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے وہ خالص سے خالص ترہوتا چلا جاتا ہے۔ ماں کومحسوس کرنےوالا بظاہر اللہ کے قریب نہیں تواس میں بھی پریشانی کی کوئی بات نہیں کہ اُس نے فلاح کے راستے پرپہلا قدم تورکھ دیا ہے۔ وقت خودبخود اُسے اس مقام پرپُہنچا دے گا کہ وہ اپنے خالق ومالک کوپہچان لے گا۔اللہ سے دُعا کرنی چاہیے کہ وہ وقت جلد آجائے۔
ماں ہماری زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔۔۔اپنی اس طاقت کو آخری لمحے تک سنبھال کر رکھیں۔حیاتِ ظاہری میں ماں کی قدر کرنا حقوق اللہ ادا کرنے کے بعد ہمارا سب سے بڑا فرض ہے۔دین ودُنیا کا کوئی بھی کام اس سے بڑھ کر نہیں۔حیاتِ ابدی میں ماں کی قدرومنزلت صرف خالقِ کائنات ہی جان سکتا ہے۔ہمیں اللہ سے معافی مانگتے رہنا ہے اورماں کے ابدی سکون کے لیے دُعا کرنی ہے۔ یہ وہ صدقۂ جاریہ ہے جو ہماری دینی ودُنیاوی زندگی کا اصل سرمایہ ہے۔
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اللہ نے اپنی اَن گنت نعمتوں میں سے ایک نعمت کے وسیلے کی اتنی قدرکی ہے۔جبکہ ہم اللہ تعالیٰ 
کی لاتعداد نعمتوں کے ایک ذّرے کا بھی حق ادا نہیں کرسکتے۔وہ ہمیں نوازتا جارہا ہے۔ہم تو اُس کو بجاطور پر محسوس بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے مالک کا کرم ہے کہ راستہ بھی وہی دکھاتا ہے۔ہم صرف ایک کام کرسکتے ہیں اور وہی کرنا بھی چاہیے۔اپنے قول بلکہ اپنے عمل سے  ہرحال میں،ہرسانس میں،ہروقت اللہ کا'شکر'ادا کرناہے۔اسی طرح ہم اللہ بلکہ اپنی ماں،اپنے وجود کی تخلیق کا حق ادا کرنےکی کوشش میں 'کسی حد تک' سُرخرواورایک سیدھے اور سچّے راستے کی طرف رہنمائی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی ہمارا حال ہونا چاہیے اور یہی ہمارا مُستقبل ہوگا۔ ان شاءاللہ
2012 ، 25 جولائی 

بدھ, نومبر 21, 2012

" انتساب سے کتبے تک"۔۔۔۔ سفر درسفر

اپنے احساسات اور خیالات کو لفظ میں پرونے کے بعد کسی بھی لکھاری کی دلی خواہش کتاب کی صورت اُنہیں عزت دینے اور محفوظ کرنے کی ہوتی ہے۔ کتاب کی اشاعت ہو تو اس کا انتساب بھی تحریر کیا جاتا ہے جو کہ سراسر لکھاری کی صوابدید پرہے کہ اپنی سوچ کو لفظ کا جامہ پہنانے اور پھر اسے سمیٹ کر مرتب کرتے ہوئے اپنی کتاب کےپہلےصفحے پر کیا درج کرتا ہے۔انتساب دراصل لکھاری کی طرف سے خراجِ عقیدت ہوا کرتا ہے کہ سوچ سفرکے اس لمحے میں وہ کس کو اپنے ساتھ محسوس کرتا ہے۔
ہم سب کی زندگی میں سب سے اہم ہماری اپنی زندگی کتاب کی بھی عجیب کہانی ہے جس کے آغاز کا انتساب ایک آفاقی سچائی ہے کہ یہ ہمارے ماں باپ کے نام ہے اس کے بعد تاعمر ہم اپنے مقدر کا لکھا پڑھتے چلے جاتے ہیں۔دنیا کی مختصر زندگی کے خاتمے پر جب کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی شروع ہوتی ہے تو اس کا انتساب سب کے سامنے تحریر ہوتا ہے۔ اس کو "آخری جھلک" بھی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔
"آخری جھلک"
تعلیمی ادوار میں ہمیں جتنے بھی امتحانات سے گُزرنا پڑتا ہے اُن سب کا طریقِ کارایک سا ہے۔پہلا سوال لازمی ہوتا ہے۔۔۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سبجیکٹیو اور اوبجیکٹیومیں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔۔۔ ایک پرچہ پہلے بیس منٹ میں حل کر کے دینا پڑتا ہے۔۔۔ کمرۂ امتحان میں موجود ممتحن حضرات اگر چاہیں تو اس کو پڑھ کردینے والے کی قابلیت جانچ سکتے ہیں۔ اگرچہ اس کا دینے والے کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا۔۔۔ نہ اس بات سے اس کے پرچے پر کوئی اثر پڑتا ہے۔۔۔کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ پرچے کے پہلے  حصے میں  پورے نمبر لینے والا دوسرے حصے میں بھی اوّل آئے گا۔ بےشک جس کی تیاری بھرپورہو یقیناً وہ دونوں میں ٹاپ کر سکتا ہےلیکن یہ انسانی ذہن ہی ہےکہ وہ اُس مختصر وقت میں اُن سوالوں کو کس طرح جانچتا ہے جس میں ایک بار لکھنے کے بعد مٹانے کی بھی اجازت نہیں۔الغرض صرف اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن اصل نتیجہ پورا پرچہ حل کر کے ہی سامنے آتا ہے جو کہ صرف لینے والا اور دینے والا ہی جانتا ہے۔ بعض اوقات پہلے پرچے میں کم نمبر لینے والا دوسرے حصے میں اتنے نمبر لے لیتا ہے کہ اچھے طریقے سے پاس ہو جاتا ہے۔
زندگی کے پرچے کو حل کرتے ہوئے بھی ہمیں بالکل اِسی صورتِحال سے گُزرنا پڑتا ہے۔ اس پرچے کے مخصوص سوالات ہوتے ہیں۔۔۔ اُن کے جوابات بھی نوٹس کے ساتھ بتا دیئے جاتے ہیں اورتیاری کا وقت ہماری نظرمیں لامحدود ہوتا ہے۔۔۔ اس لیے ہم ریلیکس کرجاتے ہیں۔۔۔ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ امتحان ہو گا۔۔۔ یہ سوچتے ہیں کہ یہ تو بُہت آسان ہے۔۔۔ اس لیے اس کی تیاری کی کوئی ضرورت نہیں، بس آخر میں جلدی جلدی سب کُچھ دیکھ لیں گے۔۔۔ ابھی ہم نے اس سے مُشکل امتحان دینے ہیں۔۔۔ اُن کی توتیاری کر لیں۔۔۔ اُس امتحان کا لینے والا غفورالرّحٰیم ہے۔۔۔ لیکن یہاں کے امتحان میں ذرّہ برابر بھی کمی رہ گئی توجینا محال ہو گا۔
ایک جیتے جاگتے انسان کا ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لینا ہمارے اُس آخری امتحان کا ایسا پہلا سوال ہے جو سب کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے۔ہمیں ایسا عُنوان مل جاتا ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے نفسِ مضمون بھانپ لیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں جس کا پہلا مرحلہ اچھا طے ہو گیا اس کے آگے کے بھی مراحل آسان ہوجائیں گے۔ دوسرے یہ دُنیا کے سامنے ہماری آخری رونمائی ہوتی ہے۔ہم تمام عمراس جدوجہد میں لگے رہتے ہیں کہ دُنیا ہمیں اچھاسمجھے۔۔۔ اگرہم اس کوشش میں ناکام بھی رہیں پھربھی چاہتے ہیں کہ کم از کم مرتے وقت ہی دُنیا ہمیں اچھا جان لے۔یہ عین حقیقت بھی ہےکہ ہم اللہ سے دُعا میں بھی یہی  مانگتے ہیں کہ ہمیں عزت کی زندگی اورعزت کی موت عطا فرما۔
موت تو وہ عمل ہےجس سے ہر ذی روح نے گُزرنا ہے۔ یہ حیات ِفانی سے حیاتِ ابدی کے سفر کی پہلی منزل ہے۔۔۔ پہلا دروازہ ہے۔ اگر اس میں سے سر اُٹھا کر گُزر گئے تو یقیناً آگے آسانی ہی ہو گی۔ یہ ہمارا گُمان ہے۔ اور اللہ کی طرف اچھا گُمان ہی رکھنا چاہیے۔ اس گُمان کو انسانوں پر اپلائی کرنے سے بچنا ہے۔۔۔ ورنہ ہم شدید قسم کے مغالطے کا شکار ہو جائیں گے۔۔۔ ہمیں کسی کے قدموں کے نشان پر نہیں چلنا۔ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ہم نے کہاں جانا ہے؟ اور ہمارے لیے کون سی منزل کافی ہے؟۔
اصل امتحان وہی ہے جو آخری سانس کی کہانی ہے۔ اللہ سب کو ہر امتحان میں ثابت قدم رکھے۔

منسلک بلاگ۔۔۔۔" منہ دکھائی سے منہ دیکھنے تک" سے اقتباس۔۔۔

"منہ دکھائی سے منہ دیکھنے تک"

 عام بول چال  اور اردو زبان دانی میں "منہ دکھائی" ایک بہت ہی عام فہم  لفظ ہے۔روزمرہ زندگی میں  اس کا استعمال   دنیا میں زندگی کی آنکھ کھلنے کے بعد نومولود کی منہ دکھائی سے  ہوتا ہے جب دیکھنے والے اپنی  اپنی سوچ کے مطابق بچے  کے نین نقش پر تبصرے کرتے ہیں  تو کہیں تحائف اور روپے پیسے سے   رسمِ دنیا  نباہتے  ہیں ۔   سفرِزندگی طے کرتے  کرتے ایک "منہ دکھائی" کا مرحلہ نئی نویلی دلہن کی زندگی میں   آتا ہے۔جو انہی مراحل سے گزرتی ہے۔لیکن   اس سمے وہ   اس "منہ دکھائی" سے نہ صرف باخبر ہوتی ہے بلکہ پوری طرح کاسہ لیس ہو کر اس امتحان  کا سامنا کرتی ہے۔  
عام تاثر ہے کہ مرنے کے بعد عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن  دُنیاوی زندگی   میں اتنے بڑے بڑے عذاب ہیں  کہ جو دفن ہونے تک پیچھا نہیں چھوڑتے۔ زندگی تو ہر ایک کی اپنی اپنی قسمت،اپنی اپنی اہلیت ،اپنے اپنے ظرف،اپنی اپنی ہمت،طاقت کے مطابق "اپنے دامن میں منہ چھپائے" دوسروں کی نظر سے  اوجھل کٹ ہی جاتی ہے  ۔لیکن جیسے ہی آنکھ بند ہوتی ہے دنیا کی نظریں ہمارے چہرے پرمرکوز ہو جاتی ہیں۔کیا اپنا کیاپرایا،ہر ایک آگے بڑھ کر "میت" کے دیدار کی جستجو میں  ہوتا ہے۔زندہ چہروں کی کھوجتی نگاہیں ،ہمارے پتھر ہوتے سرد وجود کے بےحس چہرے میں نہ جانے کون سے اسرار دیکھنے کی  متمنی ہوتی ہیں۔ہم ابھی تو ہر اذیت،ہر مشقت اور ہر روگ کے خاردار تاروں سے اپنی لہولہان روح گذار کر دنیا کی روشنی میں چند ساعتوں کے مہمان ہوتے ہیں۔دنیا اور آخرت کے بیچ بند آنکھوں کی یہ نیند  شاید سکون کا پہلا اور آخری لمحہ ہی توہے کہ مٹی  میں ملنے کے بعد جو آنکھ کھلتی ہےپھر شاید کبھی بند نہیں ہوتی۔
 بتاریخ۔۔مارچ 18۔۔2020
۔۔۔۔
"کتبہ"
جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر پر لگی تختی اگر مالکِ مکان کی شناخت ہے تو کتبہ یا لوح صاحبِ ِ قبر کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ سادہ سی بات اتنی سادہ ہرگز نہیں۔ گھرپر لگی تحتی مالکِ مکان کی حیثیت ( اسٹیٹس) کی ترجمان ہوتی ہے اور بعض اوقات تو کیا اکثراوقات اسے غیرمحسوس طور پر انسان کی زندگی کمائی کا حاصل اور فخر بھی کہا جا سکتا ہے ۔
لیکن دنیا کے منظر سے ہمیشہ کے لیے غائب ہونے کے بعد ملکیت کی علم بردار اس تختی اور قبر کے سرہانے لگے کتبے میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔غور کیا جائے تو روشنیوں سے آباد پکے گھر کی بیرونی دیوار پر لگی اس تختی کے بین روح جھنجھوڑ دیتے ہیں۔ ۔"ہاں یہ وہی"معدوم" ہے جو کسی قبرستان کے دوردراز ویرانے میں مٹی کے مدفن میں "موجود" ہے۔ہم سانس لیتے انسان اپنی موت تو یاد رکھتے ہیں،قبر کے بارے میں بھی سوچتے ہیں لیکن کبھی اپنے اس کتبے کے بارے میں خواب تو خیال میں بھی نہیں سوچتے ۔ وہ کتبہ جس پر فقط ہمارا نام یا ہمارے لواحقین کی محبت وعقیدت اور اُن کا فہم ہی کنندہ ہو گا۔
کتبہ خواہ کسی ویران کھنڈر ہوتی قبر پر لگا ہو یا سجی سجائی قبر کا تاج، نامور شخصیات کی "آخری آرام گاہ" کا ثبوت دے یا گمنام انسان کو "نام" کی تکریم دے۔ہمیشہ باعثِ عبرت ،حسرت اور روح میں اُترنے والے سناٹے کو جنم دیتا ہے۔قصہ مختصر کتبہ انسان کی دنیا کہانی کی کتاب کا وہ آخری
صفحہ ہے جس کے متن سے وہ خود لاعلم رہتا ہے۔
حرف آخر
صفحہ 275۔۔۔مرنے والوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اُن کی قبر پر ایک تاج محل تعمیر ہوتا ہے۔۔۔یا وہ بارشوں میں دھنس کر ایک گڑھا بن جاتی ہےاور اُس میں کیڑے مکوڑے رینگتے ہیں اور یا اُس سے ٹیک لگا کر سائیں لوگ چرس کے سُوٹے لگاتے ہیں۔

بس یہ ہے کہ ییچھے رہ جانے والوں کو فرق پڑتا ہے۔"ماسکو کی سفید راتیں"از مستنصرحسین تارڑ 





منگل, نومبر 20, 2012

"موسم کہانی"

"ہر بات کہی نہیں جاسکتی اَن کہی باتیں موسموں کی طرح ہوتی ہیں"۔
موسم سمجھائے نہیں جاتے'بتِائے'جاتے ہیں۔۔۔ موسم دِکھائی نہیں دیتے محسوس کیے جاتے ہیں۔۔۔ برداشت کیے جاتےہیں اورشُکر کا دامن تھام لیا جائے تو اپنے مالک کے لُطف وکرم کو کُھلی آنکھوں سے سمیٹا جا سکتا ہے۔
سال میں آنے والے موسموں کی طرح انسانوں کے اپنے اندربھی موسم ہوتےہیں۔ہرانسان اپنی عمرکے ادوار  میں اِن موسموں سے گُزرتا ہے،جن میں کوئی ردوبدل،کوئی ارتقاءنہیں ہوتا۔ فرق صرف ترتیب کا ہے کسی پرکوئی موسم پہلے اُترتا ہے کسی پربعد میں۔درد آشنا وہی ہے جس پر وہ موسم گُزر چُکا ہو۔ 
جبر اورحبس کا موسم جس پرگزرچکا ہو وہی تپتے آسمان تلے دوسرے انسان کےکرب کواسی طورمحسوس کرسکتا ہے جیسے! 
" ٹھنڈے کمروں کے مکیں
لُو دیتی گرم ہوا
کیا جانیں
دُور برگد کے نیچے بیٹھے 
مسافر درد آشنا ہیں
ایک موسم ہڈیوں میں اُترتی برفانی ٹھنڈک کا ہوتا ہے جس میں اپنے آپ کوجتنا چاہوڈھانپ لواپنےآس پاس لوگوں کا ہجوم بھی ہو لیکن اپنا دُکھ اپنی کپکپی کسی کےساتھ بانٹی نہیں جاسکتی۔
"گرم کمروں میں
رہنے والے 
مکمل انسان ہیں 
سرد تنہائی اور اندھیرے سے نا آشنا
آگ تاپتا ہوا شخص 
اُس کے پاس وہی جائےگا
جسے حرارت چاہیے" 
سرخوشی اورقرارکا موسم ویسے بھی بہارکےموسم کی طرح ہے کوئی جانے نہ جانے ہر شے خود پکار اُٹھتی ہے۔کوئی ساتھ ہونہ ہوانسان خود اپنی ذات میں انجمن بن جاتا ہے۔
ایک موسم خزاں کا ہوتا ہے۔۔۔ایسی اُداسی ایسی ویرانی رگ وپےمیں اُترتی ہے کہ انسان اپنے آپ سےفرار چاہتا ہے۔ یوں لگتا ہے زندگی کے کینوس پربکھرے رنگ وقت کی تپش سے گڈ مڈ ہو کرکبھی نہ مٹنے والے عجیب رنگ میں بدل گئے ہوں۔ 
ایک موسم برسات کا بھی ہے۔۔۔جس میں انسان صبروشُکرکی نرم پھوارمیں یاپھرعنایات کی برستی بارش میں اپنےخالق کے
لُطف وکرم کے نظارے دیکھتا ہے،اپنے خالق سے قریب ہوتا جاتا ہے۔اپنی پورپورمیں رچی پیاس بُجھاتا ہے۔سیری کی کیفیت اُسےنیا جذبہ،نئی توانائی بخشتی ہے۔پریوں بھی ہوتاہے وہ ابرِباراں،نعمتِ خداوندی دیکھتےہی دیکھتے آفتِ آسمانی میں بدل جاتا ہے۔آزمائش کی جھڑی رُکنے میں نہیں آتی اورنہ اپنے راستے میں آنے والی کسی شے کی پرواہ کرتی ہے۔ اس کا تباہ کُن اثر اس وقت سامنے آتا ہےجب یہ سیلاب سونامی میں بدل جاتا ہے۔سیلاب آتے رہتے ہیں انسان احتیاطی تدابیراختیار کر کے اپنے بچاؤ میں کسی حد تک کامیاب ہوسکتا ہے۔ سیلاب سے درست طریقے سے نمٹا جائے تو پانی اُترنے کےبعد نہ صرف زمین کی زرخیزی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں بلکہ بند بنا کر اُن کے بےمحابا پانی کوکام میں لایا جا سکتا ہے۔مگرجب بند ہی ٹوٹ جائے توسیلاب سونامی میں بدل جاتاہے جس کا نتیجہ صرف اور صرف  تباہی وبربادی ہے۔
یہ تمام موسم دُنیا کے ہرشخص کی زندگی میں اُترتےہیں لیکن ماحول میں آنے والے موسموں کے برعکس ان کی ترتیب ہر انسان میں اُس کی قسمت۔۔۔اس کی محنت کے حساب سے ہوتی ہےکسی  پر کوئی موسم پہلے آتا ہےکسی پربعد میں،کوئی کس موسم کوکس طرح محسوس کرتا ہے،کس طرح برتتا ہے۔۔۔ یہ بھی اُس کا اپنا انداز ہے۔
کسی کے لیے پت جھڑ کا موسم زندگی کا اختتام ہے اور کسی کے لیے ایک نئی زندگی کی ابتدا کا پیغام۔ 
کسی کو معمولی بارش سیلابِ بلا لگتی ہے۔۔۔کوئی آزمائشوں کی موسلادھاربارش میں صبروقناعت کی چادراُوڑھ کرخشک رہتا ہے۔
کوئی بہار کےموسم میں خوش ہوتا ہے۔۔۔ کوئی ایسابدنصیب ہوتا ہے جسے بہارمیں پھولوں کے کانٹے دکھائی دیتے ہیں۔کبھی بہار کا موسم ایسے روگ لگا جاتا ہے کہ سالوں بیت جاتے ہیں گھٹن کم نہیں ہوتی، سانس یوں رُک سا جاتا ہے کہ کسی پل قرار نہیں آتا۔کبھی زندگی کی ڈھلتی شامیں جب خزاںکا سندیسہ سناتی ہیں توگئے موسم میں سمٹی احساس کی خوشبو روح کو مہکا دیتی ہے۔
زندگی موسموں کےآنے جانے کا نام ہے اور موت انہی موسموں کے ٹھہر جانے سے وجود میں آتی ہے۔زندگی موت کی یہ آنکھ مچولی ہم اپنے آس پاس مظاہرِ فطرت میں ہر آن دیکھتے چلے جاتے ہیں۔۔۔کبھی اپنے جسم وجاں میں اِن کا لمس محسوس کرتے ہیں تو کبھی بنا چکھے بنا دیکھے یوں اِس کا حصہ بن جاتے ہیں کہ سب جان کر بھی کچھ نہیں جان پاتے اور بہت کچھ سمجھتے ہوئے بھی سرسری گزر جاتے ہیں کہ ہماری عقل کی حد ہماری آنکھ کے دائرے سے باہر پرواز کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔خزاں ہو یا بہار آنکھ کی چمک باقی رہے تو دیکھنے والی آنکھ ہررنگ میں زندگی کے نقش تلاش کر لیتی ہے
"بدلتا موسم"
موسم بدلتا ہے توساتھی بھی بدل جاتے ہیں ۔ نئے موسم کا نیا لباس اورنئی ضروریات ہی توہوتی ہیں لیکن پُرانے موسم اپنی یادیں اس طوررگوں میں اُتارجاتے ہیں کہ حدّت میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔اوررویوں کی سردمہری میں اپنے وجود کا الاؤ سکون بخشتا ہے۔کبھی برستی بارشوں میں سارے منظر اجنبی سے لگتے ہیں توکبھی پت جھڑ کا موسم دل میں ارمانوں کی کونپلیں جگا دیتا ہے۔چاہے جوبھی ہو ہمارے اندر کا موسم ہی وہ موسم ہے جو بدلتا ہےتوسب کُچھ بدل جاتا ہے۔اگرہم اپنے اندر کےموسم کو سمجھ جائیں اوراس کےلیے تیار بھی ہوں توزندگی کا سفرسہل ہوجاتا ہے۔
حرفِ آخر
ان کہی باتیں موسم کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔ موسم بدلتے جاتے ہیں پھر کیا کہنا کیا روگ لگانا۔
ستمبر20 ،2012

'ہماری اوقات "

"ہماری اوقات ہماری صلاحیت"
کوئی جاننا چاہے کہ اس کی اوقات کیا ہےتو وہ آس پاس دیکھ لے۔۔۔ اپنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لے۔۔۔اپنی اوقات پتہ چل جائے گی۔اللہ نے ہر ایک کو اُس کی صحیح جگہ پر پیدا کیا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دُنیا کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔اپنی بولی خود نہیں لگاتے۔۔۔اپنے اندر نہیں جھانکتے۔۔۔اپنا پوسٹ مارٹم نہیں کرتے۔ اپنے ساتھ گُزارنےکے لیے ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا۔اپنی قابلیت جانچنے کے بعد اصل مرحلہ ہے اپنی عقل، فہم اور اپنے شرف کا جاننا۔۔۔اس کو پہچاننا اور پھر عمل کرنا۔یہاں آکر بہت ذہین لوگ بھی مار کھا جاتے ہیں کہ اگر وہ خود کو کسی لائق سمجھتے ہیں ۔۔۔ مادیت پرستی سےماورا۔۔۔ ایک عظیم مقصد کی راہ پر۔۔۔ چھوٹی چھوٹی لذّتوں کو نظرانداز کر کےابدی سکون پانےمیں سرگرم۔ تو اُن کے پاس دو راستے ہوتے ہیں۔۔۔ یا تواپنی ذات کے اندر قید ہو کر خودفراموشی کے اندھیروں میں گُم ہو جاتے ہیں۔۔۔ اپنی روشنی اپنے تک محدود رکھتے ہیں کہ اس بےمہر دنیا میں ہیروں کی قدر نہیں،کبھی تقدیر سے شاکی تو کبھی بندوں سے دست وگریباں۔ مایوسی کو صبر کے لبادوں میں ڈھانپتے ہیں۔۔۔ناآسودگی کو توکل اور قناعت کی پالش سے چمکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں اپنےتئیں تیار ہو کر دنیا کو اس کے حال پر چھوڑتے ہیں۔ اصل بات یہ ہےکہ وہ گھاٹے کے سوداگرہیں۔جس کے پاس کچھ ہے نہیں اوراسےمعلوم بھی نہیں۔۔۔ وہ تو پھر فائدے میں ہے۔ کہ اس کے پاس توسوچنے کا بھی وقت نہیں۔ جس کے پاس بہت کچھ ہے اور اسے احساس بھی ہےکہ اس کا خزانہ ضا ئع ہو رہاہے۔۔۔وہ نقصان میں یوں ہے کہ ناقدری کا احساس اسے رب کی رضا پر شاکر نہیں ہونے دیتا۔
دیکھنا یہ ہے کہ جو علم جو سوچ ہمارے پاس ہے، اس پرہم کس حد تک عمل پیرا ہیں؟ اورہماری اپنی ذات میں اس سے کیا تبدیلی آئی ہے؟۔ آیا وہ خیال ہمیں نئی منزلوں سے روشناس کرا رہا ہے۔۔۔ گرنے کے بعد اٹھنے ٹھوکر کھانے کے بعد سنبھلنے کا حوصلہ دے رہا ہے۔۔۔ دروازے بند ہونے کے بعد نئے دروازے کُھلنے کے اشارے مل رہے ہیں۔۔۔ ہماری روح تکمیل کے مراحل طے کر رہی ہے۔۔۔ ہم چھوٹے چھوٹےراستوں، پگڈنڈیوں کو چھوڑکر ایک سیدھے اورسچّے راستے پر قدم جما رہے ہیں۔۔۔ ہم کُھلے ذہن،روشن دماغ کے ساتھ راضی بارضا ہیں۔ اگر یہ سب ہو رہا ہے تو پھر فنا میں بھی بقا کا پیغام ہے۔ ہر گُزرتی شب ایک چمکدار صبح کی نوید ہے۔ یہ احساس ابدی جنت کی لذّت کا اشارہ ہے۔
آخری بات!
ہم کبھی بھی نہیں جان سکتے کہ ہماری اوقات کیا ہے؟۔ اپنی اوقات ہمیشہ دوسروں کی آنکھوں میں ملتی ہے۔۔۔اگر ہمیں اُنہیں پڑھنا آجائے۔ دوسروں کے لہجوں میں۔۔۔ اگر ہم اُنہیں سمجھ سکیں۔ دوسروں کے لمس میں۔۔۔ اگر ہم محسوس کر سکیں ۔ دوسروں کے لفظوں میں۔۔۔ اگر وہ خالص ہمارے لیے ہوں ۔ لیکن اہم یہ ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی انسان کی کہی یا ان کہی کو حرف ِآخر نہیں جاننا چاہیے۔ ہمارا مالک بہتر جانتا ہے کہ کون کس مقام پر ہے۔

پیر, نومبر 19, 2012

"سانپ سیڑھی کا کھیل"

دُنیا کےمیدان میں، دُنیا کے اسٹیج پر ہم صرف دو طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں۔
"سانپ اور سیڑھی " 
باقی جتنے ملنے والے ہیں وہ حاضرین ہیں یا تماشائی۔۔۔تالیاں بجاتے ہیں یا اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔آوازیں کستےہیں یا پھر شاباشی کے ڈونگرے برساتے ہیں۔۔۔ کبھی"ایک بار اور"کی صدا لگاتے ہیں توکبھی نقالی کہہ کریکسر رد بھی کر دیتےہیں ۔۔۔کبھی باربار آتے ہیں اورہربارنیا لُطف پاتے ہیں۔۔۔توکبھی ایک بارآ کر دوبارہ نہ آنے کی قسم کھا لیتے ہیں۔۔۔کبھی روبرو ہوتے ہیں تو کبھی ہواؤں میں سوچ کے لمس کوچھوتےہیں۔۔۔ کبھی داتا جان کرخیرات طلب کرتے ہیں،گڑگڑاتے ہیں تو کبھی گدا سمجھ کربھیک دیتےہوئےایک نگاہِ غلط بھی  نہیں ڈالتے ۔۔۔  کبھی ساتھ نباہنےکی قسمیں کھاتے ہیں توکبھی ساتھ یوں چھوڑجاتے ہیں کہ کبھی ملے ہی نہ تھے۔۔۔کبھی قاتل ملتےہیں توکبھی مسیحا۔۔۔کبھی دردہیں توکہیں دلدار۔۔۔
کبھی بادشاہ بھی اپنے تخت سےاُترکرجو ہمارا تماشا دیکھنے آتے ہیں تواِن کے غلام وہیں کونے میں ہمیں اسی طور پسند کرتے ہیں۔ہمارے مسئلے وہاں شروع ہوتےہیں جب ہم 'سانپ سیڑھی' 'تماش بین اورحاضرین' کا فرق بھول جاتے ہیں۔ جس کا جو مقام ہے اس کے مطابق اپنے آپ کو تیارنہیں کرتے۔ ہرشے اپنی فطرت پر ہے۔ کوئی ردوبدل نہیں۔ یہ تقدیر ہے۔۔۔ ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہم اپنی نظراپنے فہم پربھروسہ کرتے ہیں۔ بصارت کواوّلیت دیتے ہیں۔۔۔بصیرت اُس وقت آتی ہےجب پانی سرسے گُزرجا تا ہے۔اپنی نادانی کم عقلی کا دوش دوسروں کودیتے ہیں اور پچھتاوں کی لپیٹ میں بھی آ جاتے ہیں۔
تجربات میں وقت خود ضائع کرتے ہیں اوربعد میں وقت کی کمی کا رونا روتے ہیں۔یہ بھی نہیں جانتے کہ وقت کبھی ہاتھ سے نہیں نکلتا۔ آخری سانس سے پہلے وقت ہی وقت ہے۔اُس وقت کو پکڑلو توصدیوں کا سفرلمحوں میں طے ہو جاتا ہے۔۔۔ فاصلے یوں سمٹتے ہیں کہ کوئی دوری نہیں۔۔۔ کوئی حجاب نہیں۔۔۔ کوئی پردہ نہیں۔دینے والا کبھی نہیں تھکتا۔۔۔معاف کرنے والا کبھی اپنے دروازے بند نہیں کرتا۔۔۔ پُکارسُننے والا ہمیشہ سےساتھ ہے۔۔۔ہم ہی اُس کو بھول جائیں تواوربات ہے۔
ہم  زندگی کے ڈرامے میں  محض کٹھ پُتلیاں ہیں۔ نادیدہ ہاتھوں کی ڈوریوں سے بندھے بس ناچتے چلے جاتے ہیں۔۔۔کبھی جان کر آنکھیں بند کرتے ہیں اور کبھی انجانے میں۔یہ تو بعد میں پتہ چلتا ہے جب ڈرامہ فلاپ ہونے لگتا ہے۔آنکھ آگہی کے اُس لمحے کُھلتی ہے جب پردہ گرنے والا ہوتا ہے پھرسوائے ندامت اورتاسُف کے کچھ نہیں بچتا۔
زندگی کے ڈرامے میں کردار بےشک بنے بنائے ملتے ہیں لیکن ہمیں اپنی اداکاری سے ان میں رنگ بھرنا ہوتے ہیں۔زندگی کے اسٹیج پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کردار اتنی خاموشی سے اپنی جگہ بدل لیتے ہیں کہ گُمان نہیں کیا جاسکتا۔ راہِ عمل یہ ہےکہ ہم جان لیں، پہچان لیں کہ کون کہاں پر ہے؟کس نے اپنی جگہ بدل لی ہے؟ ہمارے کردار کو سہارا دے رہا ہے یا ایکسٹرا بنا رہا ہے؟ کوئی واویلا نہیں بس خاموشی سے اپنا کردار نباہنا ہے اور اسٹیج سےاُترجانا ہے۔
زندگی براہِ راست کھیلے جانےوالا تماشا ہے۔اس میں کوئی ریہرسل نہیں۔۔۔ کوئی ری ٹیک نہیں۔۔۔ کوئی ریکارڈنگ نہیں۔۔۔ جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔۔۔جو کر لیا سو کر لیا۔ کام کرو اور گھر جاؤ۔مزدوری نہ مانگو۔وہ خود ہی مل جائے گی۔ مانگوتوکام کرنے کا حوصلہ مانگو۔ قبولیت کی سند مانگو۔یہی قرینہ ہے۔۔۔ یہی سلیقہ ہے اور یہی اندرکا سکون بھی ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔
 دنیا میں کسی کے جیتنے یا ہارنے کا تعین دیکھنے والی آنکھ سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی محسوس کرنے والا ذہن ایسا کوئی فیصلہ صادر کرنے کا اہل ہے۔۔سب سے بڑھ کر ہم خود اپنی زندگی کی ہار یا جیت کے بارے میں آخری سانس تک نہیں جان سکتے۔
سانپ اورسیڑھی کا کھیل جاری ہے۔ایک قدم آگے نہیں بڑھتااور رُکاوٹوں کےسانپ راستہ روک لیتے ہیں۔ اللہ کا کرم ہےکہ اگلے ہی موڑ پرفاصلہ زمان ومکان کی قیود سےآزاد طےہونے کی نوید ملتی ہے۔لیکن انسان توانسان ہے۔ چوٹ لگےگی تکلیف تو ہو گی۔۔۔ سانپ ڈسے گا درد کی شِدّت تو ہو گی۔اللہ کا فضل یہ ہے کچھ سیکنڈ,کچھ منٹوں یا کچھ گھنٹوں کے 'کوما' کے بعد ذہن اس صورتِحال کوقبول کرکے معمولات کی انجام دہی میں مصروف ہو جاتا ہے۔
"اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"

 

جمعرات, نومبر 15, 2012

" سیلیوٹ "

"حاضر سروس کو سیلیوٹ مارا جائے تو بات بنتی ہے "
فوج میں بھرتی کے بعد ایک عام اصُول یہ ہے کہ اپنے سے بڑے عُہدے دار کو اُس کے مقام پردیکھ کر سیلیوٹ کیا جائے۔یہ نہ صرف اُس کی بڑائی کا اعتراف ہے بلکہ اپنی وفاداری کا اظہار بھی ہے کہ اس کی ہر بات ماننی ہے۔ اُس کی عزت کرنا ہے، اُس کو وہ مقام دینا ہے جس کا وہ حقدار ہے اس میں بڑائی چھوٹائی کا کوئی معیار نہیں یہاں تک کہ باپ بھی اپنے بیٹے کو سیلیوٹ کرتا ہے اگراُس کا عُہدہ اپنے بیٹے سے کم ہو۔ فوج کا ایک مرحلہ ریٹائرمنٹ کا بھی ہوتا ہے اُس کے بعد سیلیوٹ مارنے کی نہ اہمیت ہوتی ہےاورنہ ضرورت ۔ سیلیوٹ لینے والا بھی اس خواہش سے بےنیاز ہوجاتا ہے کیونکہ وہ اپنے حصّے کا کام مُکمل کر چُکا ہوتا ہے۔زندگی میں اُسے جو ملنا تھا مِل گیا اورجو اُس نے دوسروں کو فیض پُہنچانا تھا وہ پُہنچا دیا۔اب ہرشخص اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے ۔۔۔" حُکم دینے اور ماننے کا دور ختم ہوگیا "
The Phase of order and obey has gone
فوج کا یہ اہم اصول ہر انسان کی زندگی پر لاگو ہوتا ہے۔ہر وہ شخص جس نے ہماری زندگی  میں مثبت کردار ادا کیا ہمیں  اُس کی زندگی میں اُس کے سامنے ہی اُسے  عزت دینی چاہیے،سیلیوٹ کرنا چاہیے۔یہی نہیں بلکہ
 ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلے جانے کے بعدکسی کی محبت  میں  آنسو بہانا بھی بےکار ہے۔"ہمیں انسان کی زندگی میں اُس کے سامنے رونا چاہیے"۔
وضاحت یوں کہ  جانے والا اگر بد تھا تو پھر اُس کا شرفتنہ انگیز تھا۔نیک تھا تو ہمیں اُس کی طرح نیکی کرنے کی توفیق کیوں نہ ملی۔دُکھی تھا تو ہم اُس کے دُکھوں کا ازالہ نہ کر سکے۔ہمارا پیارا تھا تو ہم نےاُسے دل سے لگا کر کیوں نہ رکھا۔
اُس کا پیار ہم پرقرض تھا جس کو اُس کی زندگی میں ادا کرنا ہمارافرض تھا۔اُس کے سامنے کم ازکم ایک بارآنسوبہا کراُس کی محبت وخدمت کا اعتراف کرکے شاید ہم اُسے دُنیا کی سب سے بڑی خوشی دے دیتے۔لیکن ہم تو اُس کی نوازشات کی بارش میں بھیگ کر زندگی کا لُطف لیتے رہےاور وہ زندگی سے دُورہوتا گیا۔دوسروں کو راحت وسکون دیتے دیتےاُس کی ذات وقت کے گلیشیئر میں دفن ہوتی چلی گئی۔بروقت ہنگامی امداد سے شاید کچھ سانسیں لوٹ آتیں پر ہمیں پھر بھی عمل کی توفیق نہ ہوئی۔اب جب بازی پلٹ گئی جانے والا چلا گیا تو رونا بیکارِمحض ہے۔اب تو خوش ہونے کا مقام ہے۔۔۔اگر بد تھا تو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ نیک تھا تواپنی نیکیوں کا اجر پا لے گا۔ہم نے اُس کی قدر نہیں کی۔۔۔اللہ کے ہاں اعلیٰ مقام پر ہو گا۔
ہم اس کی خدمات کا حق ادا نہ کر سکے۔۔۔باری تعالیٰ اپنے بندے کی محبت کا پورا بدلہ عطا کرتا ہے۔رونا صرف اپنی نااہلی پر۔۔۔ ایک خوشبو سےمحرومی کے احساس پر ہو تو جائز ہےورنہ اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔

 انسان کی اچھائیاں اُس کے ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد ہی نظر آتی ہیں اور اُن کی روشنی  کافی دیر تک پیچھے رہ جانے والوں کے تاسف کا ساتھ دیتی ہےجبکہ انسان کی برائیاں اُس کے ساتھ دفن ہونے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرتیں اور اس سے ملنے والے  زخم پیچھے رہنے والوں کےلیےکتنا ہی ناسور  کیوں نہ بن جائیں وقت کا مرہم  بہت جلد  ان کے داغ بھی مٹا دیتا ہے۔
زندگی کہانی یہی تو ہے کہ کبھی تصویر کے ایک ہی چوکھٹے میں لگا دوسرا عکس دکھائی نہیں دیتا۔کبھی ہم کسی کے بہت قریب ہو
 کر بھی بہت دور ہوتے ہیں۔اہم یہ ہے کہ ہماری موجودگی کا احساس باقی رہے ۔نہ صرف ہمارے سامنے بلکہ ہمارے جانے کے بعد بھی،اور یہ احساس جب تک خود ہم میں اپنے لیے بیدار نہیں ہو گا دوسرے کبھی اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکیں گے۔
فروری 15۔۔2012

بدھ, نومبر 14, 2012

"ریس کا گھوڑا "

"ریس کا گھوڑا "
عورت کہانی اورگھوڑے کی زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ جب غور کیا تو مماثلت کے حیرت انگیز در کُھلتے چلے گئے۔
زندگی کی گاڑی میں جُتی عورت اورگھوڑا گاڑی میں گھوڑے کی قسمت ایک ہی ہے۔ دونوں اپنے مالک کے اشارے پراَن دیکھی شاہراہ پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ دم لینے کی مُہلت نہیں وقفے وقفے سے کوڑوں کے چابُک پڑتے ہے،ناک میں نکیل ہے۔ دائیں بائیں دیکھنے کی گُنجائش نہیں، چلانے والا ہے کہ بھگائے جا رہا ہے۔ اپنی مرضی کے پڑاؤپرگاڑی رُکتی ہے اوراپنی مرضی سے آرام اورخوراک مُہیا ہوتی ہے اور پھر سفر شُروع ہو جاتا ہے۔ چلانے والا مُطمئن ہےکہ سب کُچھ ٹھیک ہو رہا ہےاوراُسے ہی بُہت مُشقّت کرنا پڑرہی ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ پاؤں کس کےتھک رہے ہیں اوربوجھ کس کے کاندھوں پر ہے۔ اُس کے جسے تو بیٹھنے کی بھی فرصت نہیں۔ ایسے میں اگر گِر جائے تو خوب کھلایا پلایا جاتا ہے۔ یہ مالک کا احسان ہوتا ہے جس سے وہ اپنے تئیں  بُہت برترہوجاتا ہے۔ ورنہ یہ محض اُس کی مجبوری ہے جسے وہ کبھی نہیں مانتا۔
وہ کبھی تسلیم نہیں کرتا کہ یہ گھوڑا اور وہ لازم وملزوم ہیں۔ یہی سوچتا ہے یہ فوراً کھڑا ہو جائے نہیں تو اورمل جائیں گے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھوڑا اُٹھنے سے انکار کر دیتا ہے،اس کی ہمت طاقت ختم ہو جاتی ہے ،آگے سفر کرہی نہیں سکتا تو وہ یکدم بےکار ہوجاتا ہےایک بوجھ بن جاتا ہے۔ کوئی راہ نہ پا کراسے گولی مار دی جاتی ہے۔
یہاں آکرعورت ایک بُلند مقام پرکھڑی ملتی ہے۔ ظاہر ہےانسان اشرف المخلوقات ہے اس کا اورایک حیوان کا کیا مقابلہ ۔عورت پرہرطرف سےچابک پڑتے ہیں۔وہ برداشت کرتی ہے۔اپنی پھٹی ایڑیاں پتھروں سے ٹھوکریں کھا کر پتھروں سے ہی رگڑتی جاتی ہےکہ یہی درد بھی ہے اور درماں بھی ۔ یہی حُسن بھی ہے اوریہی بد نُمائی بھی۔ یہی سفر کی گواہی بھی ہے اور وجود کی شناخت بھی ۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ چلانے والے بدلتے جاتے ہیں، تازہ دم شہ سوار آجاتے ہیں۔ کوڑے اُس کے جسم کے ساتھ روح کو بھی چھید ڈالتے ہیں ۔ وہ پھر بھی سر اُٹھا کر جیتی ہے کہ وہ ایک عورت ہے۔
" مرتی تو وہ نہ جانے کتنی بار ہے یہ ایسا عذاب ہے کہ جو صرف دوزخیوں ہی کا مُقدر نہیں ۔"
2002 ،18 دسمبر

پیر, نومبر 12, 2012

" چاند اور زندگی کی چاندنی"

آج چاند کی پہلی تاریخ ہے۔ہم چاند دیکھتے ہیں یہ بڑھتا جاتا ہےپھر اپنے پورے جوبن پر آتا ہے۔ چاندنی ہماری آنکھیں        خیرہ کرتی ہے۔پھر رفتہ رفتہ گھٹتا ہےیہاں تک کہ نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور پھر تاریک راتیں اور دوبارہ وہی سلسلہ کہ یہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا۔
یہی ہماری زندگی کہانی بھی ہے۔ہم پیدا ہوتے ہیں۔۔۔سفرِزندگی طے کرتے ہیں۔ہرانسان چاند کی طرح روشن ہوتا ہےفرق یہ ہے کہ کسی کی چاندنی ویرانے میں اُترتی ہے تو کسی کی زمانے کی نگاہوں کے سامنے۔۔۔کوئی اپنی چاندنی سے خائف ہو کر خود سے ڈر جاتا ہے اور کوئی اسے اپنا سرمایہ جان کر فخر سے پیش کرتا ہے۔کسی کی چاندنی راہ دکھاتی ہےتو کسی کی چاندنی راہ کھوٹی بھی کر دیتی ہے۔یہ چاندنی ہی ہے جو جواربھاٹا بن کر سمندرمیں طوفان برپا کر دیتی ہے تو کبھی برفیلے پہاڑوں کے دامن میں کسی جھیل کنارے عشق ِلازوال کی داستانیں رقم کرتی ہے۔
یہ چاندنی کا فیض ہےجو اگر جہازوں کو غرق کرتی ہےتو بھٹکےہوئےملاح کی نیّا بھی پار لگا دیتی ہے۔چاندنی نہ صرف باہر کی دنیا روشن کرتی ہےبلکہ ہمارے وجود کے اندر بھی ایک نئی جوت جگا دیتی ہے۔
ہمیں اپنے وجود کو زندہ آباد رکھنا ہےکیونکہ چاندنی گھروں میں ہی اچھی لگتی ہےاور قبرستان کے سناٹوں میں اس سے زیادہ ہیبت ناک منظر کوئی نہیں۔چاندنی بھی وقت کی مہمان ہے۔۔۔وقت کتنے روشن چہرے،کتنی چاندنی راتیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔چاند ڈھلتا ہے،روشنی کم ہوتی ہے انسان صرف اپنے یقین اور اعتماد کے سہارے سفر طے کرتا ہے۔
یہی ہماری دنیا ہے کہ نظروں سے اوجھل ہونا فنا نہیں،خاتمہ نہیں بلکہ یہ کسی اور جانب طلوع ہونے کا اشارہ ہے۔۔۔جہاں ہماری نظرکام نہیں کرتی ہما ری سوچ سے پرے بھی کوئی اور دنیا ہےجو ہماری منتظر ہے۔ 

اللہ سے دعا ہے کہ وہ چاند جو یہاں ہمارے وجود کو روشنی دیتا ہے وہی چاندنی ابدی زندگی میں بھی ہمارے ساتھ  رہے۔  

  آمین یا رب العالمین۔ 

" دیار ِ حرم سے "

خواب آنکھوں میں ہو
تو پانے کی کسک
خواب سامنے ہو
تو چھونے کی تمنّا
لمس مجبُور کرے
تو چوری کا ارادہ
وہ جالی ہو روضے کی
یا ہو غلافِ کعبہ
اپنے ہاتھ سے چُھو کر
اتنا یقین کر لوں کہ
اب میں یہاں موجود ہوں
کوئی فاصلہ نہیں
کوئی رابطہ نہیں
بس میں اور میرا وجود
تیرے لیے ہے
اور تو
میرے لیے
2012 ، 20 اکتوبر






" مٹی...بیج...پودے "

ہم اور پودے "
زندگی دُنیا میں ملنے والا ہمارا گھر ہے۔ جس میں مقدر کی قیمت پر رشتے اور تعلق ملتے اور بنتے ہیں ۔
ہمارے رشتے اس گھر کی مٹی میں نمو پاتے پودے اور پھل دار درخت ہیں جبکہ تعلق اُن پودوں کی طرح ہیں جو گملوں میں ہم خود بڑے شوق سے لگاتے ہیں یہ اِن ڈور بھی ہوتے ہیں اور آؤٹ ڈور بھی۔ سرِراہ پسند آجاتے ہیں تو کبھی کوئی ازراہِ عنایت ارسال کر دیتا ہے۔کبھی ہم بڑے شوق سے نرسریوں سے لے کر آتے ہیں۔شروع شروع میں بڑی لگن سے دیکھ بھال کرتے ہیں۔ پھر وقت گُزرنے کے ساتھ اِن کو اپنی زندگی کا حصہ جان کر بھول جاتے ہیں یہ جانے بنا کہ ہماری بےخبری کی تپش اِن کو کُمہلا رہی ہے تو ہماری نظر کی پھوار سے محروم ہوتے ہوئے پیاس اِن کی رگوں میں سرایت کرتی جارہی ہے۔
اصل میں اُن کا اور ہمارا تعلق براہ ِراست ہوتا ہے۔۔۔ کوئی اور اُن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہوتا اس لیے ہمارے تعلق کے پودے تنہائی کے احساس سے مُرجھا جاتے ہیں ۔جبکہ ہمارے رشتے گھر کی زرخیز مٹی میں نمو پاتے ہیں۔ اُن کی موجودگی بھرپور،شخصیت مکمل، رنگ خوشبو اور تازگی ہر وقت نظروں کے سامنے رہتی ہے۔اُن کے پھل ہمیں زندگی میں اُن کی اہمیت کا احساس دلائے رکھتے ہیں۔اُن کو بنانا سنوارنا,خیال رکھنا  روزمرہ کی  وہ ذمہ داریاں ہیں جس میں بھول چُوک بھی ہو جائے تو کوئی اور ہماری جگہ یہ سب کر سکتا ہے یا کر دیتا ہے-دوسری طرف ہمارے تعلق وہ لےپالک بچے ہوتے ہیں جن کی ایک بھرے پُرے خاندان میں برابری کی جگہ کبھی نہیں بنتی۔وہ صرف ہمارے بھروسے پر ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔۔۔ ہم سے کچھ نہیں مانگتے صرف سوچ کا لمس اور خیال کی پھوار مل جائے تو پھر سے تروتازہ ہو جاتے ہیں۔

ماں باپ اور اولاد کا تعلق مَٹّی،بیج اور پودے کا ہے۔ بیج کیسا ہی ہو،کہیں سے بھی آیا ہو جب مٹی کی کوکھ میں پروان چڑھتا ہے تومٹی بانہیں پھیلا کراُسے اپنی حفاظت اورنِگہداشت میں لے لیتی ہے۔اپنے وجود کی پوری توانائی دے کراندھیرے سے روشنی میں لاتی ہے اور ساتھ  کبھی نہیں چھوڑتی۔زمانے کے سرد وگرم اور تیزوتُند آندھیوں کے مقابل اُسے سر اُٹھا کر جینے کاعزم عطا کرتی ہے۔ جوں جوں پودا پروان چڑھتا ہے اُس میں بیج کے خصائل نمودار ہوتے جاتے ہیں۔مٹّی ہر چیز سے بےنیاز اپنے پورے اخلاص کے ساتھ اُس میں مضبُوطی اور برداشت کا جوہرڈالتی جاتی ہے لیکن کب تک!!!پودا جب اپنے آپ کو سنبھالنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اُس کی خوبیاں اورخامیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ یہ اُس کی وراثت ہے جس سے فرارممکن نہیں۔ اگر اچھی قسم کا اورصحت مند بیج ہو تو خوشبُودار پھول اورپھرعُمدہ پھل اُسے ایک مقام عطا کرتے ہیں ۔ اگر قسم تواچھی ہو لیکن اُس کی تخلیق میں کچھ کمی رہ گئی تو پھولوں اور پھلوں میں بھی وہ ذائقہ وہ لُطف نہیں ملتا لیکن اگر قسم ہی ناقص ہو تو جتنا مرضی عمدہ بیج ہو اُس کے پھول تو دل آویز ہو سکتےہیں لیکن پھل کبھی افادیت نہیں دے سکتے۔مٹی کےساتھ لمس کا۔۔۔ وجود کا رشتہ ہوتا ہے جبکہ بیج اور پودے کے مابین کوئی قریبی رشتہ نہیں ہوتا۔ جب بیج ہوتا ہے تو پودا نہیں ہوتا اورجب پودا تناور ہوتا ہے تو بیج پروازکے لیے تیارہوجاتا ہے۔
جس نے اپنی ماں کی زندگی سے سبق نہیں سیکھا اور باپ کے نقشِ قدم پر چلتے کے ساتھ ساتھ اپنا راستہ خود نہیں چُنا۔۔۔وہ اپنی محنت، صلاحیت اور عقل وشعور کے بل بوتے پر آگے سے آگے تو جا سکتا ہے۔۔۔اپنی کامیابی کا پھل اپنی زندگی میں تو کھا سکتا ہے لیکن!شجرِسایہ دار کی صورت جاوداں نہیں ہو سکتا۔انسان کہانی بھی پیڑ کی طرح ہے۔ پیڑ کی افادیت اس کے بلند ہونے میں نہیں گھنا ہونے میں ہے۔۔۔جتنا اُونچا ہو گا تنہا ہوتا جائے گا۔۔۔بلند ہو کر نظروں میں تو آیا جا سکتا ہے لیکن نظر میں سمایا نہیں میں جا سکتا۔ 

دُنیا کا سب سے خوبصورت احساس اپنے لگائے ہوئے پودے کا پھل کھانا ہے۔وہ پودا جسےمحنت سے سنوارا جائے،مشقت سے دیکھ بھال کی جائےاور فکر سے بیرونی واندرونی حملہ آوروں سے بچایا جائے۔دُنیا کی بدترین محرومی اپنی محنت کی کمائی کوپل میں ہاتھوں سے سرکتے دیکھنا ہےجیسے۔۔۔کھڑی فصل کو آگ لگ جائے یا کوئی آفتِ ناگہانی لمحوں میں سب جلا کر خاک کر ڈالے اور نعمتِ اِلٰہی کا ایک دانہ تک نصیب نہ ہو۔زندگی کہانی میں خوابوں،خواہشوں اور خوشیوں کے لہلہاتے باغ تلاشتے یوں بھی ہوتا ہےکہ کبھی پھل رہ جاتے ہیں اور کھانے والے چلے جاتے ہیں،کبھی پھل نہایت خوشبودار اور بھرپورخوبصورتی سے دل موہ لیتا ہے تو کوئی معمولی کیڑا اپنے زہر سے یوں رس نچوڑتا ہے کہ پہلی نظر کے بعد دوسری نظر سے پہلے ہی بےحیثیت ہو کر رہ جاتا ہے۔ 
حرفِ آخر!
وہ ساتھ جو جسم کی ضرورت بن جاتے ہیں بانس کے درخت کی طرح ہوتے ہیں۔۔۔سربلند،کارآمد اور اندر سے خالی اور روح میں جنم لینے والی قربتیں "بون سائی" کی مانند دل کی نرم ونازک مٹی میں پنپتی ہیں،اُن کو بےمحابا پھیلنے سے روکنے کے لیے اگر شاخوں کوتراش خراش کی سختی سہنا پڑتی ہے تو اُن کی جڑوں کو بھی ایک خاص حد سے آگے سفر کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وقت گزرتا ہے تو ہمارے ظاہری رشتے روح کے بوجھ سنبھال کر اسے شانت کر دیتے ہیں جبکہ دل کے تعلق دیمک کی طرح جسم چاٹ جاتے ہیں اور ہم نادان خسارۂ زندگی جان کر بھی ان جان بنتے گزر جاتے ہیں۔
2012 ، 31 مئی

"بیٹے کے نام"

 ایک خط ۔۔۔۔
میرے پیارے بیٹے
!السلام علیکم
تُم پہلی بار گھرسے دُور،وطن سے دُور اور اپنے رشتوں سے دُور گئے ہو۔ ویسےتوانسان اس دُنیا میں ہمیشہ سے تنہا ہے۔وہ اکیلا آتا ہےاوراکیلا ہی چلا جاتا ہےلیکن اپنے آس پاس پیاروں کی موجودگی اُس کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اپنے وطن کی مِٹّی اُسے گرنے کے بعد اُٹھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔اپنے دیس کی مانوس خوشبو اُسے بےکراں آزادی کا احساس دلاتی ہے۔ زندگی کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ہمیں اپنے بنے بنائے دائرے سے باہرنکلنا پڑتا ہے۔ نِت نئے زاویے انسان کو وُسعتِ نظرعطا کرتے ہیں۔
 تُم جس خطے(کمبوڈیا)میں ہو وہاں بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔جانتے ہو نا کہ پانی اگر رُک جائے، کھڑا رہے تو بیماریاں پھیلاتا ہے  اور یہی پانی اگرزمین میں جذب ہوجائے تو اُس کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔ بہتا جائےتو راستے میں آنے والی ہر شے کو سیراب کرتا چلا جاتا ہےیہاں تک کہ اپنی ذات کی نفی کر کے سمندر میں گُم ہو جاتا ہے۔لیکن پانی کا ایک مخصوص راستہ ،ایک گزرگاہ ہونا ضروری ہے،اپنی حدوں سے تجاوز کرے تباہی وبربادی کے سوا کچھ حاصل  نہیں  ہوتا۔یوں نہ صرف اپنی شفافیت کو مسخ کرتا ہے بلکہ دوسروں کے سرسے چھت اور پاؤں سے زمین بھی چھین لیتا ہے۔انسان کو بہتےپانی کی طرح ہونا چاہیےلیکن اپنی اقدار اپنے شرف کو ساتھ لے کر یہ سفر طے کرنا ہو گا۔
 تُم وہاں کھانا بھی بناتے ہو۔ جانتے ہو کہ کھانا بنانے کے لیے بُہت ساری چیزیں درکار ہوتی ہیں مصالحوں کا تناسب ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو ایک شے سب پر حاوی ہے۔ اس کے بغیر آپ لذیذ کھانے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ بظاہر دیکھنےمیں خوش نظر کھانا اس کے بغیر بےکار ہے۔ میرے پیارے بیٹے اپنے سارے چاہنے والوں کو چھوڑ کر بھی ایک ایسا سہارا ہے جو ہر قدم تُمہارے ساتھ ہے۔ بات صرف اُسے پہچاننے کی ہے۔ اگرچہ وہ روزِاوّل سے ہمارے ساتھ ہے لیکن عارضی سہاروں کے جُھرمٹ میں ہمیں حقیقی روشنی کی قُربت محسوس نہیں ہوتی۔اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ ہمارے قریب ہے۔ یہ وہ کریڈٹ کارڈ ہے جو دُنیا کے ہربنک میں چلتا ہے۔ ہانڈی کانمک ہے جو سامنے موجود ہے لیکن ہم بھاگ بھاگ کر دوسرے مصالحے جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ حیرت سے دیکھتا ہے لیکن ساتھ  پھربھی نہیں چھوڑتا۔جب ہم اُسے"جان" کراپنے ہرکام میں شریک کرتے ہیں تو اپنےعمل کی ذمہ داری اُس پرہی ڈال دیتے ہیں۔ ہمیں کامیابی ملتی ہے تو رب کا شُکرادا کرتے ہیں۔ناکامی کا سامنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں جب' تو'ہمارے ساتھ ہےتو یہ تیری ہی منشاء ہوگی۔ اگر ہمیں ٹھوکر لگی ہے تو ہماری ہی بہتری ہوگی۔
یقین کرو! اللہ کے ساتھ کے احساس سے بڑا سہارا کوئی بھی نہیں ہے۔ تُم ابھی صرف 22 برس کے ہو۔تُمہیں یہ باتیں شاید زیادہ سمجھ نہ آرہی ہوں۔جوان بچّے بُہت تیزرفتار ہوتے ہیں وہ دواوردوچار اور'ٹو دی پوائنٹ' بات کرتے ہیں۔ اُن کے پاس وقت بھی بُہت کم ہوتا ہے۔ چلو یہ سوچنے سمجھنے کا کام آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں۔عملی طورپرکرنے کا کام صرف یہ ہے تُم روزسفر پرنکلتے ہوتو وضو کرکےباہرنکلواورگاڑی میں بیٹھنےکے بعد "بِسمِ اللہ الرحمٰن الٰرحیم پڑھ کرایک بار نماز والا"درود شریف" پڑھ لیا کرو یقین جانواس کی برکت سے تمہارے سب کام آسان ہو جائیں گے۔
یہ بُنیاد کی وہ  پہلی اینٹ ہے جس پرآہستہ آہستہ عمارت خود ہی استوار ہوتی جائے گی۔ ہمارا کام بارش کا پہلا قطرہ بننا ہے۔آتشِ نمرود(دُنیا) میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ اللہ خود ہی راہِ ہدایت کی پہچان عطا کرے گا۔ فرائض کی طرف جانے میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔ ایک وقت آئے گا تُمہارےاندر نمازاورقُرآن کی طرف رغبت پیدا ہو جائے گی۔ہمارے دین میں جبرنہیں۔جب ہم خود کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں تو وہ ہمارے لیے راستے کھول دیتا ہے۔ جُدائی بھی اللہ کی نعمت ہے۔ اپنوں سے دُور ہو کرہم بہتر طور پراُن کی قدر وقیمت جان سکتے ہیں۔ اللہ تُمہارا حامی وناصر ہو۔ جس طرح خیریت سے گئے ہواُسی طرح خیریت سے اپنا کام مُکمل کر کے واپس آؤ۔
 اللہ پاک ہم سب کو ناگہانی حالات اور آزمائشوں سے دُور رکھے۔ اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالے جس کواُٹھانے کی ہم میں سکت نہ ہو۔
والسّلام
تُمہاری "ممی "
2011 ، 11 ستمبر
Phnom Penh - Cambodia                                          
Independence Monument 
Royal palace.  
River side 
 Ravenala madagascariensis. A beautiful plant.
Siem Reap -Angkor 
 


 

Sihanouk ville- Koh kng


"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...